سانپوں پر چالیس ہزار بار پیر رکھنے والا انوکھا سائنس دان

DW ڈی ڈبلیو اتوار 19 مئی 2024 20:00

سانپوں پر چالیس ہزار بار پیر رکھنے والا انوکھا سائنس دان

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مئی 2024ء) برازیل سے تعلق رکھنے والے ایک بائیولوجسٹ نے سانپوں کے کاٹنے کی خصلت کا مطالعہ کرنے کے لیے ایک خطرناک اور غیر روایتی طریقہ اپنایا۔ انہوں نے خاص قسم کے جوتے پہن کر تقریباﹰ 40 ہزار بار ایک خطرناک سانپ پر پیر دھرا۔

برازیل کے ایک ماہر حیاتیات یہ بات جاننا چاہتے تھے کہ وہ کون سے ایسے محرکات ہوتے ہیں جو زہریلے سانپوں کو کاٹنے پر اکساتے ہیں۔

اور پھر انہوں نے اس بات کی تحقیق کے لیے ایک انوکھے طریقے کا انتخاب کرتے ہوئے سانپوں پر کئی ہزار بار اپنا پیر رکھا۔انہوں نے یہ تجربہ ایک خاص قسم کے بوٹ پہن کر کیا، جو سانپوں کے ڈسنے سے بچنے کے لیے ہی بنائے گئے تھے، لیکن وہ پھر بھی انہیں ڈسے جانے سے بچا نا سکے۔

(جاری ہے)

بوتانٹن انسٹی ٹیوٹ سے تعلق رکھنے والے جواؤ میگیل ایلویس-نیونس نے اپنی تحقیق کے لیے انتہائی زہریلے وائپر سنیک 'جاراکاس‘ کا انتخاب کیا۔

یہ ایک ایسا سانپ ہے، جو پورے جنوبی امریکہ میں پایا جاتا ہے۔ اس خطے میں ہر سال بیس ہزار سے زائد لوگ اس سانپ کے کاٹے کا شکار ہوتے ہیں۔

سائنسی تحقیق کے نام پر اس خطرناک کوشش سے حاصل ہونے والے نتائج رواں ماہ ایک سائنسی جریدے 'نیچر‘ میں اس دعوے کے ساتھ شائع کیے گئے کہ یہ کئی جانیں بچا سکتے ہیں۔

سائنسی تحقیق کے نتائج کیا تھے؟

ایک سائنسی جریدے کو انٹرویو دیتے ہوئے جواؤ میگیل کا کہنا تھا کہ اس سے قبل بھی اس موضوع پر تحقیق کی جا چکی ہے کہ سانپ کو ڈسنے کے لیے کیا عوامل اکساتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا، ''خصوصی حفاظتی جوتے پہن کر جانوروں کے اوپر یا ان کے قریب چلنے کے ان کے طریقے نے اس عام مفروضے کو غلط ثابت کیا ہے کہ جاراکاس سانپ صرف اس صورت میں کاٹتے ہیں جب لوگ ان کو چھوتے ہیں۔‘‘

اپنے اس تجربے کے متعلق مزید بات کرتے ہوئے الویس نونس کا کہنا تھا، ''میں نے سانپ کے قریب یا ان پر اپنا پیر ضرور رکھا تاہم اس پیر پر اپنے جسم کا تمام وزن نہیں ڈالا۔

اس لیے اس تجربے کے دوران سانپوں کو کئی تکلیف نہیں پہنچی۔ میں نے 116 سانپوں پر 30 مرتبہ یہ عمل دہرایا۔ یعنی میں نے کل چالیس ہزار چار سو اسی بار کسی سانپ پر پیر رکھا۔‘‘

ایلویس نیونس کے مطابق جاراکاس کے کاٹنے کا امکان اس کی جسامت کے بلکل الٹ ہوتا ہے۔ یعنی یہ سانپ جتنا چھوٹا ہوتا ہے اتنا ہی زیادہ امکان ہوتا ہے کہ وہ اپنے دانت سختی سے آپ کی جلد میں گاڑھ دے۔

تحقیق کے مطابق اس سانپ کی مادہ، نر کے مقابلے زیادہ جارحانہ رویے کا مظاہرہ کرتی ہے۔

گرم موسم میں سانپوں کے کاٹنے کا زیادہ خطرہ

تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ اگر سانپوں کو ان کے جسم کے کسی اور حصے کے مقابلے میں ان کے سر پر چھو لیا جائے تو ان کے کاٹنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ اس بات کے بھی واضح امکانات ہیں کہ گرم علاقوں میں سانپ کے کاٹے کے کیسز زیادہ ہوتے ہیں۔

اس تحقیق کی مدد سے اینٹی وینم کی تقسیم میں مدد

ایلویس نیونس کے مطابق ان کا اس انوکھے مطالعے سے حاصل ہونے والی معلومات برازیل میں سانپ کے کاٹنے کے مسئلے سے نمٹنے اور اسے کو کم کرنے میں مدد دیں گی۔

ایلویس کے مطابق، ''ہماری تحقیق اور دیگر اسٹڈیز کے نتائج کا آپس میں موازنہ کر کے اس بات کا اندازہ لگانے میں مدد ملے گی کہ سانپوں کی زیادہ تعداد کن علاقوں میں موجود ہے اور کن علاقوں میں ان کے زیادہ کاٹنے کے کیسز کی توقع کی جاسکتی ہے۔

جیسا کہ میں نے کہا کہ اس سانپ کی مادہ زیادہ جارحانہ رویے کا مظاہرہ کرتی ہے تو اینٹی وینم کی تعداد زیادہ وہاں جانی چاہیے، جہاں ان سانپوں کی تعداد زیادہ ہو۔ ‘‘

سانپ کا زہر اور اینٹی الرجی، کچھ کے لیے دونوں خطرناک

ایلویس نیونس کے مطابق سانپوں کے کاٹے سے بچنے کے لیے خاص جوتے، جو تجربہ کار لوگوں کے مشورے کی مدد سے بنائے گئے ہیں، انہیں پہن کر وہ ایک سو فیصد محفوظ محسوس کرتے ہیں۔

حالانکہ سانپ ان بوٹس کے اوپر سے نہیں کاٹ سکتے تاہم اس کے باوجود انہیں ایک سانپ نے کاٹ لیا جس کے نتیجے میں انہیں ہسپتال میں بھرتی ہونا پڑا۔

یہی وہ موقع تھا جب ایلویس پر یہ انکشاف ہوا کہ انہیں سانپ کے کاٹے کے علاج کے طور پر استعمال ہونے والی دوائی سے ہی الرجی ہے۔ ان کے مطابق انہیں اس حادثے کے بعد پندرہ دن کی چھٹی لینا پڑی۔

تاہم اس واقعے نے ایلوس کے سانپوں کے کاٹنے کے عمل پر تجزیہ کرنے کے جذبے کو کم نہیں کیا۔

وہ اس تلخ تجربے کو بھی سائنسی تجربے کا حصہ بنا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''اب میں ریٹل سنیک اور جراراکاس سانپ کے کاٹنے کی طاقت کا موازنہ کر رہا ہوں اور ساتھ ہی یہ بھی کہ کون سے جوتے آپ کو سانپ کے کاٹنے سے بچا سکتے ہیں۔‘‘

ٹموتھی جونز (ر ب، ش ر)

متعلقہ عنوان :