Episode 2 - Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed

قسط نمبر 2 - غروبِ محبت - سمیرا حمید

”مجھے نہیں معلوم کہ وہ کون تھے… وہ جو بھی تھے میں ان سے تمہارے تعلق سے مل رہی تھی… تم بھی میرے ساتھ ہی تھے،تم خود ملوا رہے تھے… سب سے… اگر اعتراض تھا تو مت ملواتے… ایسے اتنی باتیں… وہ بھی میرے لئے…“ اس نے بمشکل اپنا رونا روکا۔
”وہ تم سے تعلقات بنا رہے تھے… اور تم…“
”تعلقات… اور میں کیا…؟ اس کی آواز اونچی ہو گئی ”اور میں کیا…؟؟“ وہ چلائی۔
وہ ایسے خاموش ہوا جیسے جواب تو اس کے پاس ہزار ہیں مگر وہ انہیں بیان کرنا نہیں چاہتا۔
”مجھے کسی سے تعلقات بنانے کی ضرورت نہیں ہے… تمہارا تعلق کافی ہے میرے لئے…“
”ایک ہی تعلق تو کافی نہیں ہوتا نا… تم سب کیلئے…“ اس نے جانے کیوں یہی طنز کیا اس پر۔
”مجھے کس سب میں شامل کر رہے ہو؟؟“ اسے جھٹکا لگا۔

(جاری ہے)

