Nicholas - Article No. 1971

Nicholas

نکولس آگسٹ اوٹو - تحریر نمبر 1971

نکولس آگسٹ اوٹو جرمن موجد تھا‘جس نے 1876ء میں داخلی افروختگی والا چار سٹروک کا انجن بنایا۔یہ ان کروڑہا انجنوں کا ابتدائی نمونہ تھا ‘جو آج تک تیار ہورہے ہیں۔

جمعرات 21 مارچ 2019

محمد عاصم بٹ
نکولس آگسٹ اوٹو جرمن موجد تھا‘جس نے 1876ء میں داخلی افروختگی والا چار سٹروک کا انجن بنایا۔یہ ان کروڑہا انجنوں کا ابتدائی نمونہ تھا ‘جو آج تک تیار ہورہے ہیں۔
داخلی افروختگی والا انجن ایک ہمہ صفت آلہ ہے ۔یہ کشتیوں اور موٹر سائیکلوں میں استعمال ہوتا ہے ۔اس کے صنعتی استعمالات بہت زیادہ ہیں ۔جبکہ ہوائی جہاز کی ایجاد کے لیے اس کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل تھا۔

(1939ء میں پہلے”جیٹ“ہوائی جہاز کی اڑان سے قبل تمام ہوائی جہاز داخلی افرو ختگی والے انجنوں کی مدد سے اوٹو کے اصولوں کے مطابق ہی چل رہے تھے)۔بہرکیف داخلی والے انجن کا سب سے اہم استعمال موٹر کاروں میں ہوا۔
اوٹو کی کامیاب کاوش سے پہلے موٹر کار بنانے کی متعدد کاوشیں ہو چکی تھیں۔

(جاری ہے)

سیگفرائیڈمارکس
(1875)‘ایٹی نی لینوئر(1862)اور جوزف کو گنٹ(1769ء)انجن کے ایسے نمونے بنانے میں کامیاب ہو گئے تھے‘جو بھاگ سکتے تھے ‘لیکن مناسب انجن کی عدم موجودگی میں جو کم وزن ہونے کے ساتھ زیادہ توانائی پیداکرسکے۔

ان میں سے کوئی نمونہ عملی طور پر کامیاب نہ ہو سکا۔تاہم اوٹو کے چار سٹروک والے انجن کی تیاری کے بعد قریب پندرہ برسوں میں دو مختلف موجدوں کا رل بینز اور گوٹلیب ڈیملرنے عملی اور کاروباری طور پر کامیاب کاربن بنالی تھیں۔
متعدد دیگر انواع کے انجن بھی ان کاروں میں استعمال ہوئے ہیں ۔ایسا ممکن ہے کہ مستقبل میں کاریں دھانی انجن‘برقیاتی بیٹری یا کسی دوسرے ذریعے سے چلائی جائیں ۔
گزشتہ صدی میں جو لاکھوں کاریں تیار ہوئی ہیں ان میں سے ننانوے فیصد کاروں میں یہی داخلی افرو ختگی والا چار سٹروک کا انجن استعما ل ہوا ہے ۔(ڈیزل انجن‘داخلی افروختگی والے انجن کی ایک بہتر قسم ہے ‘جو ٹرکوں ‘بسوں اور بحری جہازوں میں استعمال ہوتا ہے ‘یہ اوٹو کے چار سٹروک والے چکر کی بنیاد پر ہی کام کرتا ہے ۔تاہم اس میں تیل کے دخول کے لیے ایک جدا ترکیب استعمال ہوتی ہے )۔

سائنسی ایجادات کی عظیم اکثریت کو (ہتھیاروں اور گولہ بارود کے استثناء کے ساتھ)انسان کے لیے سود مند تسلیم کیاجاتا ہے ۔ایسا تو کوئی نہیں کہے گا کہ ہم ریفریجریٹر یا پنسیلین سے دست بردار ہوئے ہیں یا ان کے استعمال پر پابندی ہے ۔ان ذاتی کاروں کے وسیع تر استعمال کی قباحتیں بالکل واضح ہیں ۔یہ شور اور آلودگی پیدا کرتی ہیں‘تیل کے وسائل میں کمی اور ہر سال حادثات میں متعدد لوگوں کے مرنے یا زخمی ہو جانے کا باعث بنتی ہیں۔

ظاہر ہے اگر ہمیں ان گاڑیوں سے افادہ نہ حاصل ہوتو ہم کب کا ان کے استعمال کو متروک قرار دے چکے ہوتے ۔نجی گاڑیوں عوامی ٹرانسپورٹ سے کہیں زیادہ تعداد میں ہیں ۔ریل گاڑیوں کے برعکس ایک نجی گاڑی ہر جگہ آپ کو لے جا سکتی ہے اور گھر گھر میں اس سہولت سے استفادہ کیا جا سکتا ہے ۔یہ سریع الرفتار‘آرام دہ ہے اور زیادہ سامان کو لادلیتی ہے ۔
نیز یہ ہمیں ایک بے نظیر انداز میں ہماری مرضی سے کسی جگہ رہنے اور اپنے انداز میں وقت گزارنے کے انتخاب میں رکاوٹ نہیں بنتی۔
تاہم کیا یہ فوائد اس قیمت سے زیادہ ہیں جو یہ گاڑی معاشرے سے وصول کرتی ہے؟یہ ایک بحث طلب سوال ہے ۔تاہم اس حقیقت سے کسی کو ”انکا “نہیں ہو گا کہ گاڑی نے ہماری تہذیب پر گہرے اثرات مرتب کیے ہیں ۔صرف امریکہ میں ہی 180ملین سے زائد کا ریں زیر استعمال ہیں اور ایک سال میں وہ من حیث المجوع تین کروڑکھرب(3 Trillion)میل کا فاصلہ طے کرتی ہیں ۔
یہ فاصلہ اس مجموعی فاصلہ سے زیادہ ہے جو اس وقفہ میں پیدل ہوائی جہاز ‘ریل گاڑی ‘کشتی یا آمدورفت کے دیگر ذرائع سے طے کیا جاتا ہے ۔
ان گاڑیوں کے لیے ہم نے سینکڑوں میلوں پر مشتمل پارکنگ سٹینڈز اور طویل سڑکیں بنائی ہیں جبکہ اس عمل میں تمام زمینی منظربدل گیا۔اس کے بدلے میں گاڑی نے ہمیں سفر کی و ہ سہولت دی ہے‘جس سے گزشتہ نسلیں محروم تھیں۔
بیشتر کار مالکان کی سرگرمیوں کا دائرہ کا ر بہت وسیع ہے ‘جبکہ آج وہ تمام سہولیات انہیں با آسانی مہیا ہو جاتی ہیں جس سے وہ گاڑی کے بغیر محروم ہی رہتے ۔یہ ہمارے انتخاب کے دائرے کو پھیلا دیتی ہے کہ جہاں چاہے ہم رہیں اور جو چاہے کریں ۔ہر گاڑ ی کی عنایت ہے کہ متعدد
سہو لیات جو کبھی شہریوں کو بھی حاصل نہیں تھیں ‘آج قصباتی باشندوں کو بھی اس کی بدولت حاصل ہیں ۔

(حالیہ دہائیوں میں قصبات کے پھیلاؤ کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے اور اسی سبب امریکہ میں اندرونی شہروں کا زوال ہوا ہے )۔
نکولس آگسٹ اوٹو جرمنی کے ایک قصبہ ہولز ہاسن میں1832ء میں پیدا ہو ا۔اس کا باپ اس کے بچپن میں ہی فوت ہو گیا۔اوٹو ایک ہو نہار طالب علم تھا۔تاہم سولہ برس کی عمر میں اس نے سکول کو خیر باد کہہ کر کام تلاش کیا اور کاروبار کا تجربہ حاصل کیا۔
کچھ عرصہ اس نے ایک چھوٹے قصبہ میں ایک پنساری کی دکان پر بھی کام کیا۔پھر وہ فرینکفرٹ میں کلرک بھرتی ہوا۔بعدازاں وہ ایک سفر بردار تاجربن گیا۔
1860ء میں اوٹو نے ایٹی نی لینوئر(1900ء1822-ء)کا ایجاد کردہ گیس انجن کے بارے میں سنا ۔
یہ پہلا متحرک داخلی افروختگی والا انجن تھا۔اوٹو کو محسوس ہوا کہ اگر لینوئر کے انجن میں سیال تیل استعمال کیا جائے تو اس کے استعمالات میں اضافہ ہو سکتا ہے ۔
نیز اس میں گیس کے نکاس کا خانہ بھی نہیں رکھنا پڑے گا۔اوٹو نے ایک کاربوریٹر تیار کیا۔تاہم اسے اس ایجاد کے حقوق کی سند نہیں دی گئی۔کیونکہ ایسے ہی آلات پہلے بھی زیر استعمال تھے۔
وہ مایوس نہ ہوا۔اس نے لینوئر کے انجن کو بہتر بنانے کی طرف توجہ صرف کی ۔1861ء کے اوائل میں اسے ایک نئی طرح کے انجن کا خیال سوجھا۔جو چار سٹروک کے تسلسل کے ساتھ چلے ( یہ لینو ئر کے انجن سے مختلف تھا جو دو سٹروک پر چلتا تھا)۔
جنوری 1862ء میں اوٹو نے چار سٹروک کے انجن کا ایک نمونہ بنایا۔تاہم وہ مشکلات کا شکار ہوا۔خاص طور پر آتش گیری کے مسئلے میں جو اس نئے انجن کو عملی طور پر قابل استعمال بنانے کی راہ میں حائل تھا۔
اس نے اسے ایک طرف ڈال دیا۔اس کی بجائے اس نے ایک ہوائی دباؤ والا دو سٹروک انجن بنایا جو گیس کی طاقت سے چلتاتھا۔1863ء میں اس نے اس کی سند حقوق حاصل کی ‘مالی معاونت کے لیے جلد ہی اسے ایوگن لینگن کی شراکت حاصل ہوئی۔
انہوں نے ایک چھوٹا کا رخانہ بنایا اور انجن کو بہتر بناتے رہے ۔1867ء میں ان کے دو سٹروک انجن نے”پیرس ورلڈ فےئر“میں طلائی تمغہ حاصل کیا۔اس کے بعد اس کی فروخت انتہا پر جا پہنچی ۔1872ء میں انہوں نے ذہین انجینئر کو ٹلب ڈیملر کو اپنے کار خانے کی انتظامیہ میں شامل کیا تاکہ وہ انجن کی تیاری میں ان کی معاونت کرے۔
اگر چہ دوسٹروک انجن سے منافع بے پایاں وصول ہوا لیکن اوٹو اپنے ذہن سے چار سٹروک انجن کا خیال نہیں نکال سکا جو اصل میں وہ بنانا چاہتا تھا۔
اسے یقین تھا کہ ایک چار سٹروک کا انجن جو تیل اور ہوا کے آمیزے کو آتش گیری عمل سے پہلے بھینچ دیتا تھا‘لینوئر کے دو سٹروک انجن میں کسی بھی بہتر ترمیم کی نسبت زیادہ موثر ثابت ہو سکتا تھا۔1876ء کے اوائل میں اوٹو نے علی الاخر آتش گیری کا ایک بہتر نظام تیار کیا۔اس سے وہ عملی طور پر کامیاب چار سٹروک انجن بنانے کا اہل ہوا۔ایسا پہلا نمونہ مئی1876ء میں تیار ہوا۔
اگلے برس اس نے ایجاد کی سند حقوق حاصل کر لی۔چار سٹروک انجن کی اعلیٰ ترین استعداد اور کارکردگی واضح تھی۔اسے فوراً تجارتی سطح پر کامیابی حاصل ہوئی ۔
صرف اگلے دس برسوں میں ایسے تیس ہزار انجن فروخت ہوئے۔جبکہ لینوئر کے انجن کے تمام نمونے متروک ہو گئے۔
چار سٹروک انجن کے اوٹو کی جرمن سند حقوق پر 1886ء میں مقدمہ چلا۔یہ موقف اختیار کیا گیا تھا کہ ایک فرانسیسی الفونس بیوڈی روکاس نے ایسا ہی ایک نمونہ 1862ء میں اختراع کیا تھا اور اس کی سند حقوق حاصل کی تھی۔
(ہمیں یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ بیوڈی روکاس کوئی اثر انگیز شخصیت تھی۔اس کی ایجاد کبھی بازار میں نہیں آئی‘ نہ کبھی اس نے ایسا کوئی نمونہ تیار کیا’اور نہ ہی اوٹو نے اپنی ایجاد کے لیے اس سے خیال مستعار لیا۔کسی معتبر سند کی عدم موجودگی میں اوٹو کا ادارہ پیسہ بناتا رہا۔1891ء میں وہ ایک عیش وآرام کی زندگی گزار کر فوت ہوا۔
ا س دوران میں 1882ء میں گوٹلیب ڈیملرادارے سے کنارہ کش ہو گیا۔
وہ اوٹو کے انجن کو گاڑیوں میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔1883ء تک اس نے ایک بہترین آتش گیر نظام ایجاد کیا(وہی جو آج زیر استعمال ہے )‘جس سے فی منٹ 700سے900تک ضرب لگتی تھی۔(اوٹو کے نمونوں کی استعدادسے1800سے200ضرب فی منٹ تھی)۔
مزید یہ کہ ڈیملر نے ایک بہت ترقی یافتہ ہلکے وزن کا انجن تیار کیا۔1885ء میں اس نے اپنا ایک انجن بائیسکل سے جوڑا اور دنیا کی پہلی موٹر سائیل تیار کی ۔
اگلے برس ڈیملر نے ایک چار پہیوں والی گاڑی تیار کی ۔بعدازاں یہ معلوم ہوا کہ کارل بینز نے بازی مار لی تھی ۔اس نے اس سے فقط تین ماہ قبل ایک تین پہیوں والی گاڑی تیار کرلی تھی۔ڈیملر ہی کی طرح بینز کی کار اوٹو کے چار سٹروک انجن ہی کے ایک نمونے سے چلتی تھی۔بینز کا انجن ایک منٹ میں 400ضربات کی استعداد رکھتا تھا ۔تاہم اس سے اس کی گاڑی قابل عمل ہو گئی۔
بینز نے رفتہ رفتہ اسے بہتر بنایا اور چند برسوں میں ہی وہ اسے بازار میں فروخت کے لیے لے آیا۔
گوٹیلب ڈیملر نے ہینز سے کچھ عرصہ بعد اپنی کاروں کی فروخت شروع کی۔تاہم اسے بھی کامیابی ہوئی۔(آخر ڈیملر اور بینز کے ادارے باہم ضم ہو گئے۔اس نئے ادارے نے معروف مرسڈیز ‘بینز موٹر کاریں تیار کیں۔
گاڑیوں کی تاریخ میں ایک اور معروف ہستی کا ذکر ضروری ہے ۔
یہ امریکی موجد اور صنعت کا ر ہنری فورڈ تھا ‘جس نے پہلی بار کم نرخوں پر بری تعداد میں موٹر کاریں تیارکی۔
داخلی افروختگی والے انجن اور موٹر گاڑی بے پایاں اہمیت کی حامل ایجادات تھیں ۔اگر اس تمام ترقی کا سہرا کسی ایک شخص کے سر باندھا جا سکے تو اس کا شمار یہاں سر فہرست ہونا چاہئے۔تاہم اس تمام پیش رفت کے اعزاز کو ان چند افراد میں تقسیم کر دینا چاہے۔
لینو ئر‘اوٹو‘ڈیملر ‘بینز اور فورڈ۔ان تمام میں اوٹو کا حصہ البتہ سب سے زیادہ ہے ۔لینو ئر کا انجن نہ طاقت اور نہ استعداد کار میں ہی موٹر گاڑیوں کے لیے مناسب تھا۔اوٹو کے انجن نے ہر کمی پوری کی۔1876ء سے پہلے جب اوٹو نے اپنا انجن ایجاد کیا‘ایک قابل عمل موٹر گاڑی کی تیاری نا ممکن تھی ۔لیکن 1876ء کے بعد یہ ناگزیز ہو گئی ۔نکولس آگسٹ اوٹو بجا طور پر دنیا کے معماروں میں سے ایک ہے ۔

Browse More Urdu Literature Articles