Samajh Agai - Article No. 1304

Samajh Agai

سمجھ آگئی - تحریر نمبر 1304

دوستوں نے نوٹ کیا کہ فہد بار بار موبائل پرمیسج کرتا اور امی کی بات نظر انداز کردیتاہے

بدھ 20 فروری 2019

شاہ بہرام انصاری
”امی جلدی سے میرے دوستوں کیلئے کھانا تیار کردیں ‘وہ بس آہی رہے ہیں۔“فہد نے کچن کے دروازے پر کھڑ ے کھڑے ہی اپنی امی سے کہہ دیا۔
”ارے تو باہر کیا چوکیدار پہرہ دے رہے ہیں جو اندر آنے سے اِس قدر پر ہیز برتا جارہا ہے ۔پتہ بھی ہے کہ گھنٹہ بھر سے اُن کیلئے کچن میں ہانڈی چڑھا رکھی ہے ۔اِس کے باوجود پوچھے جارہے ہو “۔

امی مصالحے میں چکن ڈالتے ہوئے اُسی کے برابر اونچی آواز میں بولیں
”بھئی اندر میں اِس لئے نہیں آیا کیونکہ موبائل پر گیم کھیل رہا تھا اور دھویں سے میرا سر درد ہونے لگ جاتا ہے ۔“
امی نے فہد کی بات سُنی تو کہنے لگیں:”میں بھی کہوں یہ موبائل کا ابھی تک ذکر کیوں نہیں ہوا ،کیا اِسے استعمال کرتے وقت تمہارا سر نہیں پھٹتا اور تمہیں کیسے پتہ کہ وہ آرہے ہیں ؟امی نے آوازمیں کچھ سختی کے ساتھ استفسارکیا۔

(جاری ہے)

”امی آپ بھی حد کرتی ہیں ۔ظاہر ہے موبائل کے ذریعے‘بس ایک میسج کیا تھا“
فہد کے بتانے پر وہ بولیں ”مجھے معلوم تھا کہ اِ س کا جواب بھی موبائل ہی ہو گا۔لگتا ہے کہ رات کو تمہیں جو نیند سے بڑ بڑا نے کی عادت ہے ‘وہ بھی اسی کمبخت مو بائل کے استعمال کی مہر بانی سے ہے ۔“یہ کہتے ہی امی کچن سے نکل آئیں ۔فہد بہت خوش تھا کہ وہ ایک مہنگے ترین موبائل فون کا مالک بن چکا ہے ۔
موبائل کے بے حد جنون کے سبب اُس کا زیادہ تر وقت اِسی پر صرف ہونے لگا تھا اور اکثر اوقات اِس پر مصروف رہنے کی وجہ سے وہ امی کا کہا بھی نہیں مانتا تھا۔اُس نے آج اپنے دوستوں کو اپنے گھر دعوت پر بلایا تھا۔
عبدالعظیم ‘اسد اور فیصل اُس کے سکول میں پڑھتے تھے اور اُس کے بیج فیلو تھے ۔کھانا پکنے تک وہ تینوں اُس کے گھر پہنچ چکے تھے ۔
فہد نے ٹھنڈے مشروبات سے اُن کی تواضع کی اور پھر چاروں اِدھر اُدھر کی باتوں میں مشغول ہو گئے ۔

باتوں کے دوران تینوں نے نوٹ کیا کہ فہد بار بار موبائل پر میسج کرتا اور اپنی امی کے بلانے پر اُن سے گفتگو کا بہانہ بنا کر اُن کی بات سنی اَن سنی کر دیتا ۔تینوں کو اُس کا یوں موبائل پر لگے رہنا اور اپنی امی کی بات نظر انداز کرنا پسند نہ آیا۔
فیصل نے اُس سے آج سکول سے غیر حاضری کی وجہ دریافت کی تو اُس نے جھینپتے ہوئے بتایا کہ وہ اُن کی دعوت کیلئے بازار سے کھانے پینے کی اشیاء اور دیگر سامان لینے گیا تھا۔
یہ سُن کر اُس کی امی کمرے میں چلی آئیں اور جلدی سے فہد کی بات کی تردید کی کہ اس نے سامان تو آدھے گھنٹے میں خرید لیا تھا۔وقت تو موبائل شاپ پر اپنے موبائل میں نئی گیمز ڈاؤن لوڈ کروانے میں ضائع کیا اور واپس آکر لیٹ ہونے کا بہانہ بنا کر سکول سے چھٹی کر لی ۔نہ جانے یہ موبائل کی جان کب چھوڑے گا بلکہ اب تو موبائل بھی پناہ مانگتا ہو گا کہ کس کے ہاتھ میں آگیا ہوں ۔

اُس نے فہد کو دیکھا تو اُس پر اُس کی امی کی باتوں کا کوئی خاص اثر نہیں ہوا تھا۔وہ اُس کی طرف نظر کرکے بولا:”آنٹی! میرے خیال میں تو بچوں کو موبائل سکول لیول کے بعد لینا چاہئے آج کل موبائل کا جتنا اورجس طرح استعمال کیا جارہا ہے ،اس کا کوئی فائدہ نہیں ۔اگر یہی وقت موبائل پر صرف کرنے کی بجائے کسی اور مفید سر گرمی کیلئے وقف کردیا جائے تو اِس سے نہ صرف ہمارے قیمتی وقت کی بچت ہو گی بلکہ یہ سر گر میاں ہمارے سیکھنے کے عمل میں بھی مددگار ثابت ہوں گی ۔

مجھے اُن والدین پر حیرت ہوتی ہے جو ہر وقت مہنگائی کاروناروتے ہیں جبکہ ہر کو موبائل خود لے کر دیتے ہیں ۔“عبدالعظیم نے اس کی بات کی تائید کی اور کہنے لگا ۔طلبہ اگر موبائل کا استعمال کم کردیں تو دیگر فوائد کے ساتھ وہ آنکھوں کی اور دوسری بیماریوں سے بھی محفوظ رہیں گے کیونکہ سائنسی تحقیق کے مطابق موبائل کا زیادہ استعمال صحت پر بری طرح اثر انداز ہوتا ہے ۔
“فیصل نے محسوس کیا کہ فہد کچھ شرمندہ ہے تو وہ بھی بول پڑا:”تم ٹھیک کہہ رہے ہو عبدالعظیم ! موبائل ہاتھ میں آجائے تو بچے اِس کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں ۔
بعض بچے موبائل فون پر دو دو ‘تین تین گھنٹوں تک لگے رہتے ہیں مگر والدین کو ئی کام کہہ دیں تو سو طرح کے بہانے بنانے لگتے ہیں ۔ویسے تو ہر بچے کو موبائل ایک حد تک استعمال کرنا چاہئے جبکہ طالبات کو اِس کے استعمال میں زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے ۔
موبائل رکھنے والے طلبہ کے والدین کو چاہئے کہ وہ اپنے بچوں پر کڑی نظر اور توجہ رکھیں اور اِس بات کا خاص دھیان کریں کہ وہ موبائل پر کیا کر رہے ہیں ۔“اب تو فہد نے موبائل ایک سائیڈ پر رکھ دیا اور امی سے باقاعدہ سوری کیا تھا۔
امی نے اُسے سمجھاتے ہو ئے کہا:”فہد بیٹا! طلبہ کو موبائل فون کے استعمال میں بہت حساس رہنا چاہئے۔
بچوں کیلئے موبائل سراسر پیسے کا ضیاع ہے کیونکہ دیکھا جائے تو انہیں ا،س کی اتنی ضرورت نہیں ہوتی جتنی ہم نے سمجھ لی ہے ۔
ایک بچے کے پاس موبائل فون ہوتو دوسرا اُس کی تقلید میں والدین سے موبائل خرید نے کی ضد کرتا ہے جو اچھی بات نہیں ۔
کچھ طالب علم تو دکھا وے کے طور پر اپنا موبائل درس گاہ میں لے جانے سے بھی گریز نہیں کرتے ‘یہ بھی غلط ہے جبکہ بعض اوقات تو موبائل فون چوری یا گُم بھی ہوجاتا ہے جس سے اُنہیں گھر والوں سے ڈانٹ الگ پڑتی ہے اور سکول عملے کو پتہ چل جانے پر شرمندگی علیحدہ اُٹھانا پڑتی ہے ۔
“فہد اُن سب کی بات بہت غور سے سُن رہا تھا۔امی نے اُسے یوں دیکھا تو کہا:”میرے خیال میں فہد کو ہماری باتیں سمجھ آگئی ہیں ۔چلو تم سب ٹیبل پر جا کے بیٹھومیں تمہارے لئے کھانا لگاتی ہوں ۔“یہ سن کر عبدالعظیم بولا:”ہاں کیوں نہیں آنٹی ! اسد اور فیصل چلو‘فہد سے تو ہم نے خوب دو ہاتھ کرلئے۔اب ذرا کھانے سے بھی انصاف ہو جائے۔“اُس نے یہ کہا تو فہد سمیت سب ہنستے ہوئے کھانے کیلئے ٹیبل کی طرف بڑھ گئے۔

Browse More Moral Stories