Episode 14 - Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed

قسط نمبر 14 - غروبِ محبت - سمیرا حمید

”ہاں اس نے بتایا تھا جب وہ ایف ایس سی کر رہی تھی… اس کے تایا جان بہت لگاؤ سے آئے تھے… اور تب ہاں… انہی دِنوں ایک اور واقعہ بھی ہوا تھا سارے کالج میں شیراز کے نام کی دھوم مچی تھی… گیٹ سے باہر کھڑی لڑکیوں نے ایڑیاں گھوما گھوما کر اسے دیکھا تھا،قدسیہ کے انکار کی وجہ سے وہ اسے ملنے کالج آ گیا تھا اور اس کی منت کر رہا تھا کہ وہ کار میں بیٹھ جائے لیکن قدسیہ کھڑی صاف انکار کر رہی تھی،اس نے قدسیہ کے دونوں شانوں پر اپنے ہاتھ جمائے۔

”سنائی دے رہا ہے میں کیا کہہ رہا ہوں… التجا کر رہا ہوں کہ ایک بار میری بات سن لو“ آواز ذرا بلند تھی آس پاس کی لڑکیاں دونوں کی طرف گھوم گئیں۔
”چھوڑو مجھے شیراز… بدتمیز… لگا دیا نا یہاں بھی تماشا“ قدسیہ نے اس کے ہاتھ جھٹکے اس نے لپک کر اس کا ایک ہاتھ پکڑا اور اسے تقریباً گھسیٹ کر کار میں پٹخا… اور تیز رفتاری سے کار اُڑا لے گیا… قدسیہ پورا ایک ہفتہ کالج نہیں آئی تھی… اس کے بے حد شاندار پرسنالٹی کے مالک کزن کی بابت بہت سے سوال اٹھے تھے… لڑکیوں کو بہت تجسس تھا یہ جاننے کیلئے کہ ایسی خالصتاً افسانوی صورتحال اس کے نصیب میں کیسے لکھی گئی…؟؟ اور وہ پاگل ہے یا الو جو اس رشتے سے انکار کر رہی ہے؟؟
”کتنا برا لگتا ہے وہ مجھے میں بتا نہیں سکتی۔

(جاری ہے)

”کزنز میں ایسی لڑائیاں ہو ہی جاتی ہیں اس کا یہ مطلب نہیں کہ اتنی نفرت پال لی جائے دل میں۔“
”سب یہی کہتے ہیں… مگر میں اس معاملے میں مجبور ہوں میں اسے پسند نہیں کر سکتی۔“
”تم عفان سے کیوں چھپاناچاہتی ہو شیراز کو۔“
”بات چھپانے کی نہیں اس کی حرکتیں ہی اتنی عجیب ہیں کہ سننے والا کیا سوچے گا… آخر ہے تو میرا ہی کزن نا“
”ابھی بھی تمہیں تنگ کرتا ہے۔
”نہ ہماری ملاقات ہوتی ہے نہ ہی بات چیت،وہ گھر آئے بھی تو میں اس سے نہیں ملتی،حرا اور مانی سے کافی دوستی ہے اس کی،برتھ ڈے وغیرہ وش کر دیتا ہے مجھے… کبھی کبھار ہائے ہیلو کے میسیجز۔
”تم جواب دیتی ہو اس کے میسیجز کے۔“
”موڈ پر ہے دل کیا تو ورنہ نہیں… اور زیادہ تر نہیں…
”شیراز تو کافی شریف نہیں ہو گیا قدسیہ؟“
”مجھے اس سے کیا“ اس نے شانے اُچکائے۔
میں نے قدسیہ اور عفان کے بارے میں اتنا سوچا کہ شیراز مجھے یاد آ ہی گیا،میں اسے کیسے بھول گئی،اسے ہی تو مجھے یاد رکھنا چاہئے تھا۔
قدسیہ کے موبائل سے شیراز کا نمبر لینا میرے لئے بہت آسان تھا۔ اس سے بھی زیادہ آسان اس سے بات کرنا تھا،گھر جا کر میں نے شیراز کو فون کیا،میں نے سے بتایا کہ قدسیہ اسے پسند کرتی ہے۔
”آپ یقینا مذاق کر رہی ہیں“ شیراز پر حیران ہونا واجب تھا۔
”وہ تو مجھ سے ٹھیک طرح سے بات ہی نہیں کرتی،وہ رشتے کیلئے صاف صاف انکار کر چکی تھی… میری منت کے باوجود“
”اس میں بہت ایگو ہے… وہ کبھی نہیں بتائے گی اپنی پسندیدگی کا کالج کے دنوں میں جب آپ کا پرپوزل آیا تو وہ آپ سے بدلہ لینا چاہتی تھی…“
”کیسا بدلہ…؟“
”آپ کی شرارتوں کا… وہ آپ کے ہاتھوں بہت تنگ رہی ہے۔“
”میں نے سوری کہہ دیا تھا اسے“
”بس وہ ذرا موڈ میں تھی… پھر وہ پچھتائی۔
”صرف ضد میں آکر پرپوزل پر ناں کہہ دیا۔“
”ایگو میں آکر بھی…“
”ایگو تو واقعی اس میں بہت ہے… کیا وہ واقعی مجھے پسند کرتی ہے حوریہ؟؟“
”بہت زیادہ کرتی تھی… اس کا کہنا تھا کہ وہ آپ کی ناک کی لکیریں نکلوائے گی پھر ہاں کرے گی۔“
”کیا سچ… میں تا عمر ناک سے لکیریں نکالنے کیلئے تیار ہوں… میرے خیال تھا وہ مجھے سخت ناپسند کرتی ہے۔
”وہ آپ کو بے حد پسند کرتی تھی… لیکن ہر بار نئی لڑائی پر وہ آپ سے چڑ جاتی تھی۔“
”میں نے اسے بہت تنگ کیا ہے“ شیراز بہت خوش نظر آنے لگا شیراز سے یہ وعدہ لے کر کہ وہ میرا ذکر نہیں کرے گا میں نے فون بند کر دیا،مجھے توقع نہیں تھی کہ شیراز کو اتنی جلدی ہوگی،اگلے دن قدسیہ کالج نہیں آئی،شام کو اس نے مجھے فون کیا۔
”ہمارے گھر کل رات بہت ہنگامہ ہوا حوریہ! تایا جان میرا رشتہ لے کر آئے تھے،خاندان کے کچھ اور لوگ بھی تھے،بہت خوش تھے تایا جان،ان کی تو ہمیشہ سے خواہش رہی تھی میرا رشتہ لینے میں۔
پھر؟
”پاپا،ماما نے سوچنے کیلئے وقت لیا ہے،تایا جان اسی وقت ہاں کہلوانا چاہتے تھے بس اسی بات پر ہنگامہ ہوا،پھوپھو،چچا،دادو بھی تھے،سب ناراض ہو رہے تھے پاپا پر کہ وہ فوراً ہاں کیوں نہیں کر رہے… پھر انہوں نے تقریباً ہاں ہی کر دی،میں نے بہت ہنگامہ کیا مجھے شیراز سے شادی نہیں کرنی،میں نے عفان کا ذکر نہیں کیا… مجھے پہلے اس سے بات کرنی ہے… اس کی بے چینی کا اندازہ اس کی آواز سے لگایا جا سکتا تھا،دراصل جو کچھ عفان اور قدسیہ کے درمیان تھا وہ اَن کہا تھا… جسے وہ اپنی اپنی جگہ پر جانتے تو تھے لیکن تصدیق کیلئے بہرحال انہیں ایک دوسرے سے کھل کر بات کرنی تھی۔
”تم عفان سے فون پر بات کروگی؟“
”فون پر بہت مشکل ہے پاپا آج آفس بھی نہیں گئے،وہ بہت پریشان ہیں،تایا جی بہت ناراض ہو گئے تھے،وہ ایک بار مجھ سے بات کر گئے ہیں… مجھ سے وجہ پوچھ رہے تھے انکار کی… عفان ان کے سامنے آ جائے گا تو وہ سمجھ جائیں گے،میں کل کالج آکر بات کرونگی۔
میں بات کروں عفان سے… اسے کچھ تھوڑا بہت کچھ بتاؤں؟ 
”تم کر لو گی حوریہ؟“
”ہاں میں کر لونگی… تم فکر نہ کرو بلکہ انکل کا غصہ ٹھنڈا ہونے تک تم کالج ہی نہ آؤ… اس طرح تم بات کو بگاڑ دوگی… تم اتنی پریشان کیوں ہو؟ رشتہ ہی مانگا ہے نا شادی تو نہیں ہو رہی نا؟“
”میں ڈر گئی ہوں…“
”بلاوجہ ڈر رہی ہو…“
”نہیں مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے… ایسے کبھی میرا دل نہیں سہما“
”تم وہم پال رہی ہو…“
”تم عفان سے شیراز کی بات مت کرنا…“
”ٹھیک ہے قدسیہ… لیکن تم ایسے پریشان مت ہو…“
”لیکن میں کل کالج ضرور آؤنگی…“

Chapters / Baab of Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed