چنگیز خان کے حالات زندگی ، جنگوں اور موت کی دلچسپ داستان

Ameen Akbar امین اکبر جمعرات 11 جنوری 2018 23:41

چنگیز خان کے حالات زندگی ، جنگوں اور موت کی دلچسپ داستان

عظیم منگول فاتح چنگیز خان قریب 1162ء میں پیدا ہوا۔ اس کا باپ ایک معمولی منگول سردار تھا جس نے اپنے بیٹے کا نام ایک مفتوح حریف سردار کے نام پر تیمو جن رکھا۔ جب تیموجن نوبرس کا ہوا اس کے باپ کو ایک قبیلہ کے افراد نے قتل کردیا۔ اگلے چند برس خاندان کے بقیہ افراد ایک مستقل خطرے کے تحت پوشیدہ رہے۔ یہ ایک بدشگون آغاز تھا۔تیموجن کو اچھے دن دیکھنے سے پہلے نہایت زبوں حالات سے دوچار رہنا پڑا۔

  1177ء  میں اپنی نوجوانی میں وہ حریف قبیلے کے ایک دھاوے پر گرفتار ہوا۔ اس کی گردن کے گردچوبی حلقہ باندھ کر اسے اسیررکھا گیا۔ بے چارگی کی اس حالت سے نکل کر ایک قدیم اور بنجر ملک کا ناخواندہ یہ اسیر تیموجن دنیا کے انتہائی طاقت ور انسان کے طور پرا بھرا۔
چنگیز خان نے غلامی کے دوران اپنے اغوا کاروں میں سے ایک کو اپنا دوست بنایا اور اس کی مدد سے فرار ہوگیا۔

(جاری ہے)

اس کی ترقی کا آغاز اس اسیری سے فرار کے بعد ہوا۔ وہ اپنے باپ کے ایک دوست اور وہاں موجود متعلقہ قبائل میں سے ایک کے سردار تغرل سے جاملا۔ آگے کئی برسوں تک ان منگول قبائل میں ہلاکت خیز جنگیں جاری رہیں جن میں تیموجن نے عظمت کی طرف اپنا سفر جاری رکھا۔ منگولیا کے قبائلیوں کی ایک وجہ شہرت یہ ہے کہ وہ ماہر گھڑ سوار اور تندخوجنگجو ہیں ۔ تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ شمالی چین پر مسلسل حملے کرتے رہے۔

تیموجن سے پہلے متعدد قبائل اپنی توانائیوں کو ایک دوسرے کے خلاف جنگ وجدل میں صرف کرتے تھے۔ فوجی دلیری منافقت سفا کی اور منتظلمانہ اہلیت کے ملے جلے امتزاج کے ساتھ تیموجن نے ان تمام قبائل کو ایک مرکزی قیادت کے تحت متحد کرلیا۔1206ء میں منگول سرداروں کے ایک اجلاس میں اسے چنگیز خان یا کائناتی شہنشاہ کا خطاب دیا گیا۔
یہ فوجی مہیب قوت جو چنگیز خان نے مجتمع کی تھی ہمسایہ اقوام پر چڑھ ووڑی۔

اس نے پہلے شمال مغربی چین میں سہی سہیا ریاست پر اور شمالی چین میں جن سلطنت پر یورش کی۔ یہ مقابلے جاری تھے کہ چنگیز خان اور خوارزم شاہ محمد کے بیچ ٹھن گئی جو ایران اور وسطی ایشیا میں ایک بڑی سلطنت کا بادشاہ تھا۔اس تنازعے کی بنیاد اس وقت شروع ہوئی جب 1218 میں چنگیز خان  نے  سلطنت خوارزم میں ایک  تجارتی قافلہ بھیجا ۔ فاراب کے گورنر نے تجارتی مال پر قبضہ کر کے  تمام تاجروں کو مار ڈالا۔

چنگیز خان نے شاہ خوارزم سے خون بہا طلب کیا تو شاہ نے  وفد کے تین میں  سے ایک شخص کو قتل کر دیا اور دو کے بال مونڈھ دئیے۔چنگیز خان نے 2 لاکھ سپاہیوں کے ساتھ  سمرقند، بخارا اور ریاست کے دوسرے شہروں پر قبضہ کر لیا۔ 1219 سے 1221 تک ہونے والی لڑائی میں  سلطنت خوارزم کے ساڑھے بارہ لاکھ افراد مارے گئے۔چنگیز خان نے گورنر کو گرفتار کر کے اس کی آنکھوں اور منہ میں پگھلی ہوئی چاندی  انڈیل  دی۔

