Episode 18 - Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed

قسط نمبر 18 - غروبِ محبت - سمیرا حمید

”میں کل قدسیہ کے گھر گئی تھی عفان“ میں نے افسردگی اور اداسی سے کہا۔
”اس پاگل سے کہنا تھا،آ بھی جاؤ کالج عفان کا دم نکل جائے گا تو ہی آئے گی اور اس نے مجھے فون بھی نہیں کیا۔ “اس کے ذکر پر ہی عفان اتنا خوش ہو گیا تھا۔
”وہ اب کالج نہیں آئے گی وہ دبئی جا رہی ہے شیراز کے ساتھ 
”دبئی کیوں؟“ عفان کو شیراز سے مطلب نہیں تھا۔
”اس کی شیراز سے شادی ہو چکی ہے“
کالج کی بلڈنگ گھوم کر زمین بوس ہوئی،عفان نے میری طرف دیکھا سر کو جھٹکا اور پھر کئی لمحے دیکھتا رہا،وہ مجھے پاگل سمجھ رہا تھا۔
”مجھے یہ مذاق پسند نہیں آیا حوریہ“ اس نے اپنی تیز آواز کو صبر سے دبایا اور بمشکل نرمی سے بولا، میں کئی بار اس کی طرف دیکھتی رہی… پھر اس نے میرے مکمل انداز اور میری آنکھوں کو جانچا… اس کی آنکھوں کا جال،جال در جال ہو گیا،ماتم زدہ آندھی مجھے اس کے آر پار چلتی دکھائی دی… اس نے مجھے مذاق کا کہہ دیا تھا اور اس مذاق سے وہ جان کنی کے عذاب سے گزر رہا تھا۔

(جاری ہے)

”میں مذاق ہی تو نہیں کر رہی عفان! اس کی شیراز کے ساتھ شادی ہو چکی ہے۔ جن دنوں وہ کالج نہیں آ رہی تھی ان ہی دنوں اس کی شادی کا سلسلہ چل رہا تھا،افسوس تو یہ ہے کہ اس نے یہ ساری بات ہم سے چھپائی،میں کل جب اس کے گھر گئی تو مجھے معلوم ہوا کہ اس کا نکاح ہو چکا ہے اور دونوں دبئی جا رہے ہیں۔“
عفان مجھے ہی تکے جا رہے تھا وہ اس انتظار میں تھا کہ کہوں ”میں مذاق کر رہی ہوں… ڈر گئے نا…“
”میں مذاق نہیں کر رہی عفان“ میں جھنجھلا گئی۔
”تم مذاق نہیں کر رہی تو یہ سب کیا بکواس کر رہی ہو؟“
وہ حلق کے بل چلایا… آس پاس بیٹھے سٹوڈنٹس دیکھنے لگے،میں نے سر جھکا لیا اور انگلیاں چٹخنے لگی۔
”قدسیہ کی شادی ہو گئی ہے اس نے خود کلامی کی“ جیسے خود سے پوچھا اور خود کو بتایا ہو،قدسیہ ایسے کیسے کر سکتی ہے؟ صدمے کی شدت کو اس کے چہرے پر دیکھا جا سکتا تھا۔
”اس نے ایسے شادی کیوں کی؟ بنا بتائے چھپا کر؟ وہ اٹک اٹک کر بولا اسے یہی سوال پوچھنا گوارا لگا۔
”مجھے نہیں معلوم… مگر اس کا نکاح ہو چکا ہے۔“
اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سر کو تھام لیا اور ایسے راہی کی طرح نظر آنے لگا جس کے ہم راہی نے دیکھتے ہی دیکھتے راستہ بدل کر اسے بے نشان منزل کی طرف دھکیل دیا،اس کی آنکھیں سرخ ہو گئیں اور وہ آس پاس نظریں دوڑانے لگا جسے وہ ڈھونڈ رہا تھا وہ آس پاس کہیں بھی نہیں تھی۔
کافی دیر تک وہ اسی حالت میں بیٹھا رہا پھر تیز تیز قدم اٹھاتا وہ وہاں سے چلا گیا… میرے پاس سے اٹھ کر… اس کا جانا بھی کم و بیش ویسا ہی تھا جیسا قدسیہ کا تھا جب وہ آخری بار کالج آئی تھی،ایک جا چکی تھی اور ایک جا رہا تھا… مجھے خوف سا ہوا کہ عفان بھی ہمیشہ کیلئے چلا گیا۔
عفان کا فون بند تھا اور وہ مسلسل تین دن تک بند رہا،وہ کالج بھی نہیں آ رہا تھا،اس کے گھر میں جانا نہیں چاہتی تھی۔ قدسیہ سے بھی دوبارہ رابطہ نہیں کیا تھا، مجھے اس کی ضرورت بھی نہیں تھی،مجھے صرف عفان کی فکر تھی میں اس سے ملنا چاہتی تھی،تین دن بعد رات گئے اس کا فون آیا،فون کرکے وہ بات کرنا بھول گیا تھا،وہ گہری گہری سانسیں لے رہا تھا“ اس نے ایسا کیوں کیا؟
مجھے اس سوال کی پرواہ نہیں تھی پریشان میں اس کی آواز سن کر ہو گئی تھی وہ رو رہا تھا،روتا رہا تھا یا رونے والا تھا۔
”اس کے ساتھ زبردستی کی گئی ہے نا،میں کیسے جان لوں کہ اُس نے چپکے سے شادی کر لی… خوشی خوشی… وہ کسی سے بھی شادی کیسے کر سکتی ہے… تم پلیز میری اس سے ایک بار بات کروا دو،بلکہ میں اس سے ملنا چاہتا ہوں۔“
”ٹھیک ہے عفان! تم ایسے پریشان مت ہو،میں کل تمہاری اس سے بات کروا دیتی ہوں… ہم مل بھی لیں گے اس سے تم کل کالج ضرور آنا… میں تمہارا انتظار…“
میری بات مکمل ہونے سے پہلے ہی اس نے فون بند کر دیا،رات کے تیسرے پہر وہ قدسیہ کی یاد میں جاگ رہا تھا اور میں اس کے اگلے دن کالج میں اس کا انتظار کرتی رہی لیکن وہ نہیں آیا وہ اگلے کئی دن نہیں آیا… اسے قدسیہ سے بات کرنی تھی لیکن قدسیہ کا نکاح ہی ہو چکا تھا،وہ قدسیہ کے غم میں مبتلا تھا اور یہ بہت بڑی بات تھی،اسے میری محبت میں مبتلا ہونا چاہئے تھا۔
###
دس دن بعد وہ کالج آیا تھا۔
”وہ شیراز کو بچپن سے پسند کرتی تھی،وہ ایک ساتھ ایک ہی گھر میں پلے بڑھے تھے۔ میں نے قدسیہ سے ہمیشہ شیراز کا ہی ذکر سنا تھا،ان دونوں کی بچپن سے ہی نسبت طے تھی۔“
عفان بنا کوئی تاثر دیئے مجھے سن رہا تھا اس کی نظریں مجھ سے ہٹ کر کہیں کسی نقطے پر مرکوز تھیں،اس کی حالت کچھ ایسی تھی کہ اسے ہائے،ہیلو کہنے والے رک کر ”کیا ہوا تمہیں“ پوچھ رہے تھے۔
”اس نے مجھے منع کیا تھا کہ میں شیراز کا ذکر کسی سے بھی نہ کروں،کالج میں سب کو معلوم تھا کہ وہ اور شیراز… شاید تمہیں یاد ہو کہ ایک بار میں نے شیراز کا ذکر کیا تو وہ بوکھلا گئی،تمہارے جانے کے بعد اس نے مجھے سختی سے منع کیا کہ تمہارے سامنے اس کا نام نہ لوں۔“
”وہ اس سے محبت کرتی تھی“ غرمرئی نقطے کو گھورتے وہ بڑبڑایا۔
”ہاں! شیراز اس کی بچپن کی محبت تھا،شیراز کاروبار کیلئے دبئی جا رہا تھا تو دونوں کے خاندان نے سوچا کہ ان کی شادی کر دی جائے،اسی لئے ان کا نکاح کر دیا گیا،قدسیہ نے مجھے بھی نہیں بتایا نکاح کا… جب میں تمہارے کہنے پر اس کے گھر ملنے گی تب بھی نہیں۔
عفان تمسخر سے ہنسا اپنا تمسخر اڑایا ”وہ شیراز سے محبت کرتی تھی۔“
وہ ہنسا ”وہ دونوں…“ وہ خود پر ہنسا،جیسے جب کوئی بے وقوف بن جائے تو بہت رو کر خود پر ہنستا ہے… اپنا تمسخر اڑاتا ہے سکون پاتا ہے۔
”اس نے دوبارہ مجھے فون نہیں کیا،لیکن اگر تم چاہتے ہو تو میں اسے فون کرتی ہوں،اگر دبئی نہ جا چکی ہوتی تو ہماری بات ہو سکتی ہے۔“

Chapters / Baab of Ghuroob E Mohabbat By Sumaira Hamed