Episode 12 - Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed

قسط نمبر 12 - غروبِ محبت - سمیرا حمید

قدسیہ میرے مغربی پہناوے کی تعریف کرتی تھی دراصل وہ میرے ہر انداز کی تعریف کرتی تھی… اکثر اسے محسوس ہوتا کہ میرے مقابلے میں اس کی ڈریسنگ اور سٹائل بہت بھدا ہے… ایسا تھا بھی لیکن ایسا نہیں تھا کیونکہ عفان نے کہہ دیا تھا ”جو تم نے پہن رکھا ہے وہ تم پر بہت سوٹ کرتا ہے… کیا یہ کافی نہیں ہے۔“
اس نے مجھے ناپسند اور قدسیہ کو پسند نہیں کیا تھا،شاید وہ قدسیہ کو احساس کمتری اور اداسی سے بچانا چاہتا تھا،لیکن عفان کی یہ بات میرے دل میں گھر کر گئی،رات کی نیند کہیں کھو گئی،ہر وقت ایک ہی بات ”عفان قدسیہ کا دوست ہے اور میں؟“
میں قدسیہ سے پوچھ سکتی تھی کہ عفان اس کیلئے کیا ہے لیکن میں پوچھنا نہیں چاہتی تھی،میں نہیں چاہتی تھی کہ اسے شک بھی ہو کہ عفان کیلئے میرے اندر باہر کچھ چل رہا ہے۔

(جاری ہے)

