Episode 9 - Sone Ki Chirya - Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik

قسط نمبر9 ۔ سونے کی چڑیا - طاقتور شکاری کا المیہ (افسانے) - طیب عزیز ناسک

سونے کی چڑیا
گاؤں کے مرکزی چوک میں رش تھا ۔
ایک نوعمر اپنا سر گھٹنوں میں دیے زور زور سے چِلا رہا تھا۔اس کے گلے میں سکول بیگ تھا۔سکول کے یونیفارم سے معلوم ہوتا تھا کہ اسی گاؤں کے سرکاری سکول کا بچہ ہے۔سڑک پر ٹریفک رک چکی تھی ۔گاڑیاں، رکشے،تانگے،اور پیدل چلنے والے سبھی اس نوعمر کی آہ وبکا سن کر اس کی طرف متوجہ ہو رہے تھے۔

یہاں لوگوں کی اچھی خاصی تعداد ایسے اکٹھی ہو گئی تھی جیسے مداری کا تماشہ دیکھ رہے ہوں۔ لوگ اس سے بات کرنے اور اس طرح زور زور سے رونے کی وجہ دریافت کر رہے تھے۔
وہ مسلسل گھٹنوں میں سر دیے رُورہا تھا۔
یہ عمل مسلسل گئی منٹوں سے جاری تھا۔لوگ رکتے اس کو کچھ لمحے روتا ہوا دیکھتے اور پھر آگے کی طرف بڑھ جاتے۔

(جاری ہے)


ایسے لوگ جو کافی دیر سے یہ ماجرا دیکھ رہے تھے۔

ان کے ردمیان چمگویاں ہونے لگی۔ایک آدمی جو کافی دیر سے یہاں رکا ہو اتھا اور اس نوعمر کو چپ کروانے کی کوشش کر رہا تھا،اس کا کہنا تھا کہ کچھ دیر پہلے ہی اس نے بتایا کہ صبح یہاں سے گزرتے ہوئے اچانک ایک تانگے والے کے گھوڑے نے بے قابو ہوتے ہوئے اس کے عضوتناسل کو چبا ڈالا۔وہ اِس ہونے والے درد کی وجہ سے رو رہا ہے۔
اس مرکزی چوک میں بہت سے سازوسامان بیچنے والے موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ لڑکا اچانک چلتے چلتے رکا اور پیٹ پرہاتھ رکھ کر بیٹھ گیا جب اس سے راہ گیروں نے رونے کی وجہ پوچھی تواس نے کسی کو جواب نہیں دیا۔
اگلے ہی لمحے گاؤں کے کچھ لوگ جو ابھی ابھی یہاں پہنچے تھے۔ انہوں نے بچے کی شناخت کر لی تھی اوراُس کے گھر والوں کو بھی بلوا لیا تھا۔
 ۔ ۔۔۔۔
 اُس نے اپنے ساتھ والی چارپائی پر کروٹیں بدلتے باپ کی آواز سنی۔

کمرے میں تاریکی تھی ۔
کھڑکی سے چاندنی رات کی مدہم روشی کمرے میں ہونے والی حرکات کا عکس کسی بلیک اینڈ وائٹ فلم کا منظر پیش کررہی تھی ۔وہ بے سدھ لیٹا ہوا تھا اور ہر ہونے والی آہٹ کو محسوس کر رہا تھا۔اُس کے ساتھ والی چارپائی میں اچانک آواز پیدا ہوئی۔ اُس نے محسوس کیا”ابھی کیا ہونے والا ہے“
وہ کچھ دیر تک اِن پیدا ہونے والی آوازوں سے معنی تلاش کرتا رہا۔
ایک عجیب سی لذت سے دوچار تھا ۔ وہ اپنی آنکھوں کو کھول کر باپ کی طرف دھیان کرتا ہے ۔جس نے اپنے مینار کو سیدھا کیا ہوتا ہے۔اس کے پہلو میں اس کی ماں لیٹی ہوتی ہے ۔ اُس کا باپ اب اچھی طرح سے رضائی لپیٹ لیتا ہے۔
وہ اس منظر سے کانپ جاتا ہے اور اسے شدید خوف محسوس ہوتا ہے۔تھوڑے وقفے کے بعد وہ پھر ساتھ والی چارپائی کی طرف دیکھتا ہے ۔رضائی میں ہلچل جاری ہوتی ہے ۔
اچانک اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے باپ نے رضائی منہ سے اٹھا کر اِردگرد دیکھا ہے ۔وہ سوچتا ہے کہ اگربا پ کو پتا چل گیا کہ وہ اسے دیکھ رہا ہے تواسے بہت مارے گا اور گالیاں دے گا۔
دوسرے ہی لمحے باپ کے مینار کے سائز کو سوچتا ہے اور اپنی ٹانگوں کے درمیان ہاتھ پھرنے لگتا ہے۔
 خوف سے وہ دوبارہ آنکھیں نہیں کھولتااور سوچتا ہے۔جب وہ بڑا ہو جائے گا تو پھراسے بھی عورت میسر آئے گی۔

اسی دوران چارپائی سے آوازیں آنے لگتی ہیں۔
وہ ان آوازوں سے کبھی خوف اور کبھی لذت کے ایسے مرحلے میں داخل ہو جاتا ہے جہاں وہ باپ کی جگہ خود کو محسوس کرنے لگتاہے ۔
جب رات گئے آوازیں ختم ہوئی توہر چیز پر سکوت چھا گیا۔ نیند اُس کی آنکھوں سے دور ہو گئی ۔ وہ خوف اور لذت میں مبتلا یہ سوچ رہا تھا کہ اسے اپنی امی کے پاس جا کر سو جانا چاہئے لیکن ایک انجانہ خوف تھا۔

 ”اگر اس کا باپ اٹھ گیا تو وہ اسے مارے گا اور کہے گا ،اپنی چارپائی پر جا کر کیوں نہیں سوتے۔
کچھ دیر بعد اس نے محسوس کیا اُس کا باپ سو گیا ہے۔
وہ آہستہ سے اپنی چارپائی سے اٹھا اور اپنی ماں کے سرہانے کھڑا ہو کر کہنے لگا۔”امی ڈر لگ رہا ہے“ اس نے ماں کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔
ماں نے کروٹ بدلی اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے پاس سُلا لیا اور کہا” آنکھیں بند کر لو بیٹاابھی بیند آ جائے گی“
 ۔
۔۔۔۔۔
جمعہ کے مبارک دن اس کے ختنے کی رسم ادا ہونی تھی۔
وہ اپنے بڑے بھائیوں اور سکول کے بہت سے دوستوں سے سن چکا تھا کہ اس رسم کی ادائیگی کس طرح ہوتی ہے۔۔۔!!!
اسے بہت خوف محسوس ہو رہا تھا۔وہ سوچتا شاید ان سب باتوں کا ذمہ دار اس کا باپ ہے۔ اس لیے کہ اس نے اپنے باپ کو خود کہتے سنا ” کہ اس کے ختنے کروانے ہیں ۔اب بڑا ہو رہا ہے۔“
اس کام کے لیے گاؤں کا نائی آئے گا اور اس کی قیمتی چیز کاٹ کر لے جائے گا۔
اس کے ایک دوست نے سکول میں اسے بتایاکہ گاؤں کا نائی اُسترے سے اس کی بوٹی کو کاٹ دے گا۔
وہ اس ہونے والی بے پناہ تکلیف کے بارے میں سوچ رہا تھااور اپنے باپ کو دل ہی دل میں قصور وار سمجھ رہا تھا۔جس نے اسے اتنی مشکل میں ڈال دیا تھا۔
جمعہ کے روز محلے کے چند آدمی ، بچے اور گاؤں کا نائی گھر کے باہر جمع تھے۔وہ اپنے باپ کے ساتھ تھا جو مسکرا کر اُس کی طرف دیکھتا اور کہتا بیٹا کچھ نہیں ہو گا ۔

وہ اپنے باپ کی گود میں ننگا بیٹھا تھا۔ گاؤں کا نائی اس کے ساتھ مزاق کر رہا تھااور اس کے ہاتھ میں کھانے کے لیے ٹافیاں بھی دے رہا تھا ۔اُس نے نائی کے ہاتھ سے ٹافیاں لے لیں لیکن اسے معلوم تھا جو اس کے ساتھ ہونے والا تھا۔
 اُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے کہ اچانک نائی نے دور انگلی سے اشارہ کیا۔وہ دیکھو ”سونے کی چڑیا“۔اُس نے انگلی کے تعاقب میں آنکھوں کو حرکت دی اور چڑیا کو دیکھنے ہی لگا کہ لوگوں اور نائی کا قہقہ بلند ہوا ۔
اتنی سی بات تھی اور جب اس نے نیچے نگاہ کی تو اس کی کل کائنات لُٹ چکی تھی ۔
اس نے زور زور سے چِلانا شروع کیا۔سب خوش ہو رہے تھے اور اسے پیار کر رہے تھے۔
سنگھارا مچھلی
اتوار کا دن تھا۔ صبح نہادھو کر ابھی بالوں میں کنگھی کر رہا تھا کہ میری بیوی نے چائے کے ساتھ سودے کی ایک لمبی لسٹ ہاتھ میں تھما دی۔
مرتا کیا نہ کرتاناشتہ کر نے کے بعد اپنی بی کے۸۰۰ نکالی اور اتوار بازار روانہ ہو گیا۔یہ موٹر بائیک میرے والد کی تھی اور اب ایک لمبے عرصے سے میرے پاس ہے۔جس کو میں پیار سے بی کے۸۰۰ کہتا ہوں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا نمبر یہی ہے۔یہ دیکھنے میں بہت قدیم دور کی لگتی ہے لیکن مجھے اس نے کبھی شکایت کا موقع نہیں دیا۔کئی دوستوں نے مجھے مشورہ دیا کہ اس کو اب کباڑ میں بیچ کر نئی لے لولیکن میں نے ایسا مشورہ دینے والوں کی کبھی پروا نہیں کی۔
اس لیے کہ نہ سمجھ کیا جانے مثلِ عجائبات کی قیمت۔
میں آئی نائن تھانے کے راستے اتوار بازار پہنچا۔گاڑیوں کا بے پنا رش تھا۔ جوان عمر کے لڑکے گاڑیوں کے درمیان سے رستہ بناتے ہوئے موٹر سائیکلوں سے مختلف کرتب کروا رہے تھے۔گھنٹہ آدھ صرف کر کے میں نے بھی موٹر بائیک نکالی اور اتوار بازار میں داخل ہو گیا۔
 بیوی کا پریم پتر نکالا اور اشیاء خریدنے لگا۔
اچانک میرے دماغ میں مچھلی تیرنے لگی۔ پہلے پہل تو میں نے اس کو اپنے دماغ سے جھٹکالیکن پہلی محبت کی طرح یہ میرے دل ودماغ پر حاوی ہو گئی۔ میرے اردگرد کافی مچھلیاں تیر رہی تھیں لیکن یہ تو اصلی مچھلی تھی۔میں اس خیال سے پیچھا چھوڑا رہا تھا لیکن یہ بار بار میرے ذہن میں آ دھمکتی۔ میرے دل میں مچھلی خریدنے کی شدید خوائش پیدا ہوئی۔ میں نے اپنے ذہن میں پیدا ہونے والے ایسے خیالات کو ایک نکتے پر مرکوز کیا اور پھر مجھے یاد آیا۔

اپنا گاؤں والدین ،بہن بھائی ،چچا اور ماموں کے بیٹے اور پھر گاؤں کے سارے نقش آہستہ آہستہ ایک نکتے پر جمع ہو نے لگے اور پھر مجھے یاد آیااتوار کا دن جب ہم گاؤں میں تھے۔ اتوار کا دن مخصوص ہوتا تھا جس دن ہم سب مل کر مچھلی کا شکارکرنے جایاکرتے ۔ ہمارے گاؤں سے دریا کا فاصلہ تقریبا دو کلو میٹر تھا۔اس دن ہم سب بہت خوش ہوتے صبح سویرے ہی شکار کی تیاریاں شروع ہو گئیں۔
ہم زیادہ تر کنڈی سے شکار کرتے تھے۔اس کے لیے کیڑے نکالتے ،الجھی ہوئی ڈوروں کو سیدھا کرتے،مچھلی کا نیٹ تیار کرتے،اضافی کنڈیاں ،کھانے پینے کا سامان سب صبح سویرے ہی تیار کر لیتے اور دریا پر آ جاتے تھے ۔ دریا پر سب سے پہلے جگہ کا معائنہ کیا جاتااور پر مقررہ جگہ پر خیمے لگا دیے جاتے اور پھرپورا دن وہی رہتے۔ کنڈیاں لگانے کے بعدسب وہیں مل کر ناشتہ کرتے اور پھر تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد کنڈیوں کو نکال کر کیڑوں کا جائزہ لیتے۔

اس دوران سب مل کر تاش کھیلتے تھے۔ کھیل کے دوران گھنگرو بجنے کی آواز سب کو چونکا دیتی۔اس لیے کہ اس آواز سے پتا چلتا تھا کہ مچھلی پھنس گئی ہے یا نہیں۔پانی میں تڑپتی ہوئی مچھلی اور گھنگرو کے بچنے کی آواز بے رحم حسینہ کے ناچنے سے کہیں زیادہ لطف دیتی تھی۔ ہمارے ہاں دریا پر سنگھارا مچھلی کثرت سے ہاتھ آتی اور پھر شام کو سب مل کر کھاتے،خوب گپیں ہوتیں۔

اچانک ان خیالات سے نکلا تو اتوار بازار کو عجیب نظروں سے دیکھنے لگا۔یہاں ہر کوئی جلدی میں تھا ۔ یہاں بھیڑ میں لوگ ایک دوسرے کو دھکیلتے ہوئے آگے کی طرف بڑھ رہے تھے اور میں سنگھارا مچھلی کے بنے ہوئے پکوڑوں کے احساس میں کھویا ہوا تھا ۔میرے ذہن میں ابھی تک سنگھارا مچھلی تیر رہی تھی۔میں نے جلدی جلدی دوسری چیزیں خریدیں اور مچھلی لینے کا ارادہ کیا۔
میرے اندر عجیب سی خوشی کی لہر دوڈ گئی اور میں اتوار بازار کے آخری پورشن میں داخل ہو گیا۔یہا ں مچھلی اور مرغی کی مہک نے ساری فضا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا۔میں سودا سلف ہاتھ میں اٹھائے مچھلی والے کے پاس آیا۔اُس نے نہایت ادب سے کہا جی سر کون سی مچھلی دوں؟میں نے کہا بھیا سنگھارا مچھلی کا کیا ریٹ ہے؟اُس نے کہا سر سنگھارا مچھلی تو نہیں ہے۔
میں اگلے دکان دار کے پاس آ گیا اور پوچھا سنگھارا مچھلی ہے؟ اس نے بھی نہیں میں جواب دیا۔میری طبیعت میں عجیب چھرچھری سی پیدا ہوئی اور پھر میں سب سے باری باری یہی پوچھتا رہا لیکن صد حیف کہ سنگھارا مچھلی نہ ملی۔
میری طبیعت میں یہ چھرچھری پہلی مرتبہ ُاس وقت پیدا ہوئی جب ایک روز ہم سب شکار پر گئے ہوئے تھے۔ ہم سب بہت خوش تھے۔ میاں چنوں سے ہمارے انکل بھی یہاں شکار کھیلنے آئے ہوئے تھے وہ شکار کا بہت شوق رکھتے ہیں ۔
ان کے ساتھ دریا پر شکار کھیلنے کا بہت مزہ آرہا تھالیکن پورا دن کوئی مچھلی ہمارے ہاتھ نہیں آئی تھی۔ شام کا وقت ہو گیا سب بہت تھک چکے تھے اور شکا ر نہ ملنے کی وجہ سے سب کے چہرے لٹکے ہوئے تھے۔ اُس وقت بھی میرے اندر ہی اندر ایک چھرچھری سی پیدا ہو رہی تھی۔
اب میں وہی چھرچھری اپنے اندر محسوس کر رہا تھا۔میرے دل دماغ میں سنگھارا مچھلی پھدکنے لگی۔
میرے اندر عجیب اضطراب پیدا ہونے لگا۔مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے میری رگوں میں سنگھارا مچھلی تیر رہی ہے۔ابھی میں بوجھل قدموں کے ساتھ اتوار بازار سے نکل ہی رہا تھا کہ ایک عورت جو کافی دیر سے مجھے دیکھ رہی تھی ۔میرے پاس آئی سلام کیا اور کہا آپ سنگھارا مچھلی لینا چاہتے ہیں ۔ میں نے اثبات میں سر ہلایا۔اس نے کہا آپ پنڈورا چنگی چلے جائیں وہاں سے مل جائے گی۔
میں نے اس کا شکریہ ادا کیا اور اتوار بازار سے باہر آگیا۔
میرے اندر بادستور سنگھارا مچھلی پھدک رہی تھی۔میں نے اپنے اندر ہمت پیدا کی اور اپنے ٹوٹے ہوئے دل کو پھر سے جوڑااور اپنی موٹر بائیک پر سوار ہوا اور پنڈورا چنگی کی طرف روانہ ہو گیا۔میرے ذہن میں ابھی پھدکتی ہوئی مچھلی،جوتے،کپڑے ،برتن اور لنڈے کے نقش تازہ تھے۔میں ابھی اتوار بازار اور آئی نائن کے درمیان میں ہی تھا کہ موٹر بائیک رک گئی۔
کافی دیر سٹارٹ کرنے کی ناکام کوشش کی ۔ نیچے اتر کے بائیک کا جائزہ لیا لیکن کچھ سمجھ نہ آئی۔پیدل چلنے والے کبھی میری طرف کبھی بائیک کی طرف دیکھ کر مسکراتے ۔اچانک پٹرول کا خیال آیا جائزہ لینے سے پتا چلا کہ جو ملک میں حالات چل رہے ہیں میرے ساتھ بھی آج وہی معاملہ پیش آگیا ہے۔ بائیک کو ایک سجدہ کروایا جو کافی کارآمد ثابت ہوا اور میں آئی نائن پٹرول پمپ تک پہنچ گیا۔
یہاں سے سو روپے کا پٹرول ڈلوایا جس سے ٹینکی کا سوکھا ہوا حلق کچھ تر ہو گیا۔میں پھر اللہ کا نام لے کر پنڈورا چنگی کی طرف روانہ ہو گیا۔
اسلام آباد سے پنڈی داخل ہوتے ہی محسوس ہوتا ہے کہ یورب اور ایشیامیں کیا فرق ہے۔میں پنڈورا چنگی کے سامنے والے روڑ پر جا رہا تھا۔ چیختے چنگھاڑتے رکشے دھویں کے بادل ہوا میں بلند کر رہے تھے۔ تھوڑا آگے پٹرول پمپ کے ساتھ مجھے مچھلی کی بڑی تعداد میں ریڑیاں دکھائی دیں ۔

 میں نے پہلے دل میں مچلتی ہوئی مچھلی کو تسلی دی اور پھر ریڑی والوں سے سنگھارا مچھلی کے بارے میں پوچھالیکن جواب ’نہیں ‘میں آیا۔اس کے بعد تسکینِ دل کے لیے باری باری سب مچھلی والوں سے دریافت کیا لیکن جواب ’نہیں ‘میں آیا۔ایک ریڑی والے نے کہا صاب کوئی اور مچھلی لے لیں سستی مل جائے گی۔ میں نے بڑے پیار سے اس کو سمجھایا کہ جناب مجھے سنگھارا مچھلی ہی درکار ہے ۔
آپ بیکارزحمت فرما رہے ہیں۔اس نے میرے مسمم ارادے کو بھانپتے ہوئے کہا جناب اگر سنگھارا مچھلی ہی لینی ہے تو بنی چوک چلے جائیں وہاں سے مل جائے گی۔
پہلے تو میں نے اتوار بازار میں ملنے والی عورت کو دل میں دعائیں دیں اور پھر اپنی منزل کی طرف کی طرف روانہ ہو گیا۔دل میں مختلف خدشات کا طلاتم تھااورسنگھارا مچھلی میرے وجود کی شریانوں میں دوڑ رہی تھی ۔
میں نے وہی سے بنی چوک جانے کا ارادہ کیا۔یہاں سے کچھ ٹائم لگااور پھر میں آہستہ آہستہ بنی چوک پہنچ گیا۔راستہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کافی دیر ہو چکی تھی۔ایک تو سردیوں میں ٹائم کا پتا ہی نہیں چلتا۔بنی چوک پہچا تو دیکھا مچھلی کافی تعداد میں نظر آرہی تھی لیکن سنگھارا مچھلی نظروں سے اوجھل تھی۔ میں نے پہلے دکان دار سے مصافہ کیا اور سنگھارا مچھلی کے بارے میں پوچھالیکن جواب یوں معلوم ہوا جیسے سنا سنا سا ہے۔

اس کے بعد سب دکان داروں سے تسلی کی لیکن ان سب کے جوابات اتوار بازار اور پنڈورا کے ریڑی والوں سے ملتے جلتے تھے۔لہجے میں تھوڑا فرق ضرور تھا لیکن جمع،تفریق سے جواب ایک ہی آ رہا تھا۔میرے اندر کی مچھلی نے میرا برا حال کر دیااور میری طبیعت عجیب چڑچڑی سی ہو گئی۔یہاں سے سیدھا گھر کی طرف لوٹنے کا ارادہ کیا اس خوف سے کہ اتوار بازار والی عورت یہاں بھی نہ آجائے۔

چند گھنٹے پنڈی کی فضا کا مزہ لینے کے بعد گھر واپس آ گیا۔میرے اندر تیرتی ہوئی مچھلی غائب ہو چکی تھی۔گھر آیا تو پتا چلا ابّاجی گاؤں سے آئے ہوئے ہیں۔بیگم کچن میں مچھلی تل رہی تھی۔اّبا جی کہ رہے تھے اس دفعہ شکار کافی ہاتھ آگیا۔ میں نے سوچا تمہارے لیے لے جاؤں پتا نہیں شہر میں تمہیں کھانے کو بھی کچھ ملتا ہے کہ نہیں۔

Chapters / Baab of Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik