پاکستان: بلوچستان میں مفاہمت کی پالیسی اورعدم تحفظ کے بڑھتے خدشات

DW ڈی ڈبلیو ہفتہ 27 اپریل 2024 15:00

پاکستان: بلوچستان میں مفاہمت کی پالیسی اورعدم تحفظ کے بڑھتے خدشات

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 27 اپریل 2024ء) پاکستانی صوبےبلوچستان میں سیاسی اور سکیورٹی امور پر گہری نظر رکھنے والے کئی مبصرین کا کہنا ہے کہ ہتھیار ڈالنے والے افراد کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات نہ کیے گئے تو صوبے میں جاری شورش مزید شدت اختیار کرسکتی ہے۔

رواں ہفتے صوبے کے شورش زدہ علاقے کاہان میں سابق سینئر بلوچ عسکریت پسند کمانڈر گل خان مندرانی مری کو بھی ایسے ہی ایک حملے میں فائرنگ کر کے ہلاک کیا گیا تھا۔

گل خان مری ہتھیار ڈالنے سے قبل کوہلو اور ملحقہ علاقوں میں ایک کالعدم مسلح تنظیم کی قیادت کر رہے تھے۔

اس سے قبل گل خان کے ایک قریبی ساتھی اور کمانڈر اسماعیل پہاڑی کے گھر پر ڈیرہ بگٹی میں بھی حملہ کیا گیا تھا جس میں ان کے بھانجے گوجر بگٹی سمیت سات افراد ہلاک ہوئے تھے۔

(جاری ہے)

بلوچستان کی قومی مفاہمتی پالیسی کے اثرات

گزشتہ چند برسوں کے دوران کوئٹہ سمیت صوبے کے دیگر مختلف علاقوں میں، ماضی میں علیحدگی کی تحریک سے جڑے رہنے والے عسکریت پسند جو اب ہتھیار ڈال چکے ہیں، کے خاندانوں کے دیگر افراد مخالفین کے حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔

بلوچستان میں سن 2015 میں صوبائی مخلوط حکومت نے پر امن بلوچستان قومی مفاہمتی پالیسی کی منظوری دی تھی۔ اس پالیسی کے نفاذ کے بعد صوبے میں ریاست مخالف سرگرمیوں میں ملوث کالعدم تنظیموں کے ارکان کے لیے عام معافی کا اعلان کیا گیا تھا۔

مفاہمتی پالیسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صوبے کے مختلف شورش زدہ علاقوں سے سینکڑوں عسکریت پسند ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہوچکے ہیں۔

حکومتی اعداد و شمار کے مطابق سن 2007 سے اب تک پینتیس سو سے زائد بلوچ عسکریت پسند قومی دھارے میں شامل ہوئے ہیں۔

ہتھیار ڈالنے والے ان عسکریت پسندوں میں ایک کثیر تعداد ایسے افراد کی بھی ہے جوکہ بلوچستان میں جاری علیحدگی کی تحریک میں کلیدی کردار ادا کرتے رہے ہیں۔

قومی دھارے میں شامل عسکریت پسندوں کے سکیورٹی خدشات

صوبے کے ایک دور افتادہ علاقے میں گمنامی کی زندگی گزارنے والے ایک سابق عسکریت پسند کمانڈر کہتے ہیں کہ مخالفین کے بڑھتے ہوئے حملوں سے قومی دھارے میں شامل ہونے والے افراد دن بدن عدم تحفظ کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "کالعدم تنظیموں سے وابستہ لوگ ہمیں راستے سے ہٹانے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ ہمارے کئی لوگ حملوں میں ہلاک ہوچکے ہیں۔" ان کا مزید کہنا تھا کہ ہتھیار ڈالنے والے عسکریت پسندوں کے لیے حالات کو سازگار بنانا بہت ضروری ہے ورنا حکومت پر ناراض بلوچ قائدین کا اعتماد بحال نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے مزید کہا، "ہم میں سے اکثر لوگ اس لیے قومی دھارے میں شامل ہوئے تھے کیونکہ ہمیں حقائق کا علم ہوگیا تھا۔ اپنے اور اہل خانہ کے تحفظ کے لیے پر امن زندگی گزارنے کا فیصلہ غلط نہیں تھا لیکن آج یہاں جو حالات ہیں میرے خیال میں وہ تسلی بخش نہیں۔"

مسلح جدوجہد میں نوجوان طبقہ

اسلام آباد میں مقیم پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار کنفلیکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز کے سربراہ عبداللہ خان کہتے ہیں کہ بلوچستان میں عسکریت پسند تنظیمیں ہتھیار ڈالنے والے افراد کو اس لیے نشانہ بنا رہی ہیں تاکہ حکومتی مفاہمتی عمل دیگر عسکریت پسندوں پر اثرانداز نہ ہو۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "بلوچستان میں سن 2017 کے بعد بی ایل اے اور بی ایل ایف جیسی تنظیموں کی حکمت عملی میں ایک واضح تبدیلی سامنے آئی تھی۔ علیحدگی کی تحریک چلانے والی تنظیمیں پہلے سرداروں، نوابوں اور دیگر قبائلی عمائدین کے زیر اثر ہوا کرتی تھیں لیکن اب یہ تحریک نوجوان فیلڈ کمانڈرز کے کنٹرول میں آچکی ہیں۔

"

عبداللہ خان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں حقوق کی جنگ ایک پیچیدہ تنازع کی شکل اختیار کرچکی ہے جس کے حل کے لیے حکومتی اقدامات کے کوئی خاطرخواہ نتائج سامنے نہیں آ رہے۔ ان کے بقول، "بلوچستان میں حکومت مخالف مسلح تحریک کی جانب بلوچ نوجوان طقبہ تیزی سے مائل ہوتا جا رہا ہے۔ حکومتی سطح پر ایسے اقدامات نہیں اٹھائے جا رہے ہیں جن سے صوبے کے نوجوان طبقے کو ایسے عناصر سے دور رکھا جاسکے جو کہ انہیں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

"

عبداللہ خان کے خیال میں ہتھیار ڈالنے والے سابق عسکریت پسندوں پر مسلسل حملے اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ انہیں مفاہمتی پالیسی کے تحت تحفظ حاصل نہیں اور اگر قومی دھارے میں شامل افراد کی بحالی اور تحفظ پر خصوصی توجہ نہ دی گئی تو صوبے میں شورش کی یہ لہر مزید بڑھ سکتی ہے۔

بلوچستان میں مزاحمتی تحریک کے اہداف کیا ہیں؟

پاکستانی بلوچ یونٹ کے سربراہ اور سندھ کے سابق صوبائی وزیر میر خدا بخش مری کہتے ہیں کہ بلوچستان کے دیرینہ مسائل کے حل کے لیے سیاسی قائدین کا کردار سب سے اہم ہے۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، "بلوچستان میں مفاہمتی عمل کے مطلوبہ نتائج اس لیے سامنے نہیں آرہے ہیں کیونکہ اس ضمن میں سنجیدہ کوششوں اوراعتماد کی بحالی پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ہے۔ یہاں جو لوگ مزاحمتی تحریک چلا رہے ہیں ان پر ایسے خودساختہ جلاوطن قائدین کا اثرورسوخ بھی ختم ہوتا جارہا ہے جو کہ ماضی میں اس تمام عمل میں مرکزی کردار کے حامل رہے ہیں۔

"

خدا بخش مری کا کہنا ہے کہ بلوچستان کی مزاحمتی تحریک حقوق کے لیے نہیں بلکہ ایک الگ ایجنڈے کی تکمیل کے لیے چلائی جا رہی ہے۔ ان کے بقول، "بلوچستان کی یہ تمام کالعدم تنظیمیں قومی دھارے کی سیاست کو روز اول سے ہی غلط کہتی آ رہی ہیں اس لیے وہ مفاہمت کو تسلیم ہی نہیں کرتیں۔ مسلح تنظیموں نے کبھی حقوق کی بات نہیں کی وہ ہمیشہ علیحدگی کی بات کرتے ہیں۔ حکومت نے مفاہمت کی جو پالیسی اختیار کی ہے اس میں سامنے آنے والی خامیوں کو دور کرنے کے لیے نتیجہ خیز اقدامات کی ضرورت ہے ۔"