ویسے قدسیہ ٹوہ میں رہنے والی لڑکیوں کی طرح نہیں تھی،اس سے جو پوچھا جاتا وہ بتا دیتی تھی… جو بتایا جاتا اس پر یقین کر لیتی تھی… وہ انسانوں میں کسی بھید کی موجودگی کا گمان کرتی تھی نہ ہی اس کی کھوج… وہ اپنی زندگی کو ایک ہی سمت میں جاتے ہوئے دیکھتی تھی ”مسیحائی“ کی سمت۔
میں کالج میں ہر وقت ان دونوں کو نوٹ کرتی رہتی تھی،کالج کے بعد ان دونوں کے بارے میں سوچتی،یک نئی ہلچل شروع ہو گئی تھی زندگی میں… ایک مقابلے کی سی کیفیت آ گئی تھی دل و دماغ میں،دل کچھ کہتا دماغ کچھ… دماغ کہتا کہ وہ صرف دوست ہیں،ان کی دوستی کے شواہد ہزار تھے… اور ”محبت“ اس کا نہ جواز تھا نہ ہی امکان… ہر روز… ہر بار… وہ مجھے صرف دوست ہی لگتے… صرف اچھے دوست۔
قدسیہ میں اتنی صلاحیت تھی نہ ہی تمنا کہ وہ عفان کے ساتھ کورٹ شپ کرتی۔ وہ سادگی لئے ایک دوسرے کے ساتھ عام سا ہنسی مذاق کرتے،عام سی معمول کی باتیں،تھوڑی بہت نوک جھونک اور بس… تحائف عفان مجھے بھی دیتا تھا بلکہ میری برتھ ڈے پر اس نے کافی اہتمام کیا تھا اپنی طرف سے… وہ میری تعریف کرتا تھا اور مجھے حور کہتا تھا۔ یعنی اسے میری خوبصورتی نظر آتی تھی،اسے فرق نظر آتا تھا کہ قدسیہ… صرف قدسیہ ہے اور میں ”حور“
لیکن پھر بھی وہ ہم دونوں کیلئے اتنا برابر تھا کہ میں کوشش کے باوجود یہ جان نہیں سکی کہ میں اس کیلئے زیادہ اہم ہوں یا قدسیہ،کیا میں اس کیلئے دوست سے زیادہ کچھ ہو سکتی ہوں یا قدسیہ دوست کے علاوہ کچھ ہو چکی ہے؟؟
جو سوالیہ نشانات میری ذات میں پھولتے پھلتے تھے ان کے جوابات مجھے بے حال کر دیتے تھے کیونکہ وہ جوابات کسی کتاب میں نہیں لکھے تھے جن دو کتابوں عفان اور قدسیہ میں لکھے تھے مجھ سے وہ پڑھے نہیں جاتے تھے۔
عفان کی شخصیت ایسی تھی کہ میں چاہ کر بھی اس کے ساتھ اپنی چاہت کا رشتہ استوار نہیں کر سکی،ہم تین تو کالج میں چلنے والے کسی کپل کے دھواں دھار افیئر کو بھی ڈسکس نہیں کرتے تھے کیونکہ عفان کو یہ پسند نہیں تھا… پھر میرا اور اس کا افیئر کیسے شروع ہو سکتا تھا،اس کے ساتھ صرف دوستانہ گپ شپ ہی کی جا سکتی تھی،وہ ان لڑکوں میں سے نہیں تھا جن پر جال پھینکے جاتے ہیں… متاثر کیا جاتا ہے… اور آخر کار راضی کر ہی لیا جاتا ہے… ظاہر ہے ایسی صورت میں وہ مجھے ناپسند ہی کرتا اس کے حلقہ احباب میں ایسے ہی لوگ تھے،وہ رنگین دنیا اور بہاروں کی باتوں میں نہیں اُلجھتے تھے،عفان ایک خاص انداز میں،ایک خاص حد میں رہنے والا انسان تھا۔
وہ اشارے کر کرکے اپنی حد کی نمائندگی نہیں کرتا تھا کہ ”یہ ہوں میں،یہ ہے میری حد“ اس کی مکمل شخصیت ہی اس باڑ کی طرح تھی جس کے اس پار سے دیکھ کر ہی اس پار کے بارے میں اندازہ لگایا جا سکتا ہے،رات گئے اپنی مترنم آواز میں اپنا جادو جگانے والی لڑکی حوریہ خوب جان گئی تھی کہ اُسے باتوں میں لگایا نہیں جا سکتا،لیکن اُسے ایک بار میری آنکھوں میں ضرور دیکھ لینا چاہئے تھا پھر وہ جان جاتا کہ وہ میرے لئے کیا ہے… وہ میرا سب کچھ تھا۔
###
”اسپشلائزیشن کیلئے عفان یو ایس اے (USA) جائے گا۔“ قدسیہ ایک دن مجھے بتانے لگی،ہم دونوں کینٹین میں بیٹھے تھے عفان ہمارے ساتھ نہیں تھا۔ ”کہہ رہا تھا کہ میں بھی ہارٹ سرجن ہی بنوں۔“
”لیکن تمہارا تو کوئی ارادہ نہیں تھا ہارٹ سرجن بننے کا؟ مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ ان دونوں کے درمیان یہ باتیں میری غیر موجودگی میں ہوئی تھیں۔
”عفان نے کہا مجھے بننا ہی ہوگا… وہ کہتا ہے حوریہ میں ایک بہترین سرجن بنوگی اور پھر وہ میری مدد بھی کرے گا“
”تمہاری مدد کرے گا؟ مجھے سمجھ ہی نہیں آ رہی تھی کہ وہ کہنا کیا چاہ رہی ہے۔“
”پاگل جیسے وہ یہاں ہماری مدد کرتا ہے۔“
”لیکن اسے تو امریکہ جانا ہے نا… پھر کیسے…؟؟“
”پھر…“ قدسیہ بلاوجہ مسکرانے لگی۔
”دوسری بار میں نے قدسیہ سے پوچھا تھا اور یکدم سے مجھ پر انکشاف ہوا… مجھے اس پھر کے جواب سے نفرت ہے… مجھے یہ جواب نہیں سننا… قدسیہ مسکرا رہی تھی… اس کی آنکھیں جگمگا رہی تھیں میری دھندلا گئی تھیں… ذرا دور درختوں کے سوکھے پتوں کو صفائی والا آگ لگا رہا تھا۔
”مدد… عفان… امریکہ…“
”مجھے بہت فخر ہے عفان پر حوریہ… اس دنیا کا وہ سب سے پیارا انسان ہے“ قدسیہ گویا ہوئی،اسے مجھے یہ بتانے کی ضرورت نہیں تھی کہ عفان کیا ہے… میں قدسیہ سے زیادہ عفان کی شان بیان کر سکتی تھی،کڑی سے کڑی ملتی پوری کہانی بن گئی،اس کا عنوان ”محبت“ تھی،اس کے کرادر عفان اور قدسیہ تھے…
سوکھے پتے جلنے لگے اور دھواں نکلنے لگا،ہرے پتے لہلہا رہے تھے،عفان قدسیہ کو ہارٹ سرجن بنانا چاہتا ہے؟ وہ دونوں ہارٹ سرجن بنیں گے… مسٹر اور مسز عفان…

Chapters / Baab of Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed