ترک گاؤں میں مقامی نوجوانوں سے لڑکیوں کی شادی نہ کرنے کے خلاف مظاہرہ

شادیاں نہ ہونے پر نوجوان احتجاج کرتے سڑکوں پرنکل آئے،بینراورکتبے اٹھا کر ایردوآن کی توجہ مبذول کرائی اوزملو گاؤں میں آخری شادی نوسال قبل ہوئی تھی،حکومت شادیاں کرائے ،پانچ ،پانچ بچے پیداکرنے کاوعدہ کرتے ہیں،نوجوانوں کی گفتگو

جمعرات 7 اپریل 2016 21:11

انقرہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔07 اپریل۔2016ء) ترکی کے ایک گاؤں میں لڑکیوں کی جانب سے شادیاں نہ کرنے پر سیکڑوں نوجوانوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا ،عام طور پر نواجوانوں کو بے روزگاری، بدامنی اور غربت کے خلاف احتجاج کرتے دیکھا جاتا ہے مگر ترکی کا ایک گاؤں ایسا بھی ہے جہاں کے نوجوان شادیاں نہ ہونے پر سراپا احتجاج ہیں،ترک میڈیا کے مطابق جنوبی ترکی کی مرسین ریاست کے ’’اوزملو‘‘ قصبے میں رہنے والے نوجوانوں نے مظاہرے کے دوران بتایا کہ وہ گذشتہ ایک عشرے سے شادیوں سے محروم ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ لڑکیوں کی جانب سے مقامی نوجوانوں کے ساتھ شادی سے انکار کیاجارہا ہے ،انہوں نے بتایا کہ ’’اوزملو‘‘ گاؤں میں نو سال پہلے ایک شادی ہوئی تھی جس کے بعد آج تک شادی کی جتنی بھی کوششیں کی گئی ہیں وہ ناکام رہی ہیں۔

(جاری ہے)

شادیاں نہ ہونے کی بنیادی وجہ لڑکیوں کی جانب سے دیہاتی ماحول میں زندگی گذارنے سے انکار ہے، مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پر صدر رجب طیب ایردوآن سمیت دیگر حکام کی توجہ بھی اس اہم مسئلے کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی گئی۔

بعض کتبوں پر صدر ایردوآن سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ شادی سے محروم نوجوانوں کی شادیوں کا انتظام کرائیں۔ شادیاں ہونے کی صورت میں وہ پانچ پانچ بچے پیدا کرنے کا وعدہ کرتے ہیں،ایک شخص مصطفیٰ باچبیلان کا کہنا تھا کہ گاؤں کی آبادی 233 افراد پر مشتمل ہے جس میں 25 افراد جن کی عمریں 25 اور 45 سال کے درمیان ہیں شادی سے محروم ہیں۔ گاؤں کی بیشتر لڑکیاں یا تو گاؤں سے باہر منتقل ہوچکی ہیں یا وہ مقامی نوجوانوں کے ساتھ شادی بیاہ پر راضی نہیں ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ گاؤں کا مسئلہ روزگار یا مادی ضروریات نہیں بلکہ نوجوانوں کو اپنے گھر بسانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔ نو سال قبل اس قصبے میں ایک شادی ہوئی تھی۔ اس وقت گاؤں کی آبادی 400 افراد پر مشتمل تھی۔ اب لوگ وہاں سے نقل مکانی کررہے ہیں۔

متعلقہ عنوان :

Browse Latest Weird News in Urdu