تیونس پارلیمانی انتخابات میں صرف گیارہ فیصد ووٹ پڑے

DW ڈی ڈبلیو پیر 30 جنوری 2023 11:40

تیونس پارلیمانی انتخابات میں صرف گیارہ فیصد ووٹ پڑے

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جنوری 2023ء) تیونس میں 29 جنوری اتوار کے روز پارلیمانی انتخابات کے لیے ووٹ ڈالے گئے اور اطلاعات کے مطابق بیشتر ووٹرز نے پولنگ کو مسترد کر دیا۔ عارضی طور پر دستیاب اعداد و شمار کے مطابق صرف 11.3 فیصد ووٹر ہی پولنگ بوتھ تک پہنچے۔ دسمبر 2022 میں منعقد ہونے والے پہلے مرحلے کے انتخابات میں بھی تقریباً اتنی ہی تعداد میں ووٹ پڑے تھے۔

تیونس میں ٹرانسپورٹ ملازمین کی ہڑتال سے زندگی مفلوج

ان انتخابات کو ملک کے صدر قیس سعید کی جانب سے اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی کوشش اور ایک امتحان کے طور پر دیکھا جا رہاتھا۔ لیکن اتنی کم تعداد میں ووٹ پڑنے کی وجہ سے اب انتخابات کی قانونی حیثیت پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

(جاری ہے)

تیونس: یاس اور امید کے درمیان

کئی اپوزیشن جماعتوں نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا

ملک میں سیاسی طور پر سب سے با اثر اسلامی جماعت النہضہ ہے، جس نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔

اسی کی قیادت والی پارلیمان کو صدر قیس سعید نے پہلے سن 2021 میں معطل کر دیا تھا اور پھر بعد میں اسے ختم کر دیا گیا تھا۔

تیونس: تبدیلی آئین پر ریفرنڈم کو عوامی حمایت کا دعوی، اپوزیشن نے مسترد کر دیا

صدر سعید نے مقننہ کی طاقت کو کم کرنے اور خود کو مزید بااختیار اور سیاسی طور پر طاقتور بنانے کے لیے ملک کے آئین میں بھی تبدیلیاں کی ہیں۔

تیونس میں آئینی ریفرنڈم، طاقت ایک شخص کے ہاتھ میں؟

الیکشن کے بارے میں ہمیں مزید کیا معلوم ہے؟

پہلے مرحلے کے انتخابات میں 10 امیدواروں نے بغیر کوئی ووٹ حاصل کیے ہی جیت حاصل کر لی تھی، کیونکہ ان کے مقابلے میں کوئی دوسرا امیدوار میدان میں نہیں تھا۔ اس بار سات حلقوں کے لیے تو کوئی بھی امیدوار میدان میں نہیں تھا۔ انتخابی افسران کا کہنا ہے کہ ان نشستوں کو بعد میں خصوصی انتخابات سے پُر کیا جائے گا۔

شاہد اور مراکبون جیسے آزاد اداروں کا کہنا ہے کہ کچھ پولنگ مراکز کے سربراہوں نے مبصرین کو ڈالے گئے ووٹوں کے ڈیٹا تک رسائی فراہم کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

شاہد نامی ادارے کا کہنا ہے کہ انتخاب کے روز مہم چلانے کے خلاف قواعد کی بھی خلاف ورزی کی گئی اور حکام نے ووٹرز کو پولنگ مراکز تک پہنچانے کے لیے سرکاری گاڑیوں کا استعمال کیا۔

انتخابی کمیشن کے ایک اہلکار نے ان الزامات کی تردید کی، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ ہو سکتا ہے کہ بعض مقامات پر اس طرح کے اکا دکا واقعات پیش آئے ہوں۔

تیونس میں صحافیوں کی تنظیم 'نیشنل یونین آف جرنلسٹس' کی نائب صدر امیرہ محمد نے ایک ریڈیو پروگرام کے دوران کہا کہ صحافیوں کو بھی بہت سے پولنگ مراکز تک جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔

عوام میں غیر مقبول حکومت

ورک اینڈ ایچیومنٹ نامی حزب اختلاف کی جماعت نے بھی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا۔ اس نے اتوار کے روز اپنی ایک میٹنگ بھی کی۔

'' پارٹی کے سربراہ عبداللطیف مکی نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس سے بات چیت میں کہا، ''اگلی پارلیمنٹ کا حکومت پر کوئی کنٹرول نہیں ہے۔ تو پارلیمنٹ کے اراکین عوام سے، جو وعدے کرتے ہیں، ان کے لیے ایسا طریقہ کار ہے کیا ہو گا، جس کے ذریعے وہ اپنے وعدے پورے کریں گے؟''

چونکہ پچھلی حکومتیں معیشت کو بحال کرنے یا عوامی خدمات کو بہتر بنانے میں ناکام رہی تھیں، اس لیے عوام کے ایک طبقے نے ابتدائی طور پر سن 2021 میں صدر سعید کے اختیارات پر قبضے کا خیر مقدم کیا تھا۔

تاہم اب ایک بڑا طبقہ ان کی طرز حکمرانی سے کافی نالاں ہے۔

حالیہ برسوں میں صدر قیس سعید کی مقبولیت میں کمی آئی ہے، کیونکہ تیونس کے باشندے معاشی بحران کا شکار ہیں۔ بے روزگاری اور ضروری اشیا کی کمی شہریوں کو درپیش سب سے اہم مسائل میں سے ایک ہیں۔

ص ز/ ج ا (اے پی، روئٹرز)