اس لڑائی میں  چنگیز خان نے  وسطی ایشیا اور ایران کو تہہ وبالا کرکے رکھ  دیا۔ خوارزم شاہ کی سلطنت مکمل تباہ ہوگئی۔ دیگر منگول فوجیں روس پر حملہ آور ہوئیں ۔ ادھر چنگیز خان نے افغانستان اور شمالی ہندپر دھاوا بولا۔
چنگیز خان جنگیں جیتنے  اور سلطنت کے استحکام کے لیے  بہترین اور بعض دفعہ عجیب و غریب منصوبہ بندی کرتا۔ چنگیز خان اپنے مفتوحہ علاقوں پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے وہاں کے حکمران خاندانوں میں اپنی بیٹیوں کی شادی کر دیا کرتا تھا۔

اس کے بعد وہ اپنے دامادوں کو میدان جنگ میں بھیج دیا کرتا تھا تاکہ ان کی غیر موجودگی میں حکومتی امور اس کی بیٹیاں سنبھال سکیں۔ داماد عموماً جنگوں میں  مارے جاتے اور اس کی بیٹیاں کامیابی سے حکومت کرتی رہتیں۔
جنگوں میں اکثر  چنگیز خان اپنی فوجوں کی تعداد بڑھا چڑھا کر ظاہر کرتا۔ چنگیز خان علاقے میں اپنی زیادہ تعداد کی افواہیں پھیلاتا اور گھوڑوں پر لکڑی کی ڈمی بٹھا کر دشمنوں کو مرعوب کرتا تھا۔

ان طریقوں سے وہ اکثر جنگ جیت جایا کرتا تھا۔
چنگیز خان حیاتیاتی  ہتھیار استعمال کرنے والا پہلا جنگجو تھا۔ اس کی منگول فوج محاصرے کے دوران شہر  میں منجنیق کی مدد سے ایسے مردہ فوجیوں کو پھینکتی تھی جو طاعون سے متاثر ہوتے تھے۔چنگیز خان  جن علاقوں کو فتح کرنا چاہتا، انہیں ہر طریقے سے فتح کرنے کی کوشش کرتا۔ ۔ اس کے لیے وہ دریا تک کا رخ بدل کر شہر وں کی طرف کروا دیتا اور  ضروریات زندگی کی فراہمی بھی کاٹ کر رکھ دیتا تھا ۔


چنگیز خان جہاں دشمنوں کی ذرا سی غلطی بھی معاف نہ کرتا وہاں اپنے بڑے سے بڑے دشمن کو بھی  معاف کردیتا۔ چنگیز خان نے میدان جنگ میں اپنی گردن پہ تیر چلانے والے شخص کو نہ صرف معاف کر دیا بلکہ اسے اپنے بہترین اور قابل اعتماد جرنیلوں میں بھی جگہ دی۔ چنگیز خان نے اپنے اردگرد طاقتور اور ذہین افراد جمع کر رکھے تھے۔ ان میں سے ایک اس کا سب سے اہم مشیر کنفیوشس کا پیروکار  تھا۔

ییلو چوکائی  نامی اس مشیر نے چنگیز خان کو قتل عام کرنے کے بجائے ٹیکس لینے کا مشورہ دیا۔
1225ء میں وہ منگولیا لوٹا جہاں 1227ء میں وہ فوت ہوا۔ اپنی موت سے کچھ ہی دیر پہلے اس نے درخواست کی کہ اس کے تیسرے بیٹے اوغدائی کو اس کا جانشین مقرر کردیا جائے۔ یہ ایک دانش مندانہ انتخاب تھا، جس کی وجہ سے سلطنت یورپ تک پھیل گئی۔چنگیز خان کی نسل بعد میں بہت بڑھی تھی۔

آج بھی  ہر 200 میں سے ایک شخص کا سلسلہ نسب چنگیز خان سے جا ملتا ہے۔
چنگیز خان نے مرنے سے پہلے اپنے جائے مدفن کو خفیہ رکھنے کی بھی خواہش ظاہر کی۔ تدفین کے بعد اس کی قبر پر گھوڑے دوڑائے گئے تاکہ زمین ہموار ہو جائے۔ ہر اس شخص کو مار دیا گیا جو اس کی قبر کے مقام سے واقف تھا۔ جن غلاموں نے قبر بنائی تھیں، انہیں کچھ سپاہیوں نے قتل کیا اور پھر غلاموں کو قتل کرنے والے سپاہیوں کو بھی قتل کر دیا گیا۔

یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ایک دریا کا رخ اس کی قبر کی طرف موڑ کر قبر کو ہمیشہ کے لیے گمنام بنا دیا گیا۔ 2012 میں وفات پانے والے ایک ماہر آثار قدیمہ ماؤرے کراوٹز نے چنگیز خان کی قبر کی تلاش میں 40 سال لگائے لیکن وہ قبر کے قرب و جوار کے بارے میں بھی نہیں جان سکا۔ 
چنگیز خان کے بعد اوغدائی کی زیر قیادت منگول فوجوں نے چین میں پیش قدمی جاری رکھی ۔

روس کو پامال کیا اور آگے یورپ میں نکل گئیں۔ 1241میں منگول فوجوں نے ،جوبوداپسٹ تک بڑھ گئی تھیں، پولینڈ جرمن اور ہنگری کی فوجوں کو تہہ تیغ کیا۔ اسی دوران  اوغدائی مرگیا۔ منگول فوجیں یورپ سے لوٹ آئیں اور کبھی ادھر واپس نہ آئیں۔
اس کے بعد جانشینی کے مسئلہ پر منگول سرداروں میں خاصی لے دے ہوئی۔ تاہم چنگیزخان کے پوتوں منگوخان اور قبلائی خان کی زیر سرکردگی منگول ایشیا میں داخل ہوئے۔

1279ء تک جب قبلائی خان نے چین کی فتح مکمل کی تو منگولوں کی سلطنت تاریخ کی وسیع سلطنت بن چکی تھی۔ ان کے زیر تسلط چین ،روس اور وسطی ایشیا کا علاقہ تھا۔ اس کے علاوہ ایران اور جنوب مغربی ایشیا کا بیشتر حصہ بھی شامل تھا ان فوجوں نے پولینڈ سے شمالی ہند تک کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ جبکہ کوریا تبت اور جنوب مشرقی ایشیا میں قبلائی خان کی بادشاہت قائم ہوئی۔


اس دور میں موجود آمد ورفت کے قدیم ذرائع کی موجودگی میں ایسی جسیم سلطنت تادیر قائم نہیں رہ سکتی تھی۔ سوجلد یہ حصوں بخروں میں تقسیم ہوگئی۔ تاہم ریاستوں میں منگول حکومت طویل عرصہ تک جاری رہی۔1368میں منگولوں کو چین کے بیشتر حصوں سے خارج کر دیا گیا۔ روس میں ان کے اقتدار کی عمردارز ہوئی۔ وہاں چنگیزخان کے پوتے باتو خان کی سلطنت کو بالعمول سنہری جرگہ کا نام دیا جاتا ہے یہ سولہویں صدی تک قائم رہی جبکہ کریمیا میں یہ اقتدار 1783ء تک باقی رہا۔

چنگیز خان کے دیگر بیٹوں اور پوتوں نے وسطی ایشیا اور ایران میں سلطنتیں قائم کیں۔ ان دونوں علاقوں کو چودھویں صدی میں تیمور لنگ نے فتح کیا۔ جوخود منگول نسل سے تھا اور خود کو چنگیزخان کا جانشین کہلاتا تھا۔ تیمورلنگ کی بادشاہت کا اختتام پندرھویں صدی میں وقوع پذیر ہوا۔ لیکن یہ تمام منگول فتوحات اور اقتداد کا خاتمہ نہیں تھا۔ تیمورلنگ کے پڑپوتے بابر نے ہندوستان پر حملہ کیا اور مغل (یامنگول) سلطنت کی بنیاد رکھی۔ بالاخر مغل حکمرانوں نے تمام ہندوستان پر قبضہ کیا اور یہ اقتدار اٹھا رہویں صدی کے وسط تک قائم رہا۔

Browse Latest Weird News in Urdu