”وہی جو تم ہو…“
”کیا ہوں میں… بیوی ہوں تمہاری اور کیا ہوں؟“ اب تو وہ ہر صورت معلوم کرنا چاہتی تھی کہ ان اتنی ساری باتوں کا مطلب کیا ہے۔
”تو بیوی بن کر ہی رہو نا…“ وہ ان اندازوں کا حامل نہیں تھا آج ہی آج ابھی کے ابھی اس نے اتنے انداز سیکھ لئے تھے۔
”بیوی ہی تو بنی ہوں… ورنہ تم بتا دو… کیسے بنتے ہیں۔“
وہ اس ساری صورتحال کو سمجھنے سے قاصر تھی خود کو ذرا تسلی دینے کیلئے اس نے یہی سوچ لیا کہ شاید وہ آج پریشان ہے اور اس پریشان کو مزید پریشان نہ کرنے کیلئے،کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔
 ”ہم کہاں جا رہے ہیں“ گھر کی طرف جانے والی سڑک کو پہچان کر اس نے پوچھا۔
”گھر“ اس کی آواز اس کے موڈ سے بھی زیادہ خراب تھی۔
”تم نے کہا تھا ہم ڈنر کیلئے جا رہے ہیں۔“
”ڈنر تم گھر کرنا۔“
”تم اس لئے مجھے وہاں سے اتنی جلدی میں لے کر نکلے۔“
”وہاں سے نکلنے کا غم ابھی تک ہے؟؟“
”وہاں سے جلدی آنے کا نہیں تمہارے جھوٹ بولنے کا یہ اچانک سے تمہیں کیا ہو گیا ہے کیسی باتیں کر رہے ہو آج؟“
وہ خاموش ہو گیا جیسے اس کی ٹھوس دلیل پر قائل ہو گیا ہو… سوچنے لگا کہ کیا ہوا اسے…
”اچانک سے کچھ نہیں ہوتا… ہر چیز کی وجہ ہوتی ہے… کہیں نہ کہیں… کچھ نہ کچھ ہو رہا ہوتا ہے… اس کا انجام شاید اچانک سامنے آتا ہے…“ یہ سب اس نے اسے نہیں کہا تھا اس نے خود سے یا کسی اور سے ہی یہ کلام کیا تھا… اس کے پہلو میں بیٹھی حور پر بہت سے رنگ آکر گزرے اس بڑبڑاہٹ پر… وہ ایک نارمل انسان تھا اچانک سے اسے شبہ ہوا کہ وہ ابنارمل بھی ہو سکتا ہے کبھی بھی کچھ بھی ہو سکتا ہے۔
گھر کا قفل کھول کر اس نے اسے اندر چھوڑا اور خود واپس پلٹا۔
”کہاں جا رہے ہو؟“
”واپس پارٹی میں… تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تم آرام کرو…“ کہہ کر وہ چلا گیا اس نے روک کر اس کے چہرے پر چھائے افسوس اور ملال کو بھی نہیں دیکھا۔ اس نے یہ بھی نہیں دیکھا کہ وہ جو اتنی خوبصورت لگ رہی تھی اب کیوں اتنی بدصورت نظر آنے لگی ہے۔
بدصورتی کی ابتداء اس نے اپنا نکلس اتار کر کی… اس نے اسے نوچ کر اتارا اور دیوار پر دے مارا… پھر جھٹکے سے اپنے جوتے اتار پھینکے… دائیں کلالی میں پہنا بریسلٹ… دونوں کانوں میں پہنے ٹاپس… غصے سے بالوں میں اتنی بار ہاتھ چلائے کہ وہ الجھ کر خزاں رسیدہ سے نظر آنے لگے… اسے غم زیادہ تھا یا غصہ… وہ اندازہ ہی نہیں لگا سکی… پر وہ بہت بری طرح سے سہم گئی… کچھ دیر پہلے وہ ایک ایسے شخص سے ملی تھی جسے وہ جانتی ہی نہیں تھی… یہ اس شخص سے اچانک ملاقات تھی… جیسے چلتے چلتے کسی غلیظ سی چیز سے الجھ کر گرنا۔
دو گھنٹے بعد وہ واپس آیا تو وہ وہیں بیٹھی تھی،بنا کچھ کھائے پیئے… ایک ہی انداز سے باہر دیکھتے ہوئے… اس کے پھینکے گئے جوتے یہ بتا رہے تھے کہ وہ کس قدر غصے میں آ گئی تھی،ان جوتوں اور ان جوتوں کو پہننے والی پر ایک نظر ڈال کر بھی وہ اسے بہلانے اس کے پاس نہیں آیا اور جا کر سو گیا۔
وہ جا کر سو گیا… اور وہ سو نہ سکی۔
”اسے کیا ہو گیا ہے؟؟ وہ خود سے بار بار ہی ایک سوال کر رہی تھی… یہ سوال اسے خود سے ہی کرنا چاہئے تھا،اس سے متعلق بہت سے سوالوں کیلئے یقینا اسی کے پاس آنا چاہئے… وہ جو ذرا سا سہم گئی ہے وہ جو اندر جا کر سو جانے والے سے بے انتہا محبت کرتی ہے… وہی محبت جس میں سب جائز ہے… سب خون معاف ہیں… جس کا ہر وار پراختیار ہے،اسی سب کیلئے وہ سہم گئی ہے۔
###
موڈ اس کا خراب ہونا چاہئے تھا جبکہ اس نے اپنا موڈ خراب کر لیا۔ کئی دن تک وہ اس سے کھنچا کھنچا رہا… کچھ پوچھنے پر بھی جواب نہ دیتا… مسکرا کر اس کی طرف دیکھنا جیسے اس نے خود پر حرام کر لیا تھا اور کہیں باہر لے جانے پر بھی اس پارٹی کے بعد وہ اسے دوبارہ کہیں نہیں لے کر گیا… چھوٹی بڑی پارٹیز تو ہوتی ہی رہتی تھیں وہ خود بھی ان میں نہیں جاتا تھا وہ اس طرح کے شوق نہیں رکھتا تھا،اسے کتابوں سے بہت لگاؤ تھا اور وہ انہی پر سر رکھ کر سو جاتا۔
نیویارک میں جو ان کے قریبی ملنے والے تھے اور جن کے یہاں جائے بنا رہا نہیں جا سکتا تھا وہاں وہ اکیلا ہی جاتا تھا،اسے نہیں معلوم کہ وہ لوگوں کے پوچھنے پر کیا کہتا ہوگا،شاید ایک ہی گھسی پٹی بات کہ” اس کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی یا وہ کچھ مصروف تھی… یا وہ ضرور آتی اگر بہت تھکی ہوئی نہ ہوتی… آئندہ ضرور لاؤں گا میں اسے اپنے ساتھ“ ایسی بہت سی باتیں کرتا ہوگا۔
اس کی بیوی خوبصورت تھی اور وہ اس خوبصورتی کو گھر میں رکھنا چاہتا تھا،وہ ایک عورت تھی اور وہ اس عورت پر اعتبار کرنا نہیں چاہتا تھا،وہ ایسا نہیں تھا… وہ ایسا ہو رہا تھا… وہ ایک اچھا انسان تھا… وہ ایک اچھا شوہر نہیں بن رہا تھا… وہ بہت کھلے ذہن کا مالک تھا… وہ اس کے الٹ ہوتا جا رہا ہے… پہلی ہی تکرار نے اس کی جوں بدل دی… وہ دیکھتی ہی رہ گئی… آسمان کے سارے ستارے ایک ساتھ ٹوٹتے تو بھی وہ اتنا حیران نہ ہوتی… اور اب اسے دیکھ دیکھ اس کی حیرت جاتی ہی نہیں… بدل تو وہ کچھ عرصہ پہلے ہی رہا تھا… اس پر اب آشکار ہو رہا تھا کیونکہ اب دونوں ساتھ تھے… دونوں ایک ہی تعلق سے تھے… اور وہ اس کا حاکم تھا… بھلے سے وہ اسے محبوب بنائے بیٹھی رہے… اسے دیکھ دیکھ کر جیتی رہے اسے سوچ سوچ کر خواب بنتی رہے…آہستہ آہستہ اس کی عادت بدلنے لگی… وہ اپنی خوبیوں کو آگ لگا دینے کے در پر ہو گیا۔
کچھ ہی دنوں بعد اسے اس کے پرنسل فون رکھنے پر اعتراض ہوا… نیویارک جیسی ہائی فائی سٹی میں وہ اس کے پرنسل فون پر بحث کر رہا تھا۔
”گھر میں فون ہے وہ استعمال کرو…“
”مجھے گھر کا فون استعمال کرنے پر اعتراض نہیں ہے،مجھے اعتراض فون چھین لئے جانے پر ہے…“
”اعتراض…؟ تمہیں یہ حق کس نے دیا کہ تم اعتراض کرو… تمہیں جو کہا تم وہ کرو…“
”لیکن تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟“ وہ رو دینے کو ہوئی۔

Chapters / Baab of Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed