In Law And Order - Article No. 2674

In Law And Order

ان لاء اینڈ آرڈر - تحریر نمبر 2674

ہم نے تو ملک سے جہیز کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے یہی طریقہ بتایا تھا کہ اب عورتیں‘ مردوں کو بیاہ کر لے جایا کریں

یونس بٹ بدھ 3 اپریل 2024

ڈاکٹر محمد یونس بٹ
اتنا تو ہمیں پتہ تھا کہ گھر جوائی کا گھر میں کوئی ووٹ نہیں ہوتا لیکن شجاع آباد کے سول جج بڑے شجاع نکلے۔انہوں نے بلدیاتی الیکشنوں میں بھی گھر جوائیوں کے ووٹ مسترد کر دیئے۔یوں اب گھر جوائیوں کو عدالت میں بھی گھر کا سا ماحول ملنے لگا ہے۔
گھر جوائی‘خاوند کی بڑی نایاب نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔
انہیں ان کی بیویاں بیاہ کے اپنے گھر لے جاتی ہیں۔دیکھنے میں وہ بڑے فخر امام ہوتے ہیں مگر گھر میں ان کو امام مانا جاتا ہے‘نہ ان پر فخر کیا جاتا ہے۔لوگ تو پہلے ہی ان کے اس قدر خلاف ہیں کہ انہیں ہمیشہ گھر جو․․․․آئی لکھتے ہیں حالانکہ وہ مرد ہوتے ہیں۔انہیں آئی کی بجائے آیا کہنا چاہیے۔

(جاری ہے)

ویسے بچوں والے گھر میں انہیں ”آیا“ ہی سمجھا جاتا ہے لیکن لکھنے میں آج تک گھر جو․․․․․آئی ہی استعمال ہوتا ہے۔

جیسے ہمارے دوست ڈاکٹر قریب العزت کے بقول اخباروں والے سابق وزیر تعلیم محمد علی کو ”ہوتی“ لکھتے ہیں‘حالانکہ وہ مرد ہیں۔چلو اگر یہ فقرہ ہو تاکہ کاش!سابق وزیر تعلیم محمد علی ہوتی تو بندہ مان لیتا کہ کسی دل جلے عاشق کی خواہش ہے۔پھر مرد بڑے گھر جوائیوں کے خلاف ہیں۔ہمارے ہوسٹل کے نوکر تو انہیں دیکھنا پسند نہیں کرتے۔کہتے ہیں ”جب کسی اچھی کوٹھی میں نوکری ملتی ہے‘ہفتے بعد یہ کہہ کر چھٹی ہو جاتی ہے کہ اب آپ کی ضرورت نہیں رہی‘ہم نے گھر جوائی رکھ لیا ہے۔

صاحب!ہم نے تو ملک سے جہیز کی لعنت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے یہی طریقہ بتایا تھا کہ اب عورتیں‘مردوں کو بیاہ کر لے جایا کریں۔یوں گھر جوائی دراصل اپنی بیوی کی بیوی ہوتا ہے۔ہم نے آج تک کسی گھر جوائی کو دوسری شادی کرتے نہیں دیکھا۔وہ ساس کے زیر سایہ رہتا ہے۔شاید اسی لئے ہمارے ہاں جب کوئی الٹ پلٹ باتیں کرنے لگے تو ہم کہتے ہیں‘اسے ”سایہ“ ہو گیا ہے۔
ساس تو خیر آپ گھر جوائی نہ بھی ہوں‘تب بھی آپ کو زیر سایہ رکھتی ہے۔ایک شخص نے کہا ”میری شادی کو دس سال ہو گئے ہیں لیکن میری ساس صرف ایک بار میرے گھر آئی ہے۔“ دوسرے نے حیران ہو کر کہا ”پھر کبھی نہیں آئی؟“ اس نے کہا ”پھر تو تب آتی‘اگر جاتی۔“ ہمارے ایک مشہور شاعر کے پاس اولڈ پیپلز ہوم کا منیجر آیا کہ آپ ہمارے ادارے کو کچھ دیں تو اس نے کہا ”میں آپ کے ادارے کے لئے ساس دیتا ہوں۔
“ ہمارے ایک دوست شاعر نے کہا کہ شادی کے بعد میں اپنے سسرال میں رہوں گا۔ہفتے بعد اپنے ہی کوارٹر میں ملا۔ہم نے وجہ پوچھی تو کہنے لگا”میں اپنے سسرال میں نہیں رہ سکتا کیونکہ میرا سسر تو ابھی تک خود اپنے سسرال میں رہ رہا ہے۔“اس نے ہمیں بتایا کہ میرا جوائی میری طرح Bachelor بھی ہو سکتا ہے۔ہم نے پوچھا ”آپ تو اکثر شادی شدہ ہوتے ہیں‘Bachelor کیسے ہو سکتے ہیں؟“ تو انہوں نے کہا ”بھئی!یقین کرو․․․․میں بیچلر ہوں۔
یقین نہ آئے تو یہ ڈگری دیکھ لو‘میں بیچلر آف آرٹس ہوں۔“
گھر جوائی کام کرنے میں اس قدر ترتیب کا خیال رکھتے ہیں کہ وہ ڈاکٹر سے دوا پہلے لے آتے ہیں‘بیمار بعد میں ہوتے ہیں۔دفتر سے چھٹی نہیں کریں گے۔ایک گھر جوائی دو دن دفتر نہ گیا تو افسر نے غصے سے وجہ پوچھی تو شرم سے سر جھکا کر بولا ”سر!میری ساس کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہے۔“ افسر نے غصے سے دیکھا تو گھر جوائی بولا ”سر!اس بار معاف کر دیں‘آئندہ ایسا نہیں ہو گا۔
“ گھر جوائی جلدی اپنا قصور مان لیتے ہیں۔دنیا میں صرف ایک خاتون ہے جو اتنی جلدی کہتی ہے۔”قصور“ میرا ہے اور وہ محترمہ نور جہاں ہیں۔
ویسے ہو سکتا ہے گھر جوائیوں کے ووٹ فلور کراسنگ کی وجہ سے مسترد کر دیئے گئے ہوں کہ وہ مادری پارٹی چھوڑ کر سسرالی پارٹی میں چلے گئے ہیں۔لیکن جج صاحب نے یہ وجہ بتائی ہے کہ ان کے اپنے گھر میں الگ ووٹ بنے ہوئے ہیں اور سسرال میں الگ۔
حالانکہ ان کے اپنے گھر ہوتے تو وہ گھر جوائی کیوں ہوتے؟ بہرحال ہم اس حق میں ہیں کہ گھر جوائیوں کو بیویوں کے برابر حقوق ملنے چاہئیں۔ہمیں تو یہ ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں عورتوں کی طرح گھر جوائیوں کی گواہی بھی آدھی قرار نہ دی جائے جس پر سر کردہ جوائیوں عرفان مروت اور فخر امام صاحب کو آگے بڑھ کر سوچنا چاہئے‘سوچ کر آگے نہیں بڑھنا چاہیے۔ججوں سے بات منوانے کے لئے وکیلوں سے ملنا پڑتا ہے اور بزرگ کہتے ہیں‘وکیلوں کو ملنے سے دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے جس کی وجہ شاید یہ تھی کہ ان دنوں قمیضوں کی جیبیں بائیں جانب عین دل کے اوپر ہوتیں۔

یہ بھی ہو سکتا ہے‘یہ ووٹ گھر جوائیوں ہی کے کہنے پر مسترد کیے گئے ہوں کیونکہ صوبائی اسمبلی کے الیکشن میں ایک بار گھر جوائی ووٹ ڈالنے جانے لگے تو ساس نے کہا ”ووٹ کے اصل حقدار پی پی پی والے ہیں‘انہیں ووٹ دینا۔“ تو اس نے کہا ”ٹھیک کہتی ہیں۔“ سر آیا تو اس نے کہا ”غور سے سنو‘ووٹ آئی جے آئی کو دینا۔“
تو اس نے کہا ”آپ ٹھیک کہتے ہیں۔
“ پاس بیٹھی بیوی نے کہا ”بیک وقت دونوں ٹھیک کیسے کہہ سکتے ہیں؟“ تو اس نے کہا ”آپ بھی ٹھیک کہتی ہیں۔“ لیکن ہم یہ بات جج صاحب سے نہیں پوچھ سکتے کیونکہ ایک بار ہمارے ایک دوست نے عدالت میں جج صاحب سے کہہ دیا ”ہاؤ آر یو سر؟“ تو جج نے کہا ”فائن․․․․500 روپے“ لیکن صاحب ہمیں اصل وجہ کوئی اور لگی ہے کیونکہ سسرال قانون کا گھر ہے جہاں فادر ان لاء‘مدر ان لاء‘سسٹر ان لاء ہر کوئی ان لاء ہی لاء‘جہاں گھر جوائی کو ہمیشہ ان لاء اینڈ آرڈر کی صورت حال کا سامنا ہوتا ہے۔یوں وہ اکیلے ہی قانون کے گھر کو چلانے میں لگا رہتا ہے۔سو ممکن ہے جج صاحب نے پیشہ وارانہ رقابت کی وجہ سے ان کے ووٹ مسترد کر دیئے ہوں۔

Browse More Urdu Husband And Wife