بینک کا نیا وار

Bank Ka Naya War

Furqan Ahmad Sair فرقان احمد سائر جمعہ 17 جنوری 2020

Bank Ka Naya War
پاکستان میں سب سے منافع بخش کاروبار بینکنگ سسٹم ہے جس کے باعث ملک میں ہزاروں کی تعداد میں بینکوں کی بھرمار ہے۔ یہ مافیا آپ کو فون کالز ایس ایم ایس اور اپنے کسٹمرز سروسز کے ذریعے ہر شخص کو بینک میں اکاؤنٹ کھلوانے کی ترغیب دیتا ہے۔
لیکن بعد میں کن کن ذرائع سے  اکاوّنٹ میں زیادہ رقم رکھوانے اور ٹرانزیکشن کرنے کے لئے دباوّ ڈالا جاتا ہے اس تکلیف کا اندازہ ہر وہ شخص لگا سکتا ہے جو ان کے فون کالز سے شدید کرب کا شکار ہو
ابھی حال ہی میں بائیومیٹرک سسٹم کے نام پربناء بتائے  ہزاروں افراد کے اکاوّنٹس منجمد کر دیئے گئے تھے جس سے عام صارفین سے لے کر تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے  والے افراد کو شدید مشکلات کا شکار ہونا پڑا۔


 سوشل میڈیا اور دیگر پلیٹ فارم سے ہوتی ہوئی یہ آواز اخبارات اور الیکٹرونک میڈیا تک پہنچی تو بینکوں نے اس نظام کو موثر بنانے کے لئے کچھ سنجیدہ اقدامات اٹھائے۔

(جاری ہے)


لیکن ابھی سفر جاری ہے، تمام تر بینکوں نے صارف کو ایک نئی ازیت دینے کے لئے ایک اور قدم اٹھا لیا۔۔۔۔ یہ اقدام یہ ہے کہ تمام اکاوّنٹ ہولڈرز کو نئے کارڈ جاری کئے جا رہے ہیں۔

یعنی کا صارف کا پرانا ATM یا DEBIT کارڈ کچھ عرصہ کے بعد قابل استعمال نا رہے گا۔ واضح رہے کہ ہر بینک اے ٹی ایم اور ڈیبٹ کارڈ کے نام پر سالانہ اچھی خاصی رقوم کاٹ لیتے ہیں جبکہ دنیا کے ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ جب تک آپ کا کارڈ ہے آپ اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ صرف سالانہ تجدید ہوتا ہے وہ بھی بغیر کی اضافی چارجز کے۔ لیکن ہمارے ان منصوبہ سازوں کی پالیساں دیکھ کرعقل انسانی دنگ رہ جاتی ہے۔

کیونکہ پاکستان کے ہزاروں نہیں لاکھوں کی تعداد میں اورسیزپاکستانی پردیس  میں زندگی گزار رہے ہیں جو ملک میں اربوں ڈالرز کا ذرمبادلہ قانونی طریقے سے بھیجتے ہیں اور ہماری ملک کی اکانومی کا %36 سے ذائد کا حصّہ بنتا ہے۔اس اقدام سے اورسیز پاکستانی کو شدید دھچکہ پہنچے گا کیونکہ وہ قانونی طریقے سے رقم ارسال کر کے اپنے اہل خانہ کو اپنے ذاتی اکاوّنٹ میں بھیجتے ہیں۔

اور پاکستان بھر میں ان کے اہل خانہ کسی بھی  اے ٹی ایم سے جا کر ماہانہ خرچہ کی رقوم نکال لیتے ہیں۔اورسیز پاکستانی اپنے اسی اکاوّنٹ کے زریعے بجلی، گیس، ٹیلی فون، بچوں کی فیس اور دیگر اخراجات اسی آن لائن بینکگ کے ذریعے کرتے ہیں۔ اس نئے اقدام سے دیارِ غیر میں بسنے والے صارفین کو شدید دھچکہ پہنچا ہے کیونکہ وہ قانونی و جائز  طریقے مختلف بینکوں میں خطیر رقوم ارسال کرتے ہیں اور اہل خانہ ان کے دیئے گئے اے ٹی ایم اور ڈیبٹ کارڈ کے ذریعے وہ رقوم نکال کر اہل خانہ کی کفالت کرتے ہیں۔


ماضی میں ایسا ہوتا رہا کہ بینک نیا کارڈ ازخود جاری کرتا رہا اور کارڈ کے نام پر بھتہ نما چارجز کاٹتا رہا لیکن پُرانے کارڈ بھی باقاعدہ استعمال میں رہتے تھے جب تک نئے کارڈ کو ایکٹیونا کروایا جائے۔ لیکن امسال کی پالیسی کے تحت پرانے تمام کارڈ غیر موثر ہوجائیں گے۔ اس کا تمام اثر ان صارفین کو پڑے گا جو پردیس میں بیٹھے اپنے اہل خانہ کو قانونی طریقے سے رقوم ارسال کر رہے اور ملک کی ترقی و ترویج میں اپنا موثر کردار ادا  کر رہے ہیں۔

لیکن اس نئے اقدام سے نا صرف ہنڈی جیسے غیر قانونی طریقے سے پیسے بھیجنے کی ترغیب دی جاری ہے بلکہ اس سے اسٹیٹ بینک کو زرمبادلہ کی مد میں کافی نقصان کا سبب سکتا ہے۔۔ پالیسی بناتے وقت ان اورسیز پاکستانی کی مشکلات کو سامنے رکھ کر فیصلہ کیا جاتا تو یہ ایک بہتر اور مثبت اقدام ہوتا۔ ممکن ہے اسٹیٹ بینک آف پاکستان اورسیز پاکستانی کی مشکلات کا ضرور سوچے گی۔ کیونکہ ماضی میں بھی بائیومیٹرک والے  نظام نے شدید اذیت کا شکار رکھا بعد اذاں  آن لائن فنگر پرنٹ کی سہولت مہیا کی گئی۔

ادارہ اردوپوائنٹ کا بلاگ کے لکھاری کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

© جملہ حقوق بحق ادارہ اُردو پوائنٹ محفوظ ہیں۔ © www.UrduPoint.com

تازہ ترین بلاگز :