General Raniyan - Article No. 2687

General Raniyan

جنرل رانیاں - تحریر نمبر 2687

بیویاں انسان کو کامیاب بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں

یونس بٹ پیر 1 جولائی 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
یہاں جنرل رانیوں سے مراد وہ نہیں جو آپ سمجھ رہے ہیں۔اگرچہ بچپن میں ہم نے اتنی راجہ رانی کی کہانیاں نہیں سنیں‘ جتنی جنرل رانی کی۔ہمارے تو ایک ایسے جنرل بھی گزرے ہیں جنہیں کشتی رانی دیکھنے کے لئے بلایا گیا تو خوشی خوشی تیار ہو کر پہنچے اور کافی دیر اِدھر اُدھر دیکھنے کے بعد بولے ”وہ جس رانی کا آپ ذکر کر رہے تھے‘ وہ کہاں ہے؟“ لیکن ہماری یہاں مراد جنوبی کوریا کے جنرلوں کی بیویاں ہیں۔
صاحب! وہاں کی حکومت کو اپنے جنرلوں سے ان کی غیر ذمہ داری اور فضول خرچیوں کے متعلق جتنی بھی شکایتیں تھیں‘ وہ ان کی بیویوں کو باقاعدہ بلا کر ان سے ”لگائی“ گئیں اور کہا گیا کہ آپ اپنے خاوندوں کو کفایت شعاری کا سبق دیں۔

(جاری ہے)

لگتا ہے حکومت کو پتہ چل گیا ہے کہ بیویاں ہی جنرلوں کو سبق سکھا سکتی ہیں۔
صاحب! اب ہمیں سمجھ آئی کہ بڑے بوڑھے جونہی لڑکا آوارہ اور غیر ذمہ دار ہونے لگے‘ اس کی شادری کرنے کا کیوں سوچنے لگتے ہیں۔

مشہور دانشور والٹیر نے کہا ہے کہ میرا بس چلے تو تمام مجرموں کی شادی کرا دوں۔اس نے تو اعداد و شمار سے ثابت کیا کہ جتنے لوگ شادی شدہ ہوں گے‘ اتنی جرائم میں کمی ہو گی۔آپ جرائم کے گوشواروں کے حیرت انگیز خانوں پر نظر ڈالیں تو دیکھیں گے کہ ایک باپ کے مقابلے میں سو مجرد نوجوانوں کو سزائے موت ملی۔اگرچہ یہ سیدھی سیدھی تھانے بند کر کے میرج سنٹرز کھولنے والی بات ہے۔
تاہم انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی ہے کہ فوجیوں کی شادیاں کرا دو‘ پھر وہ فوج سے فرار نہیں ہوں گے۔یوں انہوں نے کورٹ میرج کو کورٹ مارشل پر ترجیح دی۔شادی اور فوج کا رشتہ 1980ء میں امریکی اداکار جیمز گارڈنر نے یوں جوڑا کہ فوج بھی شادی کی طرح ہوتی ہے کہ ہر بندہ اس سے شاکی ہوتا ہے لیکن حیرانی کی بات یہ ہے کہ ہر کوئی اس کی لسٹ میں اپنا نام درج کرانے کے لئے لائن میں بھی لگا ہوتا ہے۔
ویسے فوجیوں سے ہمیں کوئی شکایت نہیں۔ایک بار ابراہیم لنکن اپنے فوجی جنرل سے بحث کر رہے تھے‘ اس کی ہر بات کو دلیل سے رد کرتے جاتے لیکن جنرل نے قائل ہونے کی بجائے برہم ہو کر کہا”کیا آپ مجھے بے وقوف سمجھتے ہیں؟“ لنکن نے مسکرا کر کہا”میں تو آپ کو بے وقوف نہیں سمجھتا لیکن ہو سکتا ہے‘ میں غلطی پر ہوں۔“لیکن صاحب کوریا حکومت نے یہ بحث خود کرنے کی بجائے تھرو پراپر چینل کی۔
البتہ ایک بات کی سمجھ نہیں آئی کہ فوجیوں کی بیویوں سے ان کے خاوندوں کی فضول خرچیوں کی شکایت کیوں کی گئی کیونکہ مرد تو پیسے کمانے کے لئے چھ دن کام کرتے ہیں اور ایک دن چھٹی جبکہ بیویاں پورے سات دن کام کرتی ہیں‘ ایک دن بھی پیسے خرچنے سے چھٹی نہیں کرتیں۔ایک ایسی ہی بیوی خاوند کے لئے رومال کا کپڑا لائی تو خاوند نے پوچھا ”میرے ایک رومال کے لئے اتنا کپڑا؟“ تو وہ بولی ”اگر آپ کے رومال سے بچ جائے تو میں سوٹ بنوا لوں گی۔
“کامیاب خاوند کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ جو اس سے زیادہ کمائے‘ جتنے اس کی بیوی خرچ کرتی ہے اور کامیاب بیوی وہ ہوتی ہے جو ایسا خاوند ڈھونڈنے میں کامیاب ہو جائے۔بہرحال کوریا حکومت نے جو کچھ کیا‘ سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا۔سنا ہے کہ حکومت کی اس بریفنگ کے بعد ایک بیوی نے گھر جاتے ہی خاوند جنرل کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ آپ اپنی فضول خرچیاں دیکھیں‘ ہمیشہ وہ چیزیں خرید کر لاتے ہیں جن کا گھر میں کوئی استعمال ہی نہیں ہوتا۔
خاوند نے پوچھا ”مثلاً؟“ بولیں”دیکھیں! آپ چار سال پہلے یہ آگ بجھانے والا آلہ خرید کر لائے تھے‘ آج تک یہ استعمال نہیں ہوا۔“
ہمارے ہاں روایت ہے کہ ہم شکایت لے کر اس کے پاس جاتے ہیں جو ہمیں زیادہ بااختیار اور منصف مزاج لگتا ہے۔ویسے بھی بیوی تو گھر کی حکمران ہے‘ ساس وزیر جنگ‘ سالیاں وزیر داخلہ‘ سالے وزیر خارجہ اور صدر یہاں بھی سسر صاحب ہی ہوتے ہیں جبکہ خاوند عوام ہوتا ہے۔
اسے عوام شاید اس لئے کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں عوام اپنے حکمران بدلتے رہتے ہیں جبکہ حکمرانوں نے آج تک عوام کو بدلنے کی کوشش نہیں کی۔بہرحال جو شخص اپنی بیوی سے نہیں ڈرتا‘ وہ بڑا بزدل ہوتا ہے۔
صاحب! ہمیں آج پتہ چلا ہے کہ کوریا نے اتنی ترقی اس طرح کی کہ وہاں جب کوئی غلط کام کرتا ہے‘اس کی شکایت اس کی بیوی کی عدالت میں کر دی جاتی ہے۔فرانسیسی رائٹر میکلولم ڈی چیزل کہتا ہے ”بیوی وہ عدالت ہے جو دن رات کھلی رہتی ہے۔
یوں اس کورٹ میں ہر وقت اپیل ہو سکتی ہے“ویسے شادی کے آٹھ دس سال بعد یہ کورٹ اچھی خاصی سپریم کورٹ بن جاتی ہے کہ اس میں خاوند کے لئے کوئی اپیل نہیں رہتی۔ہنری کی شعلہ بدن اداکارہ زساز ساگابورے نے کہا ہے کہ خاوند آگ کی طرح ہوتا ہے۔اگر اس پر بروقت قابو نہ پایا جائے تو یہ آگ پھیل جاتی ہے۔یوں محترمہ نے اکیلے پوری ہنری کی آگ پر قابو رکھا۔
اسی لئے باب ہوپ کو کہنا پڑا کہ جس طرح ٹی وی والوں کا ایک ڈرامہ ہٹ ہو جائے تو وہ اس کی سیریز بنا ڈالتے ہیں‘ ایسے ہی زساز ساگابورے نے ایک شادی کی کامیابی کے بعد اس کی سیریز شروع کر دی۔ویسے بلاشبہ شادی شدہ مرد زیادہ قانون کا احترام کرتے ہیں جس کی عادت انہیں گھر سے پڑتی ہے کیونکہ وہ جب مدر ان لاء یعنی قانونی ماں کا احترام کرتے ہیں تو سمجھتے ہیں قانون کا ہی احترام کر رہے ہیں۔
کچھ افریقی ممالک میں تو فوج میں بھرتی کے وقت شادی شدہ کو ترجیح دی جاتی ہے کہ شادی شدوں کو پہلے ہی لڑنے کا تجربہ ہوتا ہے۔
بیویاں انسان کو کامیاب بنانے میں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہیں۔شاید عرب شیخ اپنی بیویوں ہی کی وجہ سے مالا مال ہیں بلکہ وہ بیویوں سے بھی مالا مال ہیں۔پچھلے دنوں ابو ظہبی کے ایک ہوٹل میں سو عرب شیخوں کو ان کی بیویوں سمیت دعوت دی جانا تھی تو ہوٹل کے مالک نے معذرت کر لی کہ ہمارے ہال میں صرف چار سو سیٹیں ہیں۔

صاحب! اب ہمیں اس بات کی سمجھ بھی آ گئی ہے کہ میاں نواز شریف صاحب پاکستان کو بار بار کوریا بنانے کی بات کیوں کرتے ہیں۔ویسے بھی وہ میاں ہیں اور ایک میاں سے زیادہ بیوی کی افادیت کون جان سکتا ہی؟ ہو سکتا ہے کوریا کی طرح اب یہاں بھی بد عنوانی کرنے والوں کی شکایتیں ان کی بیویوں سے کی جایا کریں۔ممکن ہے بیویوں کو آنریری مجسٹریٹ بنا دیا جائے۔
ویسے اگر ماں ملک کو اچھا مستقبل دے سکتی ہے تو بیوی ملک کو اچھا حال کیوں نہیں دے سکتی۔اب تو لگتا ہے نوابزادہ نصر اللہ صاحب کا آئندہ اتحاد بیویوں کا ہی ہو گا۔یوں انہیں کسی کی شکایت کے لئے صدر صاحب کے پاس بھی نہ جانا پڑے گا لیکن انہیں چاہیے کہ کسی بیوی کے سامنے انتقال اقتدار کی بات نہ کریں۔کہیں وہ کسی اقتدار صاحب کے انتقال کی خبر سجھ کر رونے نہ لگیں۔بہرحال اس طرح جرائم میں کمی آ سکتی ہے لیکن یہ نہ ہو‘ جیسے سلطانہ ڈاکو شادی کے بعد کسی کو ملا اور کہنے لگا کہ اب میں نے توبہ کر لی ہے۔دوسرے نے خوش ہو کر کہا ”آپ نے جرائم سے توبہ کر لی؟“ کہا ”نہیں‘ شادی سے توبہ کر لی۔“

Browse More Urdu Husband And Wife