قومی اسمبلی:سانحہ کوئٹہ کی شدیدمذمت ، دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنیکامطالبہ

دہشتگردی کے واقعات کمزورخارجہ اورداخلہ پالیسیوں کاردعمل ہیں ،علمائے کرام کوخودکش حملوں کے خلاف قوم کومتحدکرنے کیلئے اپناکردار اداکریں دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر اورعدم مداخلت کی پالیسی اپناناہوگی، نیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پرعملدرآمدضروری ہے کولیشن سپورٹ فنڈ ملک میں دہشتگردی پھیلانے کابڑا ذریعہ بن گیا،نوید قمر، عبدالقادر بلوچ،شیریں مزاری،طارق اللہ، مولانا شیرانی، محمد وسیم ودیگر کا اظہار خیال

منگل 9 اگست 2016 10:13

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارآن لائن۔9اگست۔2016ء)قومی اسمبلی کے اراکین نے سانحہ کوئٹہ کی شدیدمذمت کرتے ہوئے ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ٹھوس اقدامات کرنے کامطالبہ کیاہے اورکہاہے کہ دہشتگردی کے واقعات ہماری کمزورخارجہ اورداخلہ پالیسیوں کاردعمل ہے ،علمائے کرام کوخودکش حملوں کے خلاف قوم کومتحدکرنے کیلئے اپناکردارپھرپورطریقے سے اداکرناہوگا، دہشتگردی کے خاتمے کیلئے پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات بہتر کرنا ہونگے اورعدم مداخلت کی پالیسی پرعمل پیراہوناہوگا، نیشنل ایکشن پلان کی تمام شقوں پرعملدرآمدضروری ہے ،کولیشن سپورٹ فنڈبھی ملک میں دہشتگردی پھیلانے کابڑا ذریعہ بن چکاہے ،اس کوبندکرناہوگا۔

پیرکے روزقومی اسمبلی کا اجلاس سپیکرسردارایازصادق کی سربراہی میں شروع ہوا۔

(جاری ہے)

اس موقع پر وفاقی وزیرقانون زاہدحامدنے معمول کی کارروائی کومعطل کرکے سانحہ کوئٹہ پربحث کرنے کی تحریک پیش کی ہے ،جسے متفقہ طور پرمنظورکر لیاگیااس موقع پرایوان میں سانحہ کوئٹہ کے شہداء کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی ،وزیرمملکت برائے قومی تعلیم وداخلہ میاں بلیغ الرحمن نے دعاکرائی جس کے بعدسانحہ کوئٹہ پربحث کاآغازکرتے ہوئے پیپلزپارٹی کے رہنماء سید نوید قمر نے کہا کہ آج کے واقعے پر دل خون کے آنسو رو رہاہے اب اس دشمن کو شکست دینا ضروری ہو گیا ہے، ہمیں اپنے تمام مسائل ایک طرف رکھ کر ان درندوں کو شکست دینے کیلئے ایک ہو نا ہو گا۔

یہ درندے کسی غیرملک کی ایماء پر ایسے دھماکے کرتے ہیں یا پھر مذہبی دہشت گردی یا فرقہ واریت کے نام پر یہ سب کچھ کیا جاتاہے انہوں نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد حکومت اور اپوزیشن باہم مل کر دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے کیلئے یکجا ہوگئے تھے اور کافی حد تک دہشت گردی کو ختم کیا گیا انہوں نے کہا کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد دہشت گردی کے خاتمے کیلئے جو فیصلے کیے گئے تھے ان پر عمل درآمد ابھی تک مکمل طور پر نہیں کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ آج ایک بار پھر پاکستانیوں کو ایک ہو کر نئے عزم کے ساتھ ان دہشت گردوں کا مقابلہ کرنا ہوگا۔

وفاقی وزیر جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے کہا کہ دہشت گردوں کو جہاں بھی موقع ملتا ہے وہ اپنا وار کرتے ہیں انہوں نے کہا جب تک دہشت گردی کی اصل وجوہات کو نہ دیکھا اس وقت تک دہشت گردی پر قابو پانا مشکل ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک کے شہریوں کو تحفظ فراہم کرنا اولین ذمہ داری ہے یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا علاج کسی ایک فرد کے پاس نہیں بلکہ پوری قوم کے پاس ہے اور پوری قوم کو اس دہشت گردی کو مسترد کرنا ہوگا انہوں نے کہا کہ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم سب کچھ کرتے ہیں مگر کسی بھی واقعے کے بعد ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچتے ہیں آج سندھ حکومت اور بلوچستان حکومت کو جو مشکلات درپیش ہیں اس کے حل کیلئے ہم نے کیا کیا ہے انہوں نے کہا کہ ہم سب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایسے موقع پر مکمل سپورٹ فراہم کریں اور قوم کو ان دہشت گردوں کے خلاف بیدار اور مزاحمت پر آمادہ کرنا ہوگا انہوں نے کہا کہ جب ہمارے ہاتھ کسی مذہبی یا سیاسی جماعت کے گریبان تک پہنچ جاتے ہیں توملک میں شور شروع ہوجاتا ہے ہم آج تک اس مسئلے کے حل کیلئے اکٹھے نہیں ہوئے ہیں انہوں نے کہا کہ ڈر ہے کہ اگر ہم متحدہ نہ ہوئے تو ایسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی میں کہیں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہے تاہم خود کش حملوں کا تعلق مذہب کے ساتھ زیادہ ہے اس سلسلے میں مذہبی جماعتوں کو آگے آنا ہوگا یہ تمام مذہب کے نام پر لڑانے والے ہیں ہمارے دین میں اس کی گنجائش نہیں ہے علمائے دین کو تعصبات کو ایک جانب رکھ کر آگے آنا ہوگا انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ اس میں مدارس ملوث نہیں ہیں مگر کالی بھیڑیں ہر جگہ ہوتی ہیں انہوں نے کہا کہ علمائے کرام آگے آئیں ہم ہر معاملے پر ان کے ساتھ ہوں گے انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتیں بھی مل کر دہشت گردی کے معاملے میں حکومت کا ساتھ دیں اگر یہ ملک نہیں رہے گا تو ہمارا کیا ہوگا انہوں نے کہا کہ اس بیماری سے بچنے کا واحد طریقہ ہے کہ ہم اس کے خلاف مزاحمت کریں۔

پی ٹی آئی کی رہنماء ڈاکٹر شیریں مزاری نے کہا کہ کوئٹہ میں ہونے والی دہشت گردی سے پوری قوم کو دکھ ہوا ہے انہوں نے کہا کہ اتنے بڑے پیمانے پر واقعے کی مذمت ہو تی ہے مگر کچھ دنوں کے بعد بھول جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ 8 اگست کو تین سال قبل ایسا وقعہ ہوا تھا بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی پر دہشت گردی کے واقعات ہوئے سانحہ آرمی سکول کے بعد اے پی سی ہوئی نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا اعلان ہوا مگر نیشنل ایکشن پلان پر بھرپور طریقے سے عمل نہ ہوسکا انہوں نے کہا کہ اس میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے پر کسی کو شک نہیں ہے مگر مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے حکمران دہشت گردوں کو یوں نہیں روک سکے ہماری انٹیلی جنس کیوں ناکام ہوجاتی ہے انہوں نے کہا کہ خود کش حملوں کو روکنا مشکل ہے تاہم اپنی سیکیورٹی کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ہمارے دشمن تو ہمیں ٹارگٹ کریں گے مگر ہمیں اپنی سیکیورٹی کو بہتر بنانا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ دہشتگردی اور انتہا پسندی کے خلاف ابھی تک کوئی منصوبہ نہ بن سکا۔ انہوں نے کہا کہ جب تک یہ فیصلہ نہیں کریں گے کہ دہشت گردی کے خلاف ہر سطح پر لڑنا ہوگا۔ اس وقت تک اس کا کوئی حل نہیں نکلے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہسپتالوں کو جنگ کے دوران بھی نشانہ نہیں بنایا جاتا ہے مگر یہاں پر دہشت گرد ہسپتال کو بھی ٹارگٹ بنا رہے ہیں یہ مسلمان نہیں بلکہ انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں ہیں انہوں نے کہا کہ قوم کی بدقسمتی ہے کہ ہر واقعہ کو چند روز میں بھول جاتے ہیں انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے 20 نکات پر مکمل عملدرآمد کے بعد ہی دہشت گردی کا خاتمہ ہو سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ ریاست کو ایسی پالیساں دینا ہونگی جس پر قوم اعتماد کر سکے، ریاست ملک کے اندر اور ملک سے باہر دشمنوں کا مقابلہ کرنے کیلئے واضح پالیسی بنائے تاکہ دہشتگردی کے اس ناسور کا خاتمہ ہو سکے، جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈر صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ گزشتہ 15سالوں سے ملک میں دہشتگردی کے واقعات ہو رہے ہیں اور پتہ نہیں کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا، انہوں نے کہا کہ کوئٹہ خودکش دھماکے میں 90سے زائد افراد جاں بحق ہوئے ہیں، انہوں نے کہا کہ ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کے حکومت کا ساتھ دینا چاہیے، انہوں نے کہا کہ ملک میں دہشتگردی کی وجوہات میں ہماری خارجہ پالیسی بھی شامل ہے، انہوں نے کہا کہ ھندوستان کے جاسوسی کو پکڑنے پر حکومت کیوں خاموش ہے، انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ملک میں کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے، دھماکوں سے شہید ہونے والوں کے لواحقین کی فلاح و بہبود کیلئے کوئی اقدامات نہیں کئے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی خودکش دھماکوں کی شدید مذمت کرتی ہے، جے یو آئی کے مولانا محمد خان شیرانی کہا کہ پاکستان میں سانحہ کوئٹہ جیسے حادثات کا مداوا اس وقت تک نہیں ہو گا جب تک ہم ایسے واقعات کو سنجیدہ نہ لیں انہوں نے کہا کہ ہم دوسروں سے کیا گلہ کریں ہمارا دشمن باہر نہیں بلکہ گھر کے اندرہے، انہوں نے کہا کہ دنیا کے مالک سلامتی کونسل کے 5مستقل اراکین ہیں پاکستان جیسے ممالک کی حکومتیں خطے کے باشندوں کی نہیں بلکہ دوسروں کی ملکیت ہوتی ہیں اور صرف ان کا انتظام ہمارے حوالے ہوتا ہے، انہوں نے کہا کہ خطے پر آج بھی انگریز کی ملکیت ہے، ہماری بیورو کریسی پاکستان کے آزاد ہونے سے 2 سو سال بڑی ہے، انہوں نے کہا کہ حالات پر سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا کہ کیا کولیشن سپورٹ فنڈ ہم وصول نہیں کر رہے ہیں، انہوں نے کہا کہ امریکی رپورٹ مطابق امریکہ اپنی بقا کیلئے دنیا کے ہر خطے پر حملہ کر سکتا ہے، انہوں نے کہا کہ ہمارا میڈیا بھی کرائے پر پروپیگنڈہ کرتا ہے اور 1991سے مغربی دنیا کے تھنک ٹھنک نے کہا ہے کہ دنیا کا نظام اپنی انہتا کر پہنچ چکا ہے اور چوتھی عالمی جنگ اسلام کے ساتھ اور امت مسلمہ کے ساتھ اسلامی ممالک میں ہوگی، انہوں نے کہا کہ بعض کہتے ہیں کہ یہ تہذبیوں کی جنگ ہوگی ایک جانب اسلام اور دوسری جانب دوسری تہذیبیں ہونگی، انہوں نے کہا کہ امریکہ نے دہشتگردی خود ابھاری ہے، انہوں نے کہا کہ اس جنگ کا مقصد اسلام کو بدنام کروانا اور مسلمان نوجواں کو اسلام سے بیزار کرنا ہے، انہوں نے کہا کہ اغوا اور ٹارگٹ گلنگ میں ہماری اپنی فورسز ملوث ہیں کولیشن سپورٹ فنڈ لیکر اپنی ہی شہریوں کو قتل کیا جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ دنیا میں کیسی ملک میں بھی اپنی شہریوں پر جیٹ طیارے استعمال نہیں کیے گئے ہیں مگر پاکستان میں کئے جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ باہر سے پیسے لیکر اپنی ہی لوگوں کو قتل کرنا اور ان پر آنسو بہانا کہاں کا انصاف ہے، انہوں نے کہا کہ امریکہ کی جنگ کیلئے اپندھن فراہم کرنا امریکہ کے ایجنٹ بننے کے مترادف ہے، ہماری ادارے اپنی ہی عوام کا خون بہارہے ہیں، انہوں نے کہا کہ ہمارا دشمن گھر کے اندر ہے اس مسئلے کا حل دفاعی اداروں کے پاس ہے اس مسئلے کو حل خواہشات کی بجائے حقائق کی بنیاد پر کیا جائے۔

ایم کیو ایم کے رکن اسمبلی محمد وسیم نے کہا کہ اس طرح کے واقعات کے بعد ہم بیٹھ جاتے ہیں مگر چند روز کے بعد بھول جاتے ہیں، انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کی کس شق پر عمل کیا گیا ہے، انہوں نے کہا کہ فوج قربانیاں دے رہی ہیں مگر اس کے ثمرات کیا ہونگے، انہوں نے کہا کہ جھوٹ بول کر پاکستان چلایا جارہا ہے، ھمارے ادارے کہاں پر کھڑے ہیں، حکومت کے اقدامات سے عوام کو آج تک کیا ریلیف مل رہا ہے، انہوں نے کہا کہ کراچی میں سیکڑوں افراد کو قتل اور غائب کیا گیا ہے، اس کا ذمہ دار کون ہے، انہوں نے کہا کہ ملک کو سچائی کے راستے پر چلانا ہوگا پہلے پاکستان کی طرف دیکھنا ہوگا، اے این پی کے رکن اسمبلی حاجی غلام احمد بلور نے کہا کہ پاکستان میں تباہی افغان جہاد سے شروع ہوئی ہے، آج جو کچھ ھمارے ساتھ ہورہا ہے وہ ہمارے اپنی غلطیوں کا شاخسانہ ہے، انہوں ے نے کہا کہ مسلمان ممالک میں دہشتگردی کیوں ہو رہی ہے اگر اس دہشتگردی کو روکنا ہے تو ہم اپنے ھمسائیوں کے ساتھ بہتر تعلقات بنانا ہونگے، انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے واقعات میں غریب عوام مرتے ہیں اگر ھم نے اپنے پالیسیاں تبدیل نہ کیں تو اگلے 20سالوں تک دہشتگردی کا شکار رہیں گے، انہوں نے کہا کہ ہمیں زمینی حقائق کو مدنظر رکھنا ہوگا، رکن اسمبلی ایاز سومرو نے کہا کہ سانحہ کوئٹہ کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے، آخر ہم نے کونسا قصور کیا ہے جو اتنی شہادتیں اپنی کندھوں پر اٹھا لی ہیں، انہوں نے کہا کہ اب وقت یہ ہے کہ چاروں صوبوں کے سربراہوں کو بلاکردہشتگردی کے خلاف متحداورمنظم ہوکرمقابلہ کریں ۔

انہوں نے کہاکہ دہشتگردکاکوئی نام نہیں ہے وہ صرف ایک ایجنڈاپرعمل پیراہیں ۔انہوں نے کہاکہ واقعے میں سوکے قریب افرادکی شہادت ایک قومی المیہ ہے ۔انہوں نے کہاکہ انٹیلی جنس اداروں کومنظم کرنے کی ضرورت ہے اوردہشتگردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت ہے ،اگرحکومت تحفظ فراہم نہیں کرسکتی ہے ،تومستعفی ہوجائے ۔انہوں نے کہاکہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کومضبوط بنانے کی ضرورت ہے ،رکن اسمبلی خالدمگسی نے کہاکہ کوئٹہ حادثے کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ،بلوچستان پرخودکش حملہ کوئی نیاواقعہ نہیں ہے ،ہمارا دشمن واضح ہے ،ہمیں متحدہوکراس کامقابلہ کرناہوگا۔

انہوں نے کہاکہ دہشتگردی کے مقابلے میں عوام کواعتمادمیں نہیں لیاجاتاہے ۔انہوں نے کہاکہ جمہوری قوتوں ،عسکری اداروں ،میڈیاسب کو مل کردہشتگردی کے خلاف یکجاہوناہوگا۔رکن اسمبلی ڈاکٹر عارف علوی نے کہاکہ پاکستان تحریک انصاف اس واقعے کی شدید مذمت کرتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ دہشتگردی کے خلاف قوم مکمل طورپرمتحدہے ،دہشتگردی کے بارے میں اے پی سی کے بعد کوئی فرق باقی نہیں رہاہے ،اے پی سی کے منصوبوں پرتنقیداپنے آپ کے اوپرتنقیدہے ۔

انہوں نے کہاکہ کوئٹہ لسانی دہشتگردوں کے حوالے سے ایک حب بن چکاہے ،بلوچستان میں ایسے عناصرکی کثرت ہے ،دہشتگردآسان ٹارگٹ کی تلاش میں ہوتاہے ،حکومت 18کروڑ عوام کوتحفظ فراہم نہیں کرسکتی ہے ۔انہوں نے کہاکہ دنیا کے اندردہشتگردی بڑھتی جارہی ہے اس بات کودوبارہ سوچنا ہوگا، مختلف ناموں سے داعش اورآئی ایس جیسی تنظیمیں بن چکی ہیں ،دہشتگردی میں مذہب استعمال ہوتاہے مگرمذہب اس کی بنیادنہیں ہے ۔

انہوں نے کہاکہ دہشتگردی کے اسباب میں معاشی حالات بھی شامل ہوئے ہیں ،ہمیں ان وجوہات کوختم کرنا ہوگا،جس سے دہشتگردی پیداہوتی ہے ،ملک سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ٹریننگ کیمپوں اوراسلحہ کوروکناہوگا۔انہوں نے کہا کہ دہشتگردی کے مقابلے میں انٹیلی جنس اداروں کومضبوط کرنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ دہشتگردی کے نام پرمذہب کاغلط استعمال کیاجاتاہے ۔اس سلسلے میں علماء کرام کواپناکردار ادا کرنا ہوگا۔انہوں نے کہاکہ مشرق وسطیٰ میں ظلم کم یاختم نہ ہونے تک دہشتگردی کوختم نہیں کیاجاسکتا

متعلقہ عنوان :