Episode 4 - Dang Kholey - Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik

قسط نمبر4۔ ڈِنگ کھولے - طاقتور شکاری کا المیہ (افسانے) - طیب عزیز ناسک

دریا پر مچھواروں کے درمیان بھی آہستہ آہستہ یہ خبر پھیل چکی تھی کہ کنارے پر آباد لوگوں کو تھوڑے ہی عرصے میں یہاں سے دوسری جگہ منتقل دیا جائے گا۔ مچھواروں کے چہرے اس خبر کے تاثر سے عاری تھے اورایک لطیف مسکراہٹ ان کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی اور وہ اپنے کام میں مصروف تھے۔
دریا کے کنارے پر آباد اس شہر کا نام ڈنگ کھولے تھا۔
اس شہر کے زیادہ تر لوگ مچھلی اور زراعت کے پیشے سے وابسطہ تھے۔یہاں کے کچھ لوگ محنت مزدوری کرتے اور کچھ لوگ ڈاکہ زنی جیسے کاموں میں ملوس تھے۔ان لوگوں کا اصول تھا کہ یہ لوگ کبھی اپنے شہر یا ساتھ ساتھ والے علاقوں میں ڈاکہ ز نی نہیں کرتے تھے بلکہ اس کام کے لیے وہ دور دراز کا سفر کرتے اور خوب مال لے کر آتے تھے۔اس شہر میں کم ازکم سات سو کے نزدیک گھر تھے۔

(جاری ہے)

گھر عام طور پر کچے اور صحن چاردیواری کی قید سے آزاد تھے۔ لوگ بااخلاق اورذہین تھے۔
دریائے سندھ کے قریب آباد اِس شہر کی رونق اور بھی بڑھ گی جب یہاں چشمہ بیراج اور اس کے سا تھ چشمہ ایٹمی پلانٹ تعمیر ہونا شروع ہوئے ۔اس کے ساتھ ہی ملازمین کے لیے رہائشی کالونیاں بھی تعمیر ہونا شروع ہو ئیں۔شہر کے ساتھ ہی شہر آباد ہو گیاتھا۔اس کے کچھ عرصے بعد ہی دریائے سندھ سے چشمہ لنک کینال نکالی گئی جو اس شہر کے باہر سے گزرتی تھی ۔
شہر والوں کے لیے یہاں ایک پل بنا دیا گیا۔شہر کی رونقیں مزید بڑھنے لگیں۔اس شہر سے باہر ایک ہی مین روڑ تھا جس کو جرنیلی روڑ کہا جاتا تھا۔اس کے علاوہ شہر سے باہر ریلوے اسٹیشن بھی لوگوں کے لیے موجود تھا۔
لوگ زیادہ تر سٹیشن سے شہر تک کا فاصلہ پیدل طے کیا کرتے تھے۔اب سٹیشن سے لوگ شہر میں پل کے رستے سے داخل ہوا کرتے ۔پل سے آگے بڑھتے ہی قبرستان شروع ہو جاتاتھااور پھر قبرستان سے ہی کچا راستہ شہر کی طرف جا نکلتاتھا۔
یہاں سے آبادی شروع ہو جاتی ۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے جب اٹامک انرجی کی ھاؤسنگ کا لونیاں تعمیر ہو رہی تھیں۔اس وقت بھی یہ خبر سننے میں آئی تھی کہ ڈنگ کھولے کے لوگوں کو یہاں سے اٹھادیا جائے گا۔
 اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں پر ہوا کا رخ شمال سے جنوب کی طرف تھا اور اٹامک انرجی کے پلانٹوں کے دھویں سے بیماریاں پھیلنے کا خطرہ تھا۔ ابھی تک یہاں کچھ ایسا نہیں ہوا تھا اوریہ خبر سرکاری حوالے سے کوئی پکی خبر بھی نہیں تھی بلکہ اس شہر کے وہ لوگ جو اٹامک انرجی میں ملازم ہوئے تھے وہی ان لوگوں کو خبریں دیتے کہ ایسی باتیں سننے میںآ رہی ہیں۔
جو شخص بھی سنتا ماننے کو تیار نہ تھا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کی آبادی کافی زیادہ تھی اور اتنی بڑی آبادی کو یہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل کرنا بڑا مشکل کام تھا۔
تقسیم سے پہلے اس شہر میں ہندو مسلم اور سکھ اکٹھے رہا کرتے تھے ۔جن کے مکانوں کے نشان آج بھی باقی ہیں۔پرانے لوگ جنہوں نے ان کے ساتھ عمریں گزاری تھیں آج بھی ان لوگوں کو یاد کر کے روتے ہیں اور بچوں کو ان لوگوں کے قصے اور تقسیم کے حالات سے آگاہ کرتے ہیں۔
شام کو شہر کے بزرگ بچے اور جوان کسی نہ کسی جگہ اکھٹے ہو جاتے اور قصوں اور کہانیوں کے مقابلے ہوتے۔وہ لوگ جو دوسرے شہروں کا سفر طے کر کے آتے ،وہ کئی کئی عرصے تک اس شہر اور وہاں کے لوگوں کی باتیں سناتے رہتے تھے۔اس کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ داستانیں بھی سناتے اور ایک داستان ایک ایک ہفتہ مسلسل رات کو سنائی جاتی تھی اور لوگ اس سے لطف انداز ہوتے تھے۔
پرانے وقتوں کی باتیں اور کہانیاں سنانا اس شہر کی قدیم رسم تھی۔اسی وجہ سے شہر میں مختلف جگہ باتوں اور قصے کہانیوں کے مقابلے بھی ہوا کرتے تھے۔یہاں عام طور پر لوگوں کی تفریح اسی طرح کی ہوتی تھی۔ یہاں سے تین کلو میٹر دور نور محمد کا مزار تھاجہاں پر ہر سال چیتر یعنی مارچ کے مہینے میں عُرس ہوا کرتا تھا۔اسی موقعے پر یہاں میلہ بھی لگایا جاتا ۔
میلے میں لوگ خوب ہلا گلا کرتے۔مزار کے ساتھ ہی کھانے پینے کی دکانیں سجی ہوتیں،پکوڑے،سموسے، جلیبیوں کے تھال کثرت سے سجائے جاتے تھے۔کچے کی کھجور بھی یہاں بہت زیادہ پسند کی جاتی تھی۔یہاں پر لنگر کا انتظام بھی خوب کیا جاتاتازہ بکرے زبح ہوتے اور کٹوؤں میں سالن تیار کیا جاتاتھا۔اس کے ساتھ گندم کی خالص روٹی اور حلوے کے بڑے بڑے کڑہاے تیار کیے جاتے۔
لوگوں کو لنگر شیشم کے بڑے بڑے درختوں کے نیچے بیٹھاکر کھلایا جاتاتھا۔
چیتر کے اسی پہلے ہفتے شہر بھر میں خوشی کی عجیب سی فضاپھیل جاتی۔ لوگ مزار پر چڑہاوے چڑہاتے اور مرادیں مانتے۔ میلے میں خوب ہلا گلا کرتے اور کھاتے پیتے۔
کچھ عرصہ گزر جانے کے بعد اس شہر کو یہاں سے اٹھانے کی خبریں زیادہ سنائی دینے لگی تھیں اور لوگ پریشان ہونے لگے تھے۔
ان لوگوں کو اپنی زمینوں کی فکر تھی۔ ان کے آبائی قبرستان یہیں تھے اور یہ لوگ تو صدیوں سے یہاں رہتے آئے تھے۔اب تو شہر بھر میں یہی باتیں ہو رہی تھیں۔ شہر کے مختلف چوکوں،بازاروں،اور گلی محلوں میں یہی باتیں سننے کو مل رہی تھیں۔
آج سے کچھ عرصہ پہلے دریائے سندھ پر جب چشمہ بیراج کی تعمیرجاری تھی تو ساتھ ہی ایک بکھڑانامی گاؤں آباد تھا۔
جس کو اٹھا دیا گیا تھا۔وہاں سے کچھ لوگ ڈِنگ کھولے کے نزدیک جنوب کی طرف آباد ہو گئے تھے۔ یہاں پر جنگل ہی جنگل تھا ۔دن میں بھی لوگ وہاں جانے سے کتراتے تھے۔یہ بات بھی سننے میں آئی تھی کہ خانگاہ کی وجہ سے وہا ں جن بھوت زیادہ ہیں۔اس سال بھی چیتر کے مہینے میں مزار پر جب جاترنچائے گے تو بہت سے لوگ جن پر جنوں کا سایہ تھا وہ خانگاہ کا نام ہی لے رہے تھے۔
وہاں پر تو ویرانہ ہی ویرانہ تھا۔
ابھی لوگوں کو اس بات کا بھی یقین نہیں ہوا تھاکہ اتنی بڑی آبادی کو کہیں اور منتقل کیا جا سکتا ہے کہ ایک دن سرکاری نوٹس لوگوں کے گھروں میں تقسیم کیے جانے لگے کہ ملکی مفاد کے لیے ڈِنگ کھولے کے لوگوں کو یہاں سے اٹھایا جا رہا ہے۔اس جگہ کو ملکی مفاد کے لیے استعمال کیا جائے گا۔اس کام کے لیے شہر سے باہر اٹامک کالونی کی طرف ایک آفس بنا دیا گیا۔
جو لوگ یہاں سے جائیں اپنی رہائشی زمین کے پیسے وہاں سے وصول کر لیں۔
اس کام کے لیے بہت سے سرکاری آفیسرز بلائے گئے۔یہ لوگ جگہ کا معائنہ کر کے لوگوں کو پیسے دیتے۔جن لو گوں کی زرعی زمینیں تھیں ان کو دوسرے ساتھ ساتھ والے علاقوں میں زرعی زمینیں دے دی گئیں۔اس طرح کچھ ہی مہینوں میں شہر کا شہر دیران ہو گیا۔جن لوگوں کو باہر زرعی زمینیں ملی وہ باہر دوسرے شہروں میں چلے گئے۔
یہاں کچھ لوگوں نے دریا کے پار کچے کا رخ کیا اورکچھ نے ساتھ ہی خانگاہ کو آباد کرنا شروع کر دیا۔جہاں دن کے اُجالے میں بھی کوئی نہیں جا سکتا تھا۔آہستہ آہستہ یہاں سے جنگل ختم ہو گیا اور ویرانے آباد ہو گئے۔
خانگاہ اب آباد ہونے لگی اور حالات بدلنے لگے۔ وہ لوگ جنہوں نے عمریں ساتھ گزاری اب جدا ہو گے تھے۔ جو لوگ اکٹھے رہا کرتے تھے انہوں نے بھی الگ الگ گھر بنانا شروع کر دیے اورگھروں کی چاردیواریاں بننے لگی اور وہاں پر نئے شہر کا منظر ابھرنے لگا۔
جہاں پر شہر ڈِنگ کھولے واقع تھا۔ اب وہاں صرف کھنڈر تھے۔حکومت نے آہستہ آہستہ وہاں سرکاری ملازمین کے کیے ہاسٹل بنانا شروع کر دیے جہاں اسی شہر کے لوگ ہی محنت مزدوری کے لیے جاتے اور اپنے شہر کو دیکھ کر آنسو بہاتے۔اسی طرح چالیس پچاس سال کا عرصہ گزر گیا۔جس میں نئی نسل جوان ہو چکی تھی۔
 بزرگ نوجوان نسل کو اپنے پرانے شہر کی باتیں سناتے ہیں ۔
نئی نسل نے تو صرف اس شہر کا نام ہی سنا ہے ۔آج جب وہ اپنے آبائی قبرستان جاتے تو سامنے شہر میں سرکاری شاندار ہاسٹل ہی نظر آتے تھے۔ جن کے نیچے ان کا اپنا شہر دفن ہو چکا تھا۔لوگ آج بھی دریا پر مچھلیاں پکرنے جاتے ہیں بزرگوں نے یہ کام اب نئی نسل کو سونپ دیا تھا۔
 ایک دن دریا کے کنارے مچھواروں کے درمیان بھی آہستہ آہستہ یہ خبر پھیل گئی کہ خانگاہ کی آبادی کو یہاں سے اٹھا دیا جائے گا۔
مچھواروں کے چہرے اس خبر کے تاثر سے عاری تھے اور وہ اپنے کام میں مشغول تھے۔
وقت کے تعاقب میں
فیاض صاحب کمرے میں آئے تو میں سامان کی پیکنگ کر رہا تھا۔انہوں نے سامان سمیت میری حالت کا اندازہ لگایا اور بولے ”سر میں نے آپ کے لیے ٹیکسی روک دی ہے ،سامان کافی زیادہ ہے میں آپ کو باہر تک چھوڑ آؤں گا۔
“ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا اور کچھ سامان ان کے حوالے کر دیا۔ ہم سیکنڈ فلور سے نیچے آنے لگے۔میں اس وقت گزشتہ چھ سالوں کی ورق گردانی کرتے ہوئے ہردیوار پر اس کی عبارت کو پڑھ رہا تھا۔ابھی میں فسٹ فلور پر تھا کہ مجھے یاد آیا،میں نیچے کمرے میں کچھ بھول آیا ہوں ۔شاید اوپر والی الماری میں جہاں میں نے کل ہی کچھ سامان رکھا تھا۔
میں وہیں ٹھہر گیا اورکہا دو منٹ ویٹ کریں میں کمرے میں کچھ بھول آیا ہوں لے کر آتا ہوں۔
میں سامان وہیں رکھ کر اوپر سیکنڈ رفلور کی طرف بڑھنے لگا۔میرا ذہن مسلسل ان چیزوں کی کھوج لگارہا تھالیکن یہ اطمینان تھا کہ وہ اپنی جگہ پر ہی ہوں گی۔
میں کمرے میں داخل ہوا اور اپنی الماری کے اوپر والے خانے کو اچھی طرح دیکھنے لگا لیکن وہاں تو کچھ نہیں تھا ۔میں سوچ میں پڑ گیا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ میں ابھی وہیں کھڑا تھا کہ مجھے یاد آگیاکہ استعمال کی کچھ چیزیں ،ٹوتھ برش ،شیونگ کریم ،صابن ،پرفیوم ،کریم ،کنگھی جو میں نے ایک شاپر میں یہاں الماری میں رکھی تھیں وہ بعد میں چھوٹے بیگ میں رکھ دیں تھیں۔
میں کمرے سے نکلا اور پھر نیچے فسٹ فلور کی طرف بڑھنے لگا۔
فیاض صاحب نیچے ہی کھڑے تھے۔ میں ان کے پاس گیا اور ان سے پھر معذرت کر کے سامان اٹھایا اورچل دیا۔فیاض صاحب بولے ہمارے چھ سال ماشااللہ اچھے گزرے ہیں ہم لوگ ملتے رہیں گے۔جی ضرور فیاض صاحب میں بھی آپ کے پاس آتا رہوں گا۔ اس ہاسٹل میں بہت اچھا وقت گزرا ہے۔اچانک مجھے یاد آیا میں نے بیڈ کے نیچے کچھ کاغذات رکھے تھے ۔
میں رک گیا اور بتایا کہ میں اپنے کچھ کاغذات بھول آیا ہوں اگر آپ اجازت دیں تو میں لے آؤں ۔میں نے سامان نیچے رکھتے ہوئے کہا، سر جب ہم بیڈ سے چادر اور تکیوں پر سے غلاف اتار رہے تھے تو آپ نے کاغذات اٹھا لیے تھے ،میں نے کہا مجھے یاد پڑتا ہے کہ آخری وقت تک وہ مجھے یاد تھے لیکن نکلتے وقت میں بھول گیا ہوں۔
فیاض صاحب نے بھی سامان رکھ دیا اور کہا آپ پلیز جائیں اور لے آئیں،میں فسٹ فلور سے پھر اوپر کی طرف بڑھنے لگا۔
اپنے کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر آ گیا۔ کمرے میں ویرانی تھی اور ہر چیز پر خاموشی چھائی ہوئی تھی۔میں بیڈ کا میٹرس اٹھا کر دیکھنے لگا اور دیکھ کر تذبذ کا شکار ہو گیا کہ یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ میں کھڑا ہو گیا اور سوچنے لگا یہ کیسے ہو سکتا ہے ۔
 اچانک خیال آیا کہ وہ فائل کہاں ہے جس میں وہ تمام تحریرں بند ہیں جومیرے قلم سے نکلتی رہیں جو چند دوستوں کے علاوہ کسی نے نہیں پڑھیں۔
وہ تحریں جومیں یونیورسٹی میں لکھتا رہا۔اسی سوچ میں ہی مجھے یاد آیا پھر وہی چھوٹا بیگ جس میں اپنی کچھ استعمال کی چیزیں اور کاغذات کے ساتھ وہ فائل بھی سنبھال کر رکھ دی تھی،میں اپنی نادانی پر مسکرایا اور کمرے کا دروازہ بند کر کے نیچے آنے لگا۔ فیاض صاحب وہیں کھڑے تھے۔ مجھے دیکھ کر مسکرائے اور بولے ”مل گئی چیزیں آپ کی۔“ یاداشت کمزور ہو گئی ہے۔
میں نے سامان کو اٹھاتے وقت اِس چھوٹے بیگ کو دیکھا جو فیاض صاحب نے اٹھا رکھا تھا۔ میں نے فیاض صاحب سے وہ بیگ لیا اور کھول کر دیکھنے لگا کہ چیزیں پوری ہیں یا نہیں؟
بیگ کو چیک کیا تو چیزیں پوری تھیں اور اپنی اپنی جگہ ترتیب میں تھیں۔میں نے پھربیگ کو واپس کر دیا۔فیاض صاحب مسکرائے۔
 میں نے باقی ماندہ سامان اٹھا لیا اور نیچے اترنے لگا ۔
فیاض صاحب بھی نیچے پہنچ چکے تھے ۔میں ابھی نیچے نہیں آیا تھا کہ مجھے محسوس ہوا وہ چھوٹا بیگ میں فسٹ فلور پر ہی بھول آیا ہوں۔ میں کھڑا ہو گیا اور دیکھا بیگ میرے ہاتھ میں نہیں ہے حالانکہ میں نے ابھی اس میں سے چیزیں نکال کر دیکھی تھیں۔میں نے سامان کو رکھ دیا اور فسٹ فلور پر آ گیا لیکن بیگ وہاں نہیں تھا ،سیڑھیوں کے سامنے والی دیوار میں شیشہ لگا ہوا تھا اور میں نیچے دیکھ سکتا تھا جہاں فیاض صاحب ٹیکسی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
میرے دوسرے سامان کے ساتھ وہ چھوٹا بیگ بھی ہے جس کو دیکھنے میں فسٹ فلور پر آ گیا تھا۔ مجھے یاد آیا کچھ ماہ میں نے اس فسٹ فلور کے ایک کمرے میں بھی گزارے تھے اور پھر مجھے اوپر کمرا مل گیا تھا۔ایک لمحے لے لیے گماں گزراکہ میں یہاں بھی تو نہیں کچھ بھول گیا تھا۔میں نے جب کمرہ شفٹ کیا تھا تو کچھ چیزیں شاید بیسمنٹ میں رکھوا دی تھیں لیکن سہی یاد نہیں آ رہا تھا ۔
میں نے اس بات پر دھیان نہ دیا اور نیچے آ گیا ۔ فیاض صاحب میرے قریب آ گئے اور کہا
”ٹیکسی والا انتظار کر رہا ہے۔ آپ کا سامان رکھوا دوں ؟،“جی فیاض صاحب آپ سامان رکھوائیں میں آفس والوں کو مل کے آتا ہوں۔میں آفس میں آ گیا ۔ ان کو بتایا کہ میں جا رہا ہوں ،کمرے کا لین دین پہلے ہو چکا تھا ۔انہوں نے رسمی جملے ادا کیے ،ہاتھ ملاتے ہوئے مجھے خیال آیا اُن چیزوں کا پوچھ لوں جو بیسمنٹ میں رکھوائی تھیں۔
میرے پوچھنے پر انہوں نے چیزوں کی لسٹ مانگی اور کہا ہم دیکھ کر ہی بتا سکتے ہیں۔میرے پاس تو لسٹ نہیں تھی میں نے ان کو بتایا کہ جب میں نے چیزیں رکھوائی تھیں انہوں نے ایک رجسٹر میں اس کا اندراج کیا تھا۔مجھے اس بارے میں ٹھیک سے یاد نہیں ہے۔
اس نے اپنی الماری کھولی اور رجسٹرکو دیکھنے لگا۔تھوڑی دیر جب وہ دیکھ چکا تو بولا بھائی ہمارے پاس ایسا کوئی رجسٹر نہیں ہے۔
میں نے تھوڑی دیر غور کیا اور سوچا کیا کروں؟
میں نے اسے کہا ”یار بات یہ ہے جب میں نے چیزیں جمع کروائی تھیں اس وقت آپ یہاں نہیں آئے تھے ۔یہاں ایک کک تھے مظہر نام کے ان کے پاس وہ رجسڑ تھا لیکن بعد میں جب میس بند ہو گیا تو وہ چلے گئے اس کے بعد وہ رجسٹر کہاں جا سکتا ہے؟
 اس نے سوچتے ہوئے کہا مظہر بھائی کا فون نمبر ہے میرے پاس، ان سے پوچھ لیتے ہیں؟ وہ فون کرنے لگا۔

 اتنے میں فیاض صاحب بھی آ گئے اور کہا ٹیکسی والا انتظار کر رہا ہے۔ میں نے کہا میرا کچھ سامان بیسمنٹ میں رہ گیا ہے ۔وہ لے لوں تو چلتے ہیں۔ اس رجسٹر کا تو مظہر کو بھی پتا نہیں ہے“ ۔وہ پرانے سامان کے ساتھ بیسمنٹ ہی میں ہو گا۔دیکھنا پڑے گا۔ اس نے کرسی پر ٹیک لگاتے ہوئے کہا“ میں نے کہا چلیں پھر؟
اس نے الماری کی طرف دیکھا اور کہا چلیں میں چابیاں اٹھا لوں۔
وہ الماروں میں رکھی مختلف چابیوں میں سے بیسمنٹ کی چابیوں کو ڈھونڈنے لگا۔میں آفس سے باہر، نیچے بیسمنٹ تک آیا دروازے پر تالا پڑا ہو ا تھا۔ اس نے آ کر تالا کھولا، جب اندر داخل ہوئے تو ہر چیز پر گرد پڑی ہوئی تھی اور چیزوں کی شناخت بھی مشکل سے ہو رہی تھی،میں اتنی ساری چیزوں کو اس حال میں دیکھ کر کانپ سا گیا اور پھر ان چیزوں سے آہستہ آہستہ گرد اٹھنے لگی۔

میں بیسمنٹ سے باہر آیا۔فیاض صاحب ٹیکسی کے ساتھ کھڑے تھے۔ میں ان کی طرف بڑھا، ان سے الوداعی کلمات کہے اور ٹیکسی میں بیٹھ گیا۔سارا سامان ٹیکسی کی پچھلی سیٹوں پر فیاض صاحب نے ترتیب سے رکھ دیا تھا۔اچانک مجھے یاد آیا میں کچھ بھول آیا ہوں ۔۔۔؟
آخر کیا بھول آیا ہوں۔
 میں نے بارہایاد کرنے کی کوشش کی لیکن وہ بات ایسی پھسلی کہ پھر ہاتھ نہ آئی۔
ٹیکسی کی سپیڈ آہستہ آہستہ تیز ہو گئی تھی ۔میں نے سائیڈ شیشے کی طرف دیکھا جہاں میرا عکس شیشے میں آہستہ آہستہ دھندلاہونے لگا اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے غائب ہو گیا ۔ میں زندگی کے نئے راستے پر چل پڑاتھا۔

Chapters / Baab of Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik