Episode 7 - Dulhan Ki Seej Tak - Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik

قسط نمبر7 ۔ دلہن کی سیج تک - طاقتور شکاری کا المیہ (افسانے) - طیب عزیز ناسک

 دلہن کی سیج سے لے کر اب تک کی زندگی میں نے اپنے شوہر کے ساتھ بہت اچھی گزاری ہے۔میرا ماننا ہے کہ ہر انسان کی زندگی میں کچھ ایسی حقیقتیں ہوتی ہیں جو وہ دوسروں کو نہیں بتاسکتا۔
 میرے پاس بھی ایک ایسی ہی حقیقت ہے جس کو میں اکثر یاد کرتی ہوں لیکن کسی کو بتا نہیں سکتی ۔میں اِسے کبھی بھلا نہیں پاؤں گی ۔وقت کے ساتھ ساتھ ایک عجیب سی الجھن بھی اس کے ساتھ جڑ گئی ہے جو مجھے گھیر لیتی ہے۔
میں اس سے جھٹکارا حاصل کرنا چاہتی ہوں ۔اس لیے اسے کہانی کی شکل دے رہی ہوں اور کوشش کر رہی ہوں ،اس الجھن سے چھٹکارا حاصل کر لوں۔
 کیا کہوں کہ یہ عمل مجھے اپنی سوسائٹی سے بچنے کے لیے کرنا ہی پڑا،ورنہ مجھے اس کی ضرورت نہیں تھی۔
 میں اُن لمحوں میں اترنے کی کوشش کرتی ہوں تاکہ میں اپنی اُن باتوں کو صاف انداز میں بیان کر سکوں جو میری الجھن کو کم کرنے میں میرے معاون اور مددگار ہونگی۔

(جاری ہے)


۔۔۔۔۔۔
میں اس وقت سہاگ کی سیج پر دلہن بنے بیٹھی ہوں۔
میرے دماغ میں ایک عجیب سادباؤ ہے جسے میں سمجھ سکتی ہوں کہ یہ کس وجہ سے ہے۔ اسی کو دور کرنے کی غرض سے میں اپنی توجہ کسی اور چیز پر مرکوز کرنا چاہتی ہوں ۔تاکہ میں اُس عمل کو بہتر طریقے سے انجام دے سکوں۔
میرا کمرہ بھی سجا ہوا ہے۔ جیسے عام مڈل کلاس گھرانوں میں ہوتا ہے۔

میرا شوہر ابھی ابھی کمرے میں داخل ہوا تھا۔اس نے میرا گھونگھٹ اٹھایا اور نہایت ادب سے سلام کیا ۔ابتدائی بات جیت کے بعد وہ دو نفل نماز پڑھنے کی غرض سے واش روم وضو کرنے گیا ہے ۔اب وہ کچھ دیر بعد ہی میرے پاس واپس آئے گا اور رواجِ زمانہ کے مطابق باتیں کرے گا۔
شاید ایسا ہی ہوتا ہے ۔
یہ رات عموما ایسی ہوتی ہے جو لڑکیاں گزارنے کا سپنا دیکھتی رہتی ہیں۔
شاید یہی رات ہی تو ان کے سپنوں کی تکمیل کی رات ہوتی ہے۔کنواری لڑکیاں نرم بستر میں جب اس رات کا سوچتی ہیں تو پسینے سے تربتر ہو جاتی ہیں لیکن میرے ساتھ ہرگز ایسا نہیں ہے۔میں جانتی ہوں کہ یہ رات میرے لیے بہت زیادہ تکلیف دے ہوگی۔ اس لئے کہ اس میں میری ورجینیٹی ختم ہوگی۔وہ خون جو ورجینیٹی ختم ہونے سے نکلے گا وہ سفید کپڑے پر ملا جائے گا اور پھر اس کو میرے کنوارے پن کی دلیل مانا جائے گا۔

اس کا سارا انتظام میں نے پہلے ہی کر رکھا ہے۔
اب جب کہ میں آپ کو یہ بات بتا رہی ہو ں تو اس کا بھی ایک مقصد ہے۔
دراصل ۔۔۔
میری ورجینیٹی ختم ہونے سے جو خون نکلے گا وہ اصل میں ورجینیٹی کا خون نہیں ہوگابلکہ وہ خون ہو گا جو مرد کو دیکھا کر مطمئن کیا جائے گا کہ” ہاں جو عورت تمہیں ملی ہے وہ کنواری ہے“۔اس سے شوہر بھی اطمینان حاصل کرے گا اور میر ی اور میرے گھر والوں کی عزت بھی رہ جائے گی۔

مجھے ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پڑی؟
آپ صرف اتنا سمجھ لیجئے کہ اگر میں ایسا نہ کرتی تو میں شادی نہیں کر سکتی تھی۔
میں مڈل کلاس گھرانے کی لڑکی ہو ں اور مجھے ماں باپ نے بڑی مشکل سے تعلیم دی ہے۔ ان کا خواب تھا کہ میں شادی کر لوں۔میں ہرگز ایسا نہیں کرنا چاہتی تھی اور نہ ہی مجھے کوئی شادی میں کوئی دلچسبی تھی۔اب جب کہ میں اپنے گھر والوں کے کہنے پر شادی کا فیصلہ کر چکی تو میں نے اپنی تمام خواہشات پسِ پشت ڈال دیں اور خود کو شادی کرنے کے لیے تیار کیا۔

سب سے پہلے جو مسئلہ مجھے درپیش تھا وہ یہ تھا کہ میں آزاد خیال لڑکی تھی ایک لمبا عرصہ اپنے گاؤں سے دور ایک بڑے شہر میں رہی اور وہ سب کچھ کیا جو میرے خواب تھے۔مجھے رائٹر بننا تھا اور اس کے لیے وہ سب کچھ میں نے کیا جو میری دسترس میں تھا۔
 نہ جانے کیو ں آج بھی میں اچھائی اور برائی میں فرق نہیں کرتی۔
میری اچھائی شاید آپ کے لئے برائی ہو اور میری برائی شاید آپ کے لئے اچھائی ہو۔

اُس وقت میں نے وہ سب کچھ کیا جو مجھے اچھا لگ رہا تھا یا جو میں کرنا چاہ رہی تھی۔میرے بہت سے بوائے فرینڈز تھے جن کے ساتھ ساری ساری رات داروپیتے اور شراب اور شباب ایک ہو جاتے۔ عموما یہ راتیں بہت طویل ہوتی تھی ہم دو دو دن مسلسل اسی عمل میں سے گزرتے تھے ۔ جب ڈگری کمپلیٹ ہوگئی تو میں باہر پرائیویٹ ہاسٹل میں رہنے لگی۔
یہ دور میری زندگی کا یادگار دورتھا ۔

اسی دور میں میرے بہت اچھے اچھے لوگوں کے ساتھ تعلقات استوار ہوئے۔میں جو افسانے لکھ رہی تھی ان کو اب پذیرائی بھی ملنے لگی تھی۔جس کی ایک وجہ خواتین افسانہ نگاروں کا کم ہونا اور دوسرا ہمارے ہاں عموما روایت سے ہٹ کر لکھنے کا تصور بہت ہی کم موجود ہے اور جو لکھتے بھی ہیں وہ بھی اتنا مضبوط فکشن نہیں ہوتا۔میں ان چیزوں کو سمجھنے لگی تھی اسی لئے میرے افسانے جلدی مقبول ہونے لگے۔
مختلف رسائل اور کتابو ں میں بھی شائع ہونے لگے۔
بس اس کے بعد کیا تھا میرے گھر والے میرے پیچھے پڑگئے کہ جلدی جلدی شادی کرو ۔لڑکیوں کو اتنی عمر تک کنوارا نہیں رہنا چاہیے۔
ان کو کیا پتا تھا کہ میں زندگی کے وہ سارے مزے لوٹ چکی ہوں جو کسی بھی لڑکی کی خواہش ہوسکتی ہے۔
عموما ہمارے طبقے کے لوگ مذہبی ہوتے ہیں۔میں مذہب کو برا بھلا نہیں کہتی لیکن میں اتنا ضرور کہتی ہوں کہ مذہب کا ایک دور تھا جواب گزر چکا ہے۔
اب اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
میں ٹھیک سوچ رہی تھی یا غلط ،میں اس کا اندازہ نہیں کرنا چاہتی لیکن اتنا ضرور جانتی تھی کہ میرا مذہب سے پالا ضرور پڑے گا۔اب جب کہ میرے گھر والے میری شادی کے پیچھے پڑے تھے ، میں جانتی تھی کہ مجھے ان کی خوشی کے لیے شادی کرنا ہی ہوگی۔یہ وہ ابتدائیہ تھا جو میری ٹینشن کا باعث بنا۔
میں ان دنوں بہت پریشان تھی۔

میرے گھر والوں نے میری منگنی کروا دی تھی اور ایک مہینے بعد شادی کی تاریخ بھی فکس ہونا تھی۔
اس وقت میرا شوہر واش روم سے نکل آیا ہے اور سامنے ٹیبل پر رکھے تو لیے سے اپنا ہاتھ منہ صاف کر رہا ہے۔اس کے سامنے الماری پر ہی جائے نماز رکھی ہے۔اب وہ نماز پڑھنا شروع کرے گا۔
 جی تو میں آپ کو بتا رہی تھی کہ میں اپنی منگنی کی وجہ سے کافی پریشان تھی۔

اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ میں نے شادی کے لیے رضامندی ظاہر کردی تھی۔
مجھے اس بات کی خبر تھی کہ میں کنواری نہیں ہوں۔ جہاں میری شادی فکس ہوئی ہے وہ مڈل کلاس مذہبی گھرانے کے لوگ ہیں۔ پہلی بات تو میرے ذہن میں یہ آئی کہ اپنے شوہر کو ساری بات سچ سچ بتا دو ں۔ ہوسکتا ہے اچھا آدمی ہو اور میری بات مان لے۔ایسا بھی ہو سکتا ہے وہ میری بات نہ مانے اور مجھے گھر بھیج دے ۔
اس سے خاندان بھر کی رسوائی ہوگی جو میں نہیں چاہتی تھی۔
اگر میرا شوہر میری بات مان بھی لے اور مجھے گھر نہ بھیجے تو پھر ساری عمر اس کے سامنے سر جھکانا پڑے گا۔
ان سب باتیں نے میرے دماغ کی دہی کردی تھی۔نہ ہی وسکی چڑھتی تھی اور نہ ہی ڈپریشن کی گولیوں سے کوئی فاقہ ہو رہا تھا۔میرا کیا حال تھا شاید میں یہ بیان کرنے سے قاصر ہوں۔
انہی دنوں میری ایک دوست جو میری راز د ا ر تھی۔
اُس نے ایک لڑکے کا تزکرہ کیا۔
 وہ لڑکا اس کا دوست تھا ۔ سرکاری ہسپتال میں میل نرس کا کام سرانجام دیتا تھا۔وہ یہ ہنر جانتا تھا کہ لڑکی کو کس طرح دوبارہ سے باکرہ کرنا ہے۔ وہ بھرپور طریقے سے کچھ لڑکیوں کا علاج کر بھی چکا تھا۔یہ عمل وہ ایک پرائیوٹ جگہ جو اس نے ایسے کاموں کے لیے مخصوص کر رکھی تھی وہیں انجام دیتا۔
میں جب اُس لڑکے سے ملی تو اس نے بتایا کہ مجھے بھی وہ دوبارہ سے باکرہ کر دے گا۔
اس نے مجھے یقین دلایا کہ وہ کامیاب اپریشن کر ے گا اور شادی کی رات خون ضرور آئے گا۔اس کے ساتھ ساتھ سوہاگ کی رات زیادہ خون نکلوانے کے حربے بھی بتائے۔جو اُس کے مطابق نہایت کارآمد تھے۔ شادی سے دس دن پہلے میرا آپریشن کر دیا گیااور میں دوبارہ سے باکرہ ہوگی۔اس عمل کے بعد میرے اندر کا خوف کم نہیں ہوا لیکن ایک بے نام سی تسلی کا احساس ضرور رہتا تھا۔

اگر آپ لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ میں غلط ہوں تو آپ ایسا سوچ سکتے ہیں۔
 میں تواب سہاگ کی سیج پر بیٹھی ہوں۔ اپنے شوہر کا انتظار کر رہی ہوں کہ وہ آئے اور میرے ساتھ وہ عمل شروع کرے ۔ اِس سے نکلنے والے خون کو سفید کپڑے پرمل لے تاکہ میرا منصوبہ مکمل ہو جائے اور میں آرام سے سو جاؤں۔
۔۔۔۔۔
آپ یقین مانے جب میری ورجینٹی ختم ہوئی اور خون متعلقہ کپڑے تک پہنچ گیا تو اس کے بعد بہت مزا آیا۔
دماغ جس تکلیف میں مبتلا تھا اب اُسے بھی سکون نصیب ہوا تھا۔
شادی کے بعد بھی کافی حد تک آزاد رہی جہاں تک رہنا چاہیے تھا۔
افسانے لکھتی ہوں۔کہانیاں بنا لیتی ہوں لیکن کچھ کہانیاں ایسی ہوتی ہیں جو دماغ پھنس جاتی ہیں اور کوئی نہ کوئی الجھن دامن گیر ہو جاتی ہے۔ میں نے بھی الجھن کو کم کرنے کے لیے اسے کہانی کی شکل دے دی ہے اور اب میں کافی راحت محسوس کر رہی ہوں۔

Chapters / Baab of Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik