Episode 1 - Shikari Ka Almiya - Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik

قسط نمبر1 ۔ شکاری کا المیہ - طاقتور شکاری کا المیہ (افسانے) - طیب عزیز ناسک

کیا میں شکاری ہوں۔صرف شکاری ہوں یا طاقتور شکاری ہوں؟
یا اشرف شکاری ہوں۔
جیسے اشرف المخلوقات۔
 میں واقعی اشرف المخلوقات ہوں؟
یہ کیسے ہو سکتا ہے۔مجھے اس وقت یہ نہیں سوچنا چاہیے۔میں ایسا کیوں سوچ رہا ہوں؟
میں بیڈ سے اٹھا اور کمرے کے چکر لگانے لگا۔صبح اٹھا تھا تو کوئی عجیب سی بات میرے دماغ کا طواف کر رہی تھی ۔
پتا نہیں ابھی یاد کیوں نہیں آرہی ؟
میں نے بیگم سے شایدتذکرہ بھی کیا تھا۔
کمرے کا دروازہ کھلاہواتھا ۔
بیڈ کے سامنے نصب بڑی سی ٹی وی سکرین پر ڈسکوری چینل والے ایک ایسی بھینس کو بھاگتا دوڑتا دِکھا رہے تھے جو شیروں کے نرغے میں مکمل طورپرپھنس چکی تھی اوراب اپنے آخری حربے آزما رہی تھی۔کوشش کر رہی تھی کہ ان کے حصار سے نکل کر دور جنگل میں غائب ہو جائے۔

(جاری ہے)

شیر اس کے ہر حربے کو ناکام بنا رہے تھے اور آہستہ آہستہ اس پر چڑ دوڑنے کو تیار تھے ۔
 گروہ کی طاقتور شیرنیوں نے ناخن تیز کیے اور پہلے حملہ کیا ۔ اس کی پشت اور گردن پرپنجے گاڑ دیے اور اسے ایک طرف گرنے پر مجبور کر دیا ۔اب گروہ کے نر شیروں نے بھی اس کے جسم کے ہر ہر حصے پر اپنا قبضہ جمانا شروع کر دیا اور دیکھتے ہی دیکھتے خونی تماشا کھانے کی دعوت میں تبدیل ہو گیا۔

یہی وہ جنگل ہے جہاں پہلے بھینس موجود تھی اور اب نہیں!
شیروں کے کھانے کے بعد وہاں پرموجود دوسرے جانوروں اور گدھوں نے بھی اس کے جسم کے باقی ماندہ حصوں کو دیکھتے ہی دیکھتے صاف کر دیا۔
میں سوچتے سوچتے بستر پر بیٹھ گیا ۔
 ہمیشہ فتح طاقتور کی ہوتی ہے۔
کیا انسان بھی ایک طاقتور جانور ہے؟
 میں ایسا کیوں سوچ رہا ہوں۔مجھے ہرگز اس وقت یہ نہیں سوچنا چاہیے۔

میرے سامنے انڈہ،پراٹھے، چائے اور بالائی بیگم نے لا کر رکھی اور کہنے لگی ”ہر وقت کیا سوچتے رہتے ہیں۔میرے آنے کی بھی خبر نہیں ہوئی آپ کو ؟“
 وہ میرے سامنے بیٹھ گئی اورکہنے لگی ”ناشتہ کر لیں ، اتنا مت سوچا کریں ۔ڈاکٹر کے پاس جائیں،دواتبدیل کروائیں اور اپنی اس حالت کے بارے میں ڈاکٹر کو بتائیں۔رات بھر جاگتے رہتے ہیں ، سوتے ہیں تو عجیب عجیب خواب دیکھتے ہیں۔

 تم ٹھیک کہتی ہو۔مجھے دوبارہ ڈاکٹر سے مل لینا چاہیے ۔
میں ناشتہ کرنے میں مگن ہو گیااور بیگم کمرے سے باہر چلی گئی۔
مجھے دوبارہ خیال آیااورمیری یاداشت کے تانے بانے پھر سے اپنے مرکزی نکتے کی طرف بڑھنے لگے ۔میں نے صبح بیگم سے کیا بات کی تھی ؟کوئی بات ہوئی تھی یامیں نے اپنا کوئی خواب سنایا تھا۔پتا نہیں پر کچھ بتایا ضرور تھا۔
میں نے دوبارہ ناشتے کی طرف دھیان کیا۔

ایک پلیٹ میں انڈے کو دیکھ کر میرے ذہن میں خیال آیا کہ انڈہ مرغی کا ہے اور مرغی جاندار ہے۔انڈہ بھی ایک مکمل وجود ہے جو دنیا میں آنے سے پہلے ہی انسان کے ہاتھوں موت کا شکار ہو جاتاہے یعنی انسان بھی ایک شکاری ہے۔
طاقتور شکاری؟
یعنی اشرف شکاری۔
ہر کمزرو چیز کو اپنے قابو میں کرنے والا۔
انسان اپنی ضرورت کے لیے شکار کرتا ہے۔ہر چیز کاشکار۔
یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ ذی روح ہیں جیسے انسان۔یعنی پراٹھے گندم کے آٹے سے بنے ہیں اور گندم کے دانے دواصل بیج ہیں۔جن سے کئی نئے پودے جنم لے سکتے ہیں۔
بالائی بھینس کے دودھ کی ہے اور دودھ تو بھینس کے بچوں کے لیے ہوتا ہے ۔ ہم طاقت کے بل پر اسے حاصل کرتے ہیں اور استعمال کرتے ہیں۔
کیا یہ بھی طاقت کا نا جائز استعمال نہیں ہے؟
یہ میں کیا سوچ رہا ہوں ۔
مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔
کیا میں شکاری ہوں۔صرف شکاری ہوں یا طاقتور شکاری ہوں؟
میں نے ناشتہ کرنا چھوڑ دیا اور کمرے میں چکر لگانے لگا۔انسان سب سے بڑا شکاری ہے۔اس نے اپنی طاقت سے سب کو زیر کیا ہوا ہے۔
 ایک خوف ہے جو انسانوں نے غیر انسانوں پر طاری کر دیا ہے۔
بیگم کمرے میں آئی تو میں کمرے میں کئی چکر لگاچکا تھا۔ میں نے دوبارہ پوچھا”میں نے صبح تمہیں کچھ بتایا تھا؟“
ہاں بتایا تھا۔
بیگم نے مسکراتے ہوئے کہا۔
مجھے کچھ یاد نہیں رہا۔
آپ کی باتیں تھوڑی یاد رکھنے والی ہوتی ہیں۔ کوئی سن لے تو کانوں کو ہاتھ لگائے گا۔بھلا ایسی باتیں بھی کوئی سوچتا ہے۔
تم بتاؤ اس وقت کوئی نہیں سن رہا۔
ہمارے علاوہ یہاں ہے ہی کون جو سنے گا۔ آپ بھی حد کرتے ہیں قسم سے۔صبح والی بات بھی آپ نے پوری کہاں بتائی تھی۔ جب میں کچن میں تھی توآپ نے بتایا تھا کہ میں نے رات خواب میں دیکھا، ایک انسان سے طاقتور مخلوق پیدا ہو گئی ہے جو گوشت کھاتی ہے۔
وہ انسان سے زیادہ سوچنے اورسمجھنے کی صلاحیت رکھتی ہے پھر آپ کہہ رہے تھے کہ میں کچھ دوستوں کے ساتھ ایسی جگہ پر موجود تھا جہاں وہ مخلوق بھی موجود تھی۔ انہوں نے انسانوں کو کھانے کے لیے ایسے فارم بنا لیے تھے جہاں انسانوں کوذبح کیا جاتا تھا۔ وہ مخلوق انسانوں کا گوشت بڑے مزے سے کھاتی تھی۔جس طرح مرغی کے گوشت کی دوکانوں میں مرغیاں دڑبے میں بند ہوتی ہیں وہاں اسی طرح دڑبوں میں انسان بند تھے۔

اف ف ۔۔۔
آپ کو بھی کیسے کیسے خواب آتے ہیں۔ ایسی باتیں سن کرمیری تو روح تک کانپ گئی ہے۔بس آپ خدا کا نام لیں اور ڈاکٹر کے پاس جائیں ۔ میں چولہے پر چائے رکھ کر آئی تھی، دیکھوں بنی ہے یا نہیں۔
کیا سچ مچ ایسی مخلوق پیدا ہو سکتی ہے۔
میں نے دوبارہ سوچنا شروع کیا۔
کیا آج ہم نے جس طرح مرغیوں، بکروں اور مچھلیوں کے فارم بنا رکھے ہیں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ یہ جاندار ہیں ان میں بھی احساسات ہیں جذبات ہیں جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں لیکن اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے ان کو کھالیتے ہیں۔

میں دوبارہ رات والے خواب کے بارے میں سوچنے لگا۔
کیا ایسا ممکن ہے؟
ہاں عین ممکن ہے۔
یعنی کوئی انسان سے برتر مخلوق آ جائے جو انسان کو اپنی طاقت سے زِیر کر دے اور پھر وہی حال کرے جو آپ ہم غیر انسانوں سے کر رہے ہیں۔
یہ بھی ممکن ہے۔
بیگم کمرے میں چائے لے کر آئی اور کہا” چائے پی لیجئے اور بغیرکوئی سوال جواب کیے ، ڈاکٹر کے پاس جائیں ۔

میں نے کپ اٹھا لیا اور چائے پینے لگا۔
اچانک چائے میں دودھ کا خیال آتے ہی مجھے بھینس کی بے بسی پر ترس آنے لگا۔انسان کتنا ظالم ہے کہ جاندار کے بچوں کی غذا پر بھی اپنا تسلط جمایا ہوا ہے۔
میں نے چائے کا کپ رکھ دیا ۔
انسان بہت ظالم ہے۔
یہ میں کیا سوچ رہا ہوں۔مجھے اس وقت یہ نہیں سوچنا چاہیے۔
بیگم جو کافی دیر سے میری طرف دیکھ رہی تھی ، پوچھنے لگی چائے کیوں رکھ دی آپ نے؟
میں بیڈ سے اٹھ کھڑا ہوا اور کچھ کہنے لگاپھر نہ جانے بات میرے دماغ سے نکل گئی ۔

مجھے لگتا ہے ڈاکٹر کے پاس جانا چاہیے۔
ہاں یہی تو میں بھی کہہ رہی ہوں۔
میں نے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں خود کو ایک نظر دیکھا اور پھر گھر سے باہر نکل آیا اورکلینک کی طرف چل پڑا ۔
میں سوچ رہا تھا۔
طاقتور ہی باقی رہتا ہے۔
بلاسٹ
میراہر لمحہ ہوا میں تحلیل ہو ا اورجسم ذروں میں تقسیم ہونے لگا ۔

انسانی جسموں سے خون رسنے لگا۔کیفے ٹیریا کی آدھ سے ذیادہ بلڈنگ ملبے کا ٹھیربن چکی تھی۔
 زخمیوں کو ایمبولنس میں ڈال کر قریبی ہسپتال لے جایا جا رہا تھا۔پریس اور لائیو کوریج کرنے والے چینلز کی گاڑیاں وہاں پہنچ چکی تھیں ۔ لوگ ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ دو گھنٹے گزر چکے تھے ۔پولیس کی طرف سے حفاظتی اقدامات سخت کر دیے گئے تھے۔ہر منظر میں اجنبیت تھی۔
کیفے ٹیریا کا حلیہ یکسر بدل چکا تھا۔ یہاں کی ہر چیز ملبے میں دب گئی تھی۔ انسانی اعضاء اور ادھوری لاشوں سے رستے خون نے زمین کو بھی سرخ کر دیا تھا۔ایک کے بعدایک ہونے والے دھماکے نے سب حواس باختہ کر دیا تھا۔ یہاں لڑکے لڑکیوں کی چیخ وپکار سے ایک عجیب ماحول بن گیا تھا۔ادھر اُدھر سے بھی لوگ اکٹھے ہونا شروع ہو گئے جو یہاں پر لوگوں کی مدد کرنے میں مصروف تھے۔

میرے وجود کے ذروں کوہوا نے انسانی جسموں کے لتھڑے خون اور مانس میں شامل کر دیا تھا ۔میں قدم گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھنے لگا۔ میرادماغ چکرا رہا تھا اور منظر آنکھوں کی پتلیوں پر سوار ہو گئے تھے۔
ہم صبح کتنے خوش تھے۔ایک کے بعد ایک خیال میرے ذہن میں آتے چلے گئے۔
میں یونیورسٹی ہاسٹل میں تھا کہ میری منگیتر مریم کی کال آئی۔
ہیلو،عاصم
میں کیفے پہنچ چکی ہوں ۔
آپ کہاں ہیں؟
ہاسٹل سے نکل رہا ہوں۔
ابھی بائیک سٹارٹ کر ہی رہا تھا کہ موبائل پر میسج ٹون کی آواز آئی۔ نکال کر دیکھا تو مریم کا میسج تھا۔
”جلدی آئیں آپ ہمیشہ لیٹ ہو جاتے ہیں۔“
میں نے جوابی میسج بھیجا،موبائل اپنے بیگ کی دائیں جیب میں ڈالا اور بائیک پر بیٹھ گیا۔ میں نے کچھ گفٹ بھی مریم کے لیے لے لیے تھے ۔جیولری ،لال اور سفید پھول ا س لیے کہ منگنی کے بعد ہماری ملاقات نہیں ہوئی تھی۔
آج پہلی ملاقات تھی اور مریم کو یہ چیزیں میں پیش کرنے والا تھا۔ یونیورسٹی میں لڑکے اور لڑکیوں کے کمپس الگ الگ ہونے کی وجہ سے ہماری ملاقاتیں بھی کم ہوتیں ۔بائیک سٹارٹ کیا اور کیفے کی طرف چل پڑا۔ میں خوش تھااور سوچ رہا تھا کہ ہم یہاں سے ناشتہ کر کے باہر کہیں گھومنے بھی جائیں گے۔چند لمحوں بعد اچانک کیفے ٹیریا کی طرف ایک د ھماکہ ہوا ۔
آواز کی گھن گرج سے میں توازن کھو بیٹھا اوربائیک سے گر گیا ۔ہر طرف دھواں اور چیخ وپکار بلند ہونے لگا۔ایک لمحے کے لیے مجھے کچھ بھی سمجھ نہیں آ یا کہ آخر یہاں کیا ہوا ہے۔
سب گھر والے آ چکے تھے اور مریم کو ڈھونڈ رہے تھے۔
کیفے کے باہر لوگوں کی بھیڑ تھی اور عورتیں چیخ وپکار کر رہی تھیں۔ملبے میں دبے زخمیوں کو آہستہ آہستہ ملبے سے نکالا جا رہا تھا۔
پولیس اور ایمبولینسز کے سائرن میرے کان کے پردوں کو چیرتے ہوئے اُن زخمیوں کے کانوں میں پڑرہے تھے جو زندگی کی آخری سانسیں لے رہے تھے۔ہر طرف ایسی بھگدڑ مچی ہوئی تھی کہ کسی کو کوئی ہوش نہ تھا۔
زخمی لوگوں کی جیبوں سے ایڈیس نکالتے ہوئے کتنے ہی زخمیوں کے ان مدد کرنے والوں نے جیب خالی کر دیے گئے تھے۔یہاں کتنی ہی عورتوں کے ہاتھوں،کانوں اور گلے کو نوچ لیا گیا تھا۔

ایسے کئی منظر میری آنکھوں کے سامنے سے گزر رہے تھے ۔میں اس مرکزی جگہ پر پہنچ چکا تھا جہاں دھماکہ ہوا تھا۔وہاں پر سکیورٹی آفسر نے بتایا کہ یہاں سے زخمیوں کو شہر کے سرکاری ہسپتا ل لے جایا گیا ہے۔
میں قدم گھسیٹتے ہوئے آگے بڑھا۔ ادھر اُدھر دیکھنے لگا ۔میرا بیگ مجھ سے کھو گیا تھا ۔میں اپنے دماغ پر زور دے رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ مجھے اپنے والدصاحب کا فون نمبر یاد آ جائے،سیون ن ن ٹوووو فوررر۔
۔۔!!!ہاں سیون ٹو فور،ایٹ فور ایٹ فور،وہیں ساتھ ہی ریسکیو والوں سے میں نے موبائل لے کر والدصاحب کا نمبر ڈائل کیا ۔
ہاں! بابا جان پتا چلا مریم کا؟
بیٹا ہم سرکاری اسپتال میں ہیں۔اس کے بعد ایک اوراسپتال بھی ہے جہاں زخمیوں کو لے جایا گیا ہے۔ ہم وہاں بھی پتا کرتے ہیں۔تمہیں وہاں سے جیسے کوئی اطلاع ملے۔فورنا اطلاع کرو۔
ٹھیک ہے بابا جان۔

میرے دماغ میں ہزاروں وسوسے پھوٹ رہے تھے۔
اب لوگ آہستہ آہستہ یہاں سے نکل رہے تھے۔پولیس نے مکمل طور پر علاقے کو قبضے میں لے لیا تھا۔ملبے کو ہٹانے کا کام جاری تھا ۔یہاں سے زخمیوں کو نکال لیا گیا تھا۔یونیورسٹی کے لڑکے بہت سی امدادی ٹیموں کا حصہ بن کر لوگوں کی مدد کر رہے تھے۔اسی دوران کچھ لوگ سٹر یچر پر ایک زخمی عورت کو اٹھا کر سامنے سائر ن بجاتی ایمبولینس کی طرف دوڑ رہے تھے۔
میرے وہاں پہنچنے تک ایمبولینس جا چکی تھی۔
چند آدمی جو وہاں کھڑے تھے ، اسی عورت کے بارے میں بات کر رہے تھے جو ابھی ایمبولینس میں گئی تھی۔
ان میں سے ایک آدمی جو اس زخمی عورت کی باڑی کے ساتھ یہاں آیا تھا۔کانوں پر ہاتھ لگاتے ہوئے بولا”پتا نہیں کون تھی بے چاری۔ سارا چہرہ جھلس گیا تھا ۔اس کی ایک ٹانگ جسم سے غائب ہو گئی تھی۔کسی نے اس کے ہاتھ اور کان کاٹ دیے تھے۔اللہ غارت کرے اِن کمینوں کوشناخت کے قابل بھی نہیں چھوڑا۔
میرے جسم میں پسینے کی ایک ٹھنڈی لہر دوڑ گئی اور ایک بھیانک گمان میری ذہن کے پردے پر چلنے لگااور میں آگے کی طرف بڑھ گیا۔

Chapters / Baab of Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik