Last Episode - Khamoshi - Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik

آخری قسط ۔ خاموشی - طاقتور شکاری کا المیہ (افسانے) - طیب عزیز ناسک

آخری قسط
سادہ مزاج لوگ
 وہ کئی مہینوں سے یہ عمل مسلسل کیے جا رہا تھا۔
ٍٍٍٍٍٍٍملٹی نیشنل کمپنی کی کریم وہ اپنے چہرے پر لگاتے ہوئے بار بار شیشے میں اپنے گالوں پر پھیلتی سیائی کا جائزہ لے رہا تھا۔
آنکھوں کے نیچے سیاہ ہلکوں کو غور سے دیکھتااور اندازہ لگاتا کہ یہ آہستہ آہستہ پھیل رہے ہیں۔
اسے کبھی کبھی محسوس ہوتا اس کے چہرے کے یہ داغ اس کے سارے بدن پر پھیل جائیں گے اور اس کا چہرہ ان داغوں کی وجہ سے مسخ ہو جائے گا۔ اگلے ہی لمحے وہ اس بات کا فیصلہ اپنے ان دوستوں پر چھوڑ دیتا جو اس کے ساتھ فلیٹ میں رہ رہے تھے یا قریبی اکا دکا لوگ جن کے ساتھ اس کی بے تکلفی تھی۔اِس کے بالوں میں اب چاندی اترنے لگی تھی۔

(جاری ہے)

جسے وہ ہر ہفتے ہی کالے رنگ کی نظر کر دیتا۔

وہ اپنے کمرے سے ٹہلتا ہوا دوسرے کمرے میں آگیا۔اس کے ایک ہاتھ میں شیشہ تھا۔وہ اپنے چہرے کو ایک بار پھر مختلف زاویوں سے دیکھنے لگااور اپنے دوست سے مخاطب ہوا جو سامنے چارپائی پر بیٹھا کوئی کام کر رہا تھا۔زوہیب تمہیں پتا ہے میرے چہرے پر کافی عرصے سے یہ داغ ہیں ۔آپ دیکھ رہے ہیں۔اس نے اپنے چہرے کی داغ دار جگہ پر انگلی سے دائرہ بنایا۔
جی دیکھ رہا ہوں۔

کیا سمجھتے ہیں کہ یہ کل کے مقابلے میں آج کتنے کم ہیں؟
میرے خیال میں یہ کم ہو گئے ہیں لیکن آنکھوں کے نیچے والے نشان کچھ زیادہ واضح ہیں لیکن کل کی نسبت کم ہیں۔
ہاں جی میں نے اندازہ لگایا ہے ۔اس نے دوبارہ شیشہ اپنے چہرے کے سامنے کیا اور دیکھنے لگا۔آنکھوں کے نیچے حلقے بس کم ہی رہ گئے ہیں اور اب رنگت بھی بہتر ہو رہی ہے۔میرے خیال میں یہ کریم انہیں جلد ہی ختم کر دے گی۔
اس نے استفسار سے بتایا کہ آج مجھے ایک آفس کے بندے نے مس گائیڈ کیا ہے۔
کیوں کیا ہوا؟میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
ہمارے آفس میں ایک آدمی کام کرتا ہے۔آج صبح جب میں آفس گیا تو اس نے کہا کہ آج آپ کے چہرے پر داغ زیادہ لگ رہے ہیں اور رنگت کالی ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے میرا پورا دن ہی خراب گزرا۔آپ کیا کہتے ہیں۔اِس کی بات میں کتنی صداقت ہے؟
اُس آدمی نے آپ کو واقعی مس گائیڈ کیا ۔
آپ ایک دم فٹ لگ رہے ہیں ۔ اس وقت آپ کی رنگت تو ٹھیک ہی لگ رہی ہے دیکھنے سے کوئی خاص پتا نہیں چلتا۔
ہو سکتا ہے وہ ٹھیک کہ رہا ہو؟
اُس نے دوبارہ شیشہ میں اپنے چہرے پر نظر ڈالی اور کہنے لگا، صبح گرمی بھی زیادہ تھی۔جب میں آفس پہنچا تو پسینے سے بھیگا ہوا تھا۔گرمی کی وجہ سے ہو سکتا ہے اس نے بات کی ہو۔
 یہ داغ ٹھیک ہو جائیں گے آپ وہم نہ کیا کریں۔
ہو سکتا ہے اس نے شرارتاً ایسا کہا ہو؟
میں ان کی وجہ سے بہت پرشان ہوں۔اس نے ایک بار پھر شیشے کو اپنے چہرے کے سامنے کیا اور بولا”میں نے آپ کو بتایا تھا پچھلے دنوں میری شادی کی بات چل رہی تھی۔سب ٹھیک تھا۔ میں لڑکی والوں سے ملنے بھی گیا تھا لیکن کچھ دن بعد انہوں نے انکار کر دیا۔میں چاہتا ہوں کہ یہ کچھ داغ ختم ہو جائیں اور میں گزارے کی لسٹ میں آ جاؤں۔

 ایسا کیوں سوچتے ہیں؟ماشااللہ آپ صحت مند ہیں ان باتوں سے کیوں پریشان ہوتے رہتے ہیں۔
آج کل دنیا بڑی ظالم ہے آپ نہیں سمجھتے۔اُس نے دکھی ہوتے ہوئے کہا۔
میرے چہرے پر یہ داغ نہ ہوتے تو کب کا میری شادی والا معاملہ حل ہو گیا ہوتااور میں جیسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتا ہوں کب کی مجھے مل چکی ہوتی۔میں کب تک اس طرح دھکے کھاتا رہوں گا۔
آپ کیسی لڑکی سے شادی کرنا چاہتے ہیں؟
ایک اچھی سی شریف لڑکی ہو۔
میں چاہتا ہوں یہاں اسلام آباد سے ہی شادی کروں۔ لڑکی پڑھی لکھی ہو۔جس کی یہاں نوکری ہواور اپنا گھر ہو تاکہ فیوچر میں کوئی مسئلہ نہ بنے۔
 لڑکی کا یہاں اپنا گھر ہونا لازمی ہے؟میں نے اس بات کی وضاحت چاہی۔
نہیں لڑکی کی جاب ایسی ہو ،جس میں ہاؤس رینٹ مل جائے یہ بھی کافی ہے۔اس لیے کہ میں جونوکری کر رہا ہوں اس میں ہاؤس رینٹ نہیں ملتا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ شادی کے بعد بہت مشکل ہو گی ایسی لڑکی کا ملنا
 ضروری ہے جس کا اپنا گھر ہو یا کم ازکم ایسی نوکری تو ضرور ہونی چاہیے۔

آپ کیا کہتے ہیں ؟
میں کیا کہ سکتا ہوں ۔اِس بارے میں تو آپ ہی بہتر سوچ سکتے ہیں۔
تھوڑے تعاقف کے بعد وہ پھر گویا ہوا”میری تنخوہ بہت کم ہے ۔میں اتنے اخراجات کیسے برداشت کر سکوں گا۔ گھر والوں کو بھی پیسے بھیجنے ہوتے ہیں۔اِس لیے یہ سوچتا ہوں کہ اپنے آپ کو آنے والے وقت کے لیے تیار کر لوں۔اس نے ایک نظر خود کو شیشے میں دیکھا۔اگر یہ داغ ختم ہو جائیں تو پھر میں گزارے کی لسٹ میں آ جاؤں گااور کوئی ایسی لڑکی مل ہی جائے گی۔
ٹھیک ہے آپ اب کام لیجئے۔
بہت شکریہ بھائی کا۔
خاموشی
 میں بوجھل قدموں سے پہاڑ کی چوٹی کی طرف بڑھ رہا ہوں۔
”اگر اُسے ہماری پروا نہیں ہے تو ہم اس کی پروا کیوں کریں“۔
گزشتہ کئی سالوں کی باتیں گویا ایک فلم کی طرح میرے دماغ میں چل رہی ہیں ۔ زندگی میں سب کچھ وہی کِیا جس کا حکم دیا گیا۔
اُس کی بندگی کے سارے ڈھنگ بھی اپنائے لیکن کیا وجہ ہے کہ میری ایک بھی دعا قبول نہیں ہوئی ۔ ہاں تسلی کے بول اپنے گھر والوں اور دوستوں سے ضرور سنے ہیں۔”خدا کی رحمت سے مایوس نہیں ہوتے“ اور ”خدا کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے“۔
خود کو تسلی دینے کا یہ زریعہ اچھا ہے۔
میں نے کوئی سجدا قضا نہیں کیا۔
اس کے ساتھ کبھی کسی کو شریک نہیں کیا۔

پھر کیا وجہ ہے کہ یہ میری کسی بات کا جواب نہیں دیتااور نہ ہی میرے حالات کو درست کرتا ہے۔
عمر کا جو حصہ اِس کے ساتھ گزارا میں اِس سے بہت مایوس ہو چکا ہوں۔ میں اب اِس سے بری طرح تنگ آچکا ہوں۔
اس کی خاموشی کی وجہ سے آج میں اس کی امانت اسے لٹا رہا ہوں ۔ مجھے نہیں چاہیے۔
بندگی کے بوجھ سے آزاد۔
میں پہاڑکی چوٹی کے پاس ٹھہر گیا۔
پہاڑ کا دامن وسیع اوردور تک جنگل ہی جنگل تھا۔
اب تھوڑی ہی دیر بعد میں اپنے جسم کو ہوا میں اچھال دوں گا۔دور کہیں درختوں کی شاخوں، جنگلی جانوروں، اور کیڑے مکوڑوں میں میرے جسم کا رواں رواں تقسیم ہو جائے گا۔ روزِ آخرت میں اس سے ضرور پوچھوں گاکہ میرے ساتھ یہ سلوک کیوں روا رکھا گیا۔
میری بندگی میں کیا کمی رہ گئی تھی ۔
 اشرف المخلوقات خسارے میں ہی کیوں ہے؟
میں تیار تھا۔
پہاڑی سے پیچھے میں ماہر فاسٹ بالر کی طرح اندازہ لگا رہا تھا کہ کتنی رفتار سے بھاگ کر اپنے آپ کو ہوا میں اچھالناہے
 اورچھلانگ لگاتے وقت پہاڑ کے دہانے پر کتنا زور لگانا ہے۔

میں مکمل تیارتھا ۔
”ان لمحوں کو محسوس کرنے کے لیے جب میرا وجود اس دنیا سے کٹ کر کسی اور دنیا میں چلا جائے گا۔“
میں نے بھگنا شروع کیا حدف سامنے تھا۔
اُاُاُاُ۔پ۔پ۔پ۔پ
پاؤں کی طاقت نے مجھے پہاڑ کے دامن میں داخل کر دیا۔
میں ہوا میں تیرتے ہوئے جنگل میں گررہا ہوں۔
زمین بری طرح مجھے کھینچ رہی ہے۔
میرا وجود درخت کی شاخوں سے چِرتا ہوا نیچے آ رہا ہے ۔

 میرے اندر درد کا اُبال اٹھ رہا ہے۔میرا ایک بازو اوپر درخت کی شاخ سے ٹکرایااور کمر کی چمڑی کو نوکیلی شاخ نے ادھیڑ دیا۔میں جھاڑیوں میں پڑا بس کچھ ہی لمحوں میں مرنے والا ہوں۔اس درد کی غنودگی میں کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔
درد جان لیوا ہو گیا ہے۔
میری آنکھوں کے سا منے اندھیرا چھا رہا ہے۔
میں خدا کی چھوٹی تسلیوں سے تنگ چند سیکنڈ میں ہی رخصت ہوجاؤں گا۔

شاید اس میں بھی خدا کی کوئی مصلحت ہو؟
میں ابھی تک اس کی کسی مصلحت کو نہیں جان پایا۔
میرے دجود سے خون رِس رہا ہے اور میرے ہاتھ کی انگلیوں کو کوئی جانور جبڑے میں پھنسائے چبا رہا ہے۔
درد سے میری جان نکلنے والی ہے۔
میرے جسم سے نچڑے خون کی وجہ سے آہستہ آہستہ پرندے ،جانور اور حشرات نے میرے وجود کے گرد منڈلانہ شروع کر دیا ہے ۔میرے جسم سے گوشت کو کھینچا جا رہاہے اور درد نے میرے وجود کو ساکت کرنا شروع کر دیا تھا۔
خاموشی بڑھنے لگی ہے۔

Chapters / Baab of Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik