Episode 10 - Sensor - Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik

قسط نمبر10۔ سنسر - طاقتور شکاری کا المیہ (افسانے) - طیب عزیز ناسک

سنسر
 بھائی اور بھابی اُسے گھر سے رخصت کرنے لگے تھے۔
شادی کے دن قریب آ رہے تھے ۔وہ اپنے کمرے میں بیڈ پر لیٹی ہوئی تھی ۔اُس کے سامنے والی کھڑکی کا پردہ ہٹا ہوا تھا۔ وہ مسلسل سامنے نظر آنے والے ادھورے گھروں کو دیکھ رہی تھی۔اس کی طبیعت میں عجیب سا اضطراب تھا جو اس کو چین نہیں لینے دیتا تھا۔

وہ بیڈ سے اٹھی اورکھڑکی کے قریب آگئی اور گلی میں دیکھنے لگی ۔
اچانک اسے وہ دن یاد آئے جب وہ نئے نئے اس مکان میں شفٹ ہوئے تھے ۔گرمیوں کی ایک دوپہر کو جب وہ کالج سے گھر آ رہی تھی تو اس نے گلی میں کنڈلی مارے ایک سانپ کو دیکھا۔اس وقت گلی میں کوئی نہیں تھا۔گرمی اور سانپ کے خوف سے اُسے پسینہ آگیا اور وہ گلی میں بھاگنے لگی ۔

(جاری ہے)

جیسے جیسے وہ ان سے بھاگتی اسے محسوس ہوتا گلی کے کونوں کھدروں میں بنی ہوئی اور بلوں سے بھی سانپ نکل کر اس کا پیچھا کر رہے ہیں۔

جب وہ گھر آتی تو پوری طرح اس خوف سے گھِری رہتی۔اُس رات اسے اور بھی خوف محسوس ہوا جس رات اس نے اپنی بھابی کے کمرے سے آنے والی ان مسحور آواز وں کوسنااور اُسی کیفیت میں بہتی چلی گئی۔ وہ اس عمل کو محسوس کرتی اوراسے محسوس ہوتا جیسے ایک سانپ اس کے بستر میں بھی شکار پر لپٹیں کھا رہا ہے۔
ایک دن جب وہ کالج سے گھر آ رہی تھی تو اس نے گلی کی ٹھنڈی جگہ پر اُسی سانپ کو کنڈلی مارے دیکھا جسکو پہلی مرتبہ دیکھنے سے اسے پسینہ آ گیا تھا۔

گلی میں بادستور کوئی نہیں تھا۔
اسے آج اس کی پھنکار سن کر عجب لطف آ رہا تھا۔اس کا دل چاہا کہ وہ اس کی آواز کو سنے اور اس کی خوبصورتی کو محسوس کرے۔وہ انہی سوچوں میں گم گھر پہنچی اور سوچنے لگی۔وہ جانتی تھی کہ وہ ایک سانپ کے بارے میں سوچ رہی ہے لیکن کیا مجال کے وہ اس کی سوچوں سے کبھی اترا ہو۔وہ اگلے دن کا انتطار کرتی اور ہر وقت اس کی پھنکار کو اپنے کانوں میں محسوس کرتی ۔
جو ان میں میٹھا رس گھولتے اور وہ اس سحر انگیز کیفیت میں اپنی منزلِمقصود تک پہنچ جاتی۔
ایک دن جب وہ گھر میں اکیلی کسی کام میں مصروف تھی تو اس نے محسوس کیا ، وہ سانپ اس کے گھر میں گھس آیا ہے۔ اس نے یہاں بل بنانی شروع کر دی ہے ۔اب وہ یہیں بل میں کنڈلی مارے پڑارہے گا۔ جب گھر میں کوئی نہ ہوتا تو وہ بل سے باہر آ جاتا ۔اسے پہلے پہل بہت خوف محسوس ہوا لیکن جلد ہی وہ خوف دور ہو گیا اور وہ سانپ کے ہونے کومحسوس کرتی اور اپنی اکتاہٹ کو دور کرتی۔

ایک دن جب وہ گھر میں اکیلی تھی ۔ اس کی ایک دوست جو اس کیساتھ کالج میں پڑھتی تھی ، اُس کے گھر آئی اور اُس نے سانپ کی موجودگی کو محسوس کیا اور ایک واقعے کا ذکر کیاجو چند دنوں پہلے ہی ہوا تھا۔
تم جانتی ہو نہ یمن کو۔جس کی کچھ دن پہلے شادی ہوئی تھی؟
ہاں جانتی ہوں ،کیا ہوا اسے؟
اس کے شوہر کو پہلی رات ہی میں پتا چل گیا تھا۔
ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟
یہ ہو گیا ہے۔
میں بھی پہلے یہی سوچتی تھی کہ اس بات کا پتا نہیں چل سکتا۔
تو پھر کیا کِیا اُس کے شوہر نے؟
اگلے ہی دن گھر بھیج دیا اور کیا کرنا تھا۔بہت بُرا ہوا اس کے ساتھ
ہاں واقعی یہ تو بہت افسوس ناک خبر ہے۔
میں آج کالج نہیں آئی تھی۔میری بھی شادی طے ہو گئی ہے۔
ہاں میں جانتی ہوں اور یہ بھی جان گئی ہوں کہ تم کیوں پریشان ہو۔
یہ غلطی تو میں بھی کر چکی ہوں ۔

مجھے بہت پریشانی ہو رہی ہے۔آج کل میں ہی میری شادی کی ڈیٹ بھی فکس ہو جائے گی ۔ کیا اِس غلطی کی سزا ایسے ہی ملتی ہے۔ جیسے ایمن کو ملی؟
وہ کھڑکی میں کھڑی نیچے گلی میں دیکھ رہی تھی۔
کل اس کی سہیلی نے اُسے کوئی جواب نہیں دیا۔وہ سامنے ادھورے نظر آنے والوں گھروں میں اُن بلوں میں پلتے سانپوں کو دیکھ رہی تھی۔اُن سانپوں میں سے ایک اُس کے گھرکی اندر بھی ایک بل میں گھسا ہوا ہے۔

یہ بات اسے مسلسل تکلیف میں مبتلا رکھتی اوروہ بار بار اپنے اس عمل پر خود کو کوستی۔وہ سانپ جو یہیں کہیں گھسا ہوا ہے۔ایک دن سب کے سامنے آ جائے گا اورمیری عزت خاک میں مل جائے گی۔دن رات کی یہ تکلیف اس کے سر پر سوار ہو گئی تھی ۔ایک لمحے کے لیے اس کو یہ بھی خیال آیا کہ شاید اس کی دوست نے بھی اسی لیے جواب نہیں دیا کہ یہ غلطی بڑی سنگین ہے۔
کیا کوئی آدمی یہ بات برداشت کر سکتا ہے۔۔۔؟
اس بات نے اس کے اندر ایک رخ کروٹ لی اور اس نے ایک فیصلہ کر لیا۔
”اگر میرے شوہر کو اس بات کا پتا چل گیا تو میں اس کی پاکیزگی کا بھی حساب لوں گی اور اگر وہ اپنی پاکیزگی کو ثابت کر پایا تو میں خود اس سے طلاق لے لوں گی“۔
لمحہ بھر پہلے
کالج سے واپس آنے کے بعدشام کو اکیڈمی میں یہ پانچ کلاسسز پڑھانا بے حد مشکل کام تھا ۔

 شام کا وقت تھا ۔
میں دوسری منزل پر کلاس روم میں چکر لگا رہا تھااور اپنی زندگی کی اُن حدود کے بارے میں سوچ رہا تھا جس نے میری زندگی کو بری طرح سے جکڑ رکھا تھا۔ایک عرصے سے ایک ہی طرح کا کام کرتے کرتے دل اکتا سا گیا تھا۔میں کرسی پر بیٹھ گیا اور کلاس کا جائزہ لینے لگا ۔بچے اپنے کام میں مشغول تھے اور اپنی کاپیوں میں آج کے پڑھے ہوئے سبق کی مشق حل کر رہے تھے۔

میں دائیں ہاتھ پر بنی کھڑکی سے باہرسامنے چوک کی طرف دیکھ رہا تھا۔ باہر اندھیرا آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا۔گاڑیوں ں کی ہیڈ لاٹس آن ہو گئی تھیں۔
اِسی دوران بائیں طرف سے آتی ہوئی تیز رفتار گاڑی ،بے قابو ہوتے ہوئے دوسری گاڑی سے برُی طرح ٹکرائی۔بریک اور گاڑی کے ٹکرانے کی آواز سے بچوں میں بھی حل چل پیدا ہو گئی اور وہ سارے کھڑکی سے باہر دیکھنے لگے۔

 میں کمرے سے باہر آ گیااور جلدی جلدی سیڑھیاں اترنے لگا۔”یہ سب لمحہ بھر میں ہوا۔“
میں دروازے سے باہر چوک کی طرف بڑھاجہاں پر ابھی ابھی گاڑیوں کی ٹکر ہوئی تھی ۔لوگ بھی آہستہ آہستہ جمع ہو رہے تھے ۔ٹکرائی ہوئی گاڑیوں کا برا حال تھا۔یہاں کے رہ گیروں نے زخمیوں لوگوں کو گاڑیوں سے نکال لیاتھا۔ایک لمحے میں کیا کا کیا ہو گیا۔لمحہ بھر پہلے سب کچھ ٹھیک تھا لیکن اب ایک ہلچل سی پیدا ہو گئی تھی۔

اسی دوران گاڑی کے پاس سے آتے ہوئے آدمی نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔
”ایک زخمی ہے اور ایک آزادہو گیا۔“
 ایمبولنس کا سائرن بج رہا تھا۔یہاں پر موجود لوگ زخمیوں کو اٹھانے لگے۔ٹریفک جام ہونے کی وجہ سے زخمیوں کو سٹریچر پر ڈال کر ایمبولینس تک لایاگیا۔چاروں طرف لوگوں اور گاڑیوں کا رش تھا۔کافی دیر سے یہاں ٹریفک رکی ہوئی تھی۔
میرے پاس کھڑے آدمی نے کہا” تم کیسا محسوس کر رہے ہو“؟
انسان اس حال میں کیسا محسوس کرتا ہے؟
” دکھ ہی محسوس کر سکتا ہے ۔
اتنا بڑا حادثہ ہے۔“
اس نے مخاطب ہوتے ہوئے کہا”میں محسوس کر رہا ہوں جیسے میں آزاد ہو گیا۔جیسے پنجرے سے پرندہ اُڑ کر کھلی فضا میں پرواز کرتا ہے۔
کیا مطلب؟
” زندگی میں اِس سے بڑا حادثہ کیا ہو گا ۔ایک وقت تھا جب انسان نہیں تھا۔ایک وقت میں انسان موجود او ر ا ب پھر نہیں ہے۔“
عجیب آدمی ہو ۔
”کبھی کہتے ہو آزاد ہو گیا ہوں ۔کبھی کہتے ہو انسان اب پھر موجود نہیں ہے۔

لگتا ہے حادثے نے تمہارے دماغ پر کافی اثر کیا ہے۔
”میں انہی میں سے ایک ہوں،تمہاری طرح“
ہم چوک سے چلتے چلتے اکیڈمی تک آ گئے تھے ۔ میرے دماغ میں اس کی بات مسلسل گردش کر رہی تھی ۔
وہ آدمی آگے کی طرف چلا گیااورمیں اس کی کہی ہوئی بات کو سوچتے ہوئے اکیڈمی کے باہر تک آ گیا۔
 میں اندر داخل ہوا ۔
کلاس کے چند بچے باہر کھڑے تھے۔ میں سیڑیوں سے دوسری منزل پر آ گیا ۔وہاں بھی بچے اور اکیڈمی کے انتظامیہ کے لوگ موجودتھے۔شاید کچھ یہاں بھی ہوا تھا۔
اتنے میں باہر سے ایمبولنس کے سائرن کی آواز آئی۔
تھوڑی ہی دیر میں دو بندے سٹریچر لے کر اوپر آئے۔میں کلاس میں داخل ہو ہی رہا تھا کہ وہ مجھ سے پہلے ہی اندرداخل ہو گئے اور کرسی پر پڑے بے جان جسم کو اٹھانے لگے۔

Chapters / Baab of Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik