Jangli Larka - Article No. 962

Jangli Larka

جنگلی لڑکا - تحریر نمبر 962

بندروں کا پیچھا کرتے کرتے ہم گھنے جنگل میں داخل ہوگئے ۔ بندردرختوں کی شاخوں سے لٹکتے ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگاتے بھاگ رہے تھے اور ہم ان کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ بندروں کی شرارتوں کے بارے میں سناتھا۔ واقعی آج بندروں نے ہمارے ساتھ شرارت کردی تھی۔

بدھ 5 اکتوبر 2016

جاوید اقبال :
بندروں کا پیچھا کرتے کرتے ہم گھنے جنگل میں داخل ہوگئے ۔ بندردرختوں کی شاخوں سے لٹکتے ایک درخت سے دوسرے درخت پر چھلانگیں لگاتے بھاگ رہے تھے اور ہم ان کے پیچھے بھاگ رہے تھے۔ بندروں کی شرارتوں کے بارے میں سناتھا۔ واقعی آج بندروں نے ہمارے ساتھ شرارت کردی تھی ۔
میں نے چڑیا گھر کے لیے وہاں کے افسران سے بندر پکڑنے کا معاہدہ کیا تھا۔
میں نے اس مہم میں اپنے دوستوں کو بھی شامل کرلیا، تاکہ دوستوں کے ساتھ پکنک بھی ہوجائے اور بندرپکڑ کرکچھ رقم بھی کما لیں گے۔
جنگل میں ہم نے بندروں کاٹھکانا ڈھونڈا اور وہاں بندروں کی پسند کی کھانے کی چیزیں پھیلادیں، پھر جال اور پھندے لگاکر جھاڑیوں سے چھپادیے ۔ ہمیں وہاں دیکھ کر بندربھاگ گئے۔

(جاری ہے)

ہم جھاڑیوں میں چھپ کر ان کی واپسی کاانتظار کرنے لگے ۔

کافی انتظار کے بعد بندروں کا ایک جتھا اس طرف آیااور کھانے کی چیزوں پر ٹوٹ پڑا۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ سب کچھ کھا گئے اور جب ہم نے انھیں ہانک کرجال کی طرف لے جانا چاہا تو وہ جال اور پھندے ہی اٹھاکر بھاگ نکلے۔
بندروں کا پیچھا کرتے ہوئے ہم جنگل کے اس حصے میں داخل ہوگئے ، جہاں اندھیر اچھایا ہوا تھا۔ گھنے درختوں کی شاخوں سے چھت سی بن گئی تھی ۔
جس سے سورج کی روشنی زمین تک نہیں پہنچ رہی تھی اور دن میں بھی رات کاگماں ہورہا تھا۔ یہاں گہری خاموش چھائی تھی ، یعنی مکمل سناٹا تھا۔
بندر نہ جانے کہاں چھپ گئے تھے ۔ ہم اپنے ہتھیار اٹھائے متحاط قدموں سے آگے بڑھ رہے تھے ۔ پتا بھی گرتا توہم چونک اٹھتے۔ اندھیرے کی وجہ سے میں اپنے ساتھیوں سے بچھڑکردور نکل گیا۔ جب مجھے ساتھیوں کے بچھڑنے کااحساس ہوا تو میں نے پلٹنا چاہا۔
اچانک کسی نے مجھے پیچھے سے دبوچ لیااور اپنے دانت میرے کندھے میں گاڑدیے میرے منھ سے چیخ نکل گئی۔ میں نے اپنے کندھے کو زور سے جھٹکا دیا۔ میرا کاندھا تو اس کی گرفت سے آزاد ہوگیا، مگر اس کانوکیلا ناخن میرے ایک بازو کے گوشت میں اُترتا چلاگیا۔ پھر وہ ایک دم میرے سامنے آگیا۔
وہ ایک جنگلی تھا۔ بڑھے ہوئے بال، نوکیلے ناخن ، آنکھوں میں وحشت ، جسم پر صرف ایک لنگوٹی پہنے ہوئے تھا۔
وہ پھر مجھ پر جھپٹا ، مگر میں پھرتی سے جھکائی دے کر بچ گیا اور دو قدم پیچھے ہٹ کر تیز سیٹی بجائی جواب میرے ساتھیوں نے بھی سیٹی بجائی ، جس کامطلب تھا، گھبراؤ نہیں ہم آرہے ہیں۔ یہ ہمارا آپس کا خفیہ اشارہ تھا ۔
اس دوران موقع پاکر اس جنگلی نے پھر مجھے دبوچ لیا۔ کم عمر ہونے کے باوجود وہ پھرتیلا اور طاقت ور تھا۔ اتنے میں میرے ساتھی بھی وہاں آپہنچے۔
مجھے ایک جنگلی سے گتھم گتھا دیکھ رک انہوں نے بندوقیں تان لیں۔
گولی مت چلانا۔ میں نے چلِا کرکہا۔
میرے ساتھیوں نے اپنے ہتھیار زمین پر دکھ ریے اور جنگلی پر جھپٹ پڑے ۔ تھوڑی سی جدوجہد کے بعد انھوں نے جنگلی پر قابو پالیا۔ ایک ساتھی نے کمرکے گرد بندھے تھیلے سے رسا نکالا اور جنگلی کو باندھ کربے بس کردیا۔ پھر دوساتھیوں نے اسے اُٹھالیا اور ہم جنگل سے واپس چل پڑے ۔

جنگلی انسان کو پکڑنے کی خبر نے مہذب دنیا میں ہلچل مچادی۔ یہ ایک چونکا دینے والی خبر تھی کہ ایک بچہ انسان سے بچھڑکر جانوروں میں پلابڑھا اور جانوروں جیسی ہی عادتیں اپنالیں۔ لوگ جوق درجوق جنگلی لڑکے کو دیکھنے آنے لگے۔ کئی دنوں تک اخباری نمائندوں نے ہمیں گھیرے رکھا۔ یہ سلسلہ تھما تو جنگلی کی تربیت شروع کردی۔ اس سلسلے میں ایک ڈاکٹر اور ایک ماہرنفسیات کی مدد بھی مل گئی ۔

اس جنگلی کو مہذب بنانے کے لیے بڑی محنت کرناپڑی ۔ آخرہماری کوششیں رنگ لائیں اور اس میں تبدیلی کے آثارنظر آنے لگے ۔ وہ کچھ کچھ ہماری بات سمجھنے لگااور گھر کے کام بھی کرنے لگا۔جلدہی اس نے نشانہ بازی بھی سیکھ لی اورہمارے مدد گارکی حیثیت سے ہمارے ساتھ شکاری مہمات پرجانے لگا۔ ایک اچھا نشانہ باز ہونے کے باوجود شکاری مہموں کے دوران اس نے کبھی کسی جانور پہ گولی نہ چلائی ۔
وہ اپنے پاس ایک تھیلا رکھتا ، جس میں جانوروں کے کھانے کی چیزیں ہوتیں، جنھیں وہ جانوروں کے آگے ڈال دیتا اور خود دور کھڑا ہوکر انھیں کھاتے دیکھتا اور خوش ہوتا ۔
اس دوران ہم نے اس کے والدین کی تلاش جاری رکھی ۔ ایک دن کچھ لوگ اسے دیکھنے آئے ۔ انھوں نے بتایا کہ ان کا بچہ بھی جنگل میں کھوگیا تھا۔ اس کے جسم پر ایک مخصوص پیدائشی نشان دیکھ کرانھوں نے اپنے لخت جگر کو پہچان لیا ۔
اپنے بچھڑے ہوؤں سے ملنے کے بعد اس ہم سے اپنے والدین کے ساتھ جانے کی اجازت چاہی اور ہم نے دکھی دل سے اسے جانے کی اجازت د ے دی۔

Browse More Moral Stories