بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد ک میں تعلیم کا حق بمقابلہ چائلڈ لیبر کے موضوع پر مباحثے کا اہتمام

بدھ 1 مئی 2024 18:10

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 01 مئی2024ء) بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبہ ٹیچر ایجوکیشن نے خواتین کیمپس میں آفس آف ریسرچ، انوویشن اینڈ کمرشلائزیشن (اورک) کے تعاون سے یوم مزدور کے موقع پر " بااختیار مستقبل: تعلیم کا حق بمقابلہ چائلڈ لیبر" کے موضوع پر مباحثے کا اہتمام کیا جس میں شرکاء نے بچوں کے حقوق سے متعلق اہم موضوعات پر گفتگو کرتے ہوے تعلیم اور چائلڈ لیبر کے مسئلے کو حل کرنے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔

یونیورسٹی سے جاری پریس ریلیز کے مطابق شرکاء نے متفقہ طور پر ہر ایک کے لیے تعلیم کی اہمیت پر اتفاق کیا۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ تعلیم تک رسائی نہ صرف افراد کو بااختیار بناتی ہے بلکہ ایک خوشحال معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ غربت، عدم مساوات، اور مواقع کی کمی سے نمٹنے کے لیے بچوں کی تعلیم کے حصول کو ترجیح دینا ہو گی ۔

شرکا نے چائلڈ لیبر کے خاتمے اور تعلیم کے فروغ میں اساتذہ کے اہم کردار پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے جامع اور معاون تعلیمی ماحول پیدا کرنے میں اساتذہ کے کردار پر زور دیا جو بچوں کو اسکول میں رہنے اور اپنے خوابوں کو پورا کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔اس مباحثے کے مہمان خصوصی، فیکلٹی آف ایجوکیشن کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر محمد سرور نے شعبہ ٹیچر ایجوکیشن، نے منتظمین کی کاوشوں کو سراہتے ہوے کہا کہ تعلیم سماجی تبدیلی کے لیے ایک بہترین آلہ کے طور پر کام کرتی ہے۔

اس موقع پر شعبہ ٹیچر ایجوکیشن کی چیئرپرسن ڈاکٹر شمسہ عزیزنے مباحثے کو ترتیب دینے کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالی۔ پینلسٹ میں ڈاکٹر تبسم ناز ڈائریکٹر سکولز فیڈرل ڈائریکٹوریٹ آف ایجوکیشن، اسلام آباد، نازنین زہرہ ڈپٹی ڈائریکٹر (پلاننگ) بیسک ایجوکیشن کمیونٹی سکولز، اسلام آباد، شمائلہ اسلم پرنسپل غوری کیرئیر سکول، اسلام آباد، تبسم شیروانی خان پی ایچ ڈی ایجوکیشن اور ثنا نصیر شامل تھیں جبکہ مباحثے کی نظامت ڈاکٹر فوزیہ اجمل نے کی۔

منتظمین کے مطابق اس مباحثے نے شعبہ تعلیم، حکومت اور سول سوسائٹی کے اسٹیک ہولڈرز کے لیے ایک پلیٹ فارم کے طور پر کام کیا تاکہ خیالات کا تبادلہ کیا جا سکے اور اس ضمن میں بہتر طریقے سےکا اشتراک کیا جا سکے اور ہر بچے کے تعلیم کے حق کو یقینی بنانے کے لیے ایک لائحہ عمل مرتب کیا جا سکے۔