Episode 3 - GumShuda Lamhoon Ka Khooji - Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik

قسط نمبر3۔گم لمحوں کا کھوجی - طاقتور شکاری کا المیہ (افسانے) - طیب عزیز ناسک

گم لمحوں کا کھوجی
جنوری کی ایک ٹھنڈی صبح جب میں بستر سے نکلا توگیارہ بج چکے تھے ۔کمبل کی حرارت آہستہ آہستہ ساتھ چھوڑ رہی تھی۔ میں اپنے بیڈ سے ٹانگیں نیچے کیے سامنے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں اپنا عکس دیکھ رہا تھا۔بال بکھرے ہوئے ،چہرے پر گزشتہ رات کی خماری۔میں نہانے چلا گیا اور جب واپس کمرے میں آیا توکنگھی کرتے ہوئے میرے ذہن میں خیال آیا، آج کیا تاریخ ہے؟
 آٹھ جنوری!
موبائل اٹھا کر میں دیکھنا چاہتا تھاکہ میرا خیال درست ہے یا نہیں،موبائل کہا ں ہے؟
میں نے خود سے سوال کیالیکن کوئی جواب نہ ملا۔

آخر کہا ں جا سکتا ہے؟
مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا تھا۔
میں نے اپنے بستر پر ادھر اُدھر دیکھا لیکن کہیں نظرنہ آیا۔

(جاری ہے)

میں موبائل کو تلاش کرتے کرتے واش روم تک جا پہنچا دیکھا تو شیشے کے سامنے پڑا تھا اور لائٹ جل رہی تھی۔خود کو ایک آدھ جملے میں کوس کر اپنے کمرے میں آ گیا ، موبائل پر پہلے ۷۹ مس کالز اور ۵۲ میسج آئے ہوئے تھے۔
ایک دم چکرا کر رہ گیا کہ یہ کیا؟
آج تاریخ نو تھی یعنی آٹھ نہیں تھی۔

میں نے موبائل کو دیکھا تو معلوم ہوا۔
یہ کیا آج آٹھ تاریخ ہونی چاہیے۔۔۔پھر نو کیسے!
میں گزشتہ سات تاریخ کی رات کو سویا تھاتو آج آٹھ ہونی چاہیے نو کیوں ہے؟
اسی مخمصے میں گرفتارکمرے میں چکر لگانے لگا۔
میرے ذہن میں ایک ہی بات گردش کر رہی تھی میں سات کو سویاتھا،موبائل نکال کر دیکھا تو آج نو تاریخ ہے یعنی اتوار کا دن!
 میں جمعے کی رات سویا تھا اس لحاظ سے آج ہفتے کا دن ہونا چاہیے۔

لیکن آج اتوار ہے۔
عجیب بات ہے۔
میرے ساتھ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔
میں بیڈ پر بیٹھ گیا اور سوچنے لگا آخر ہوا کیا ہے؟
 یہ میرا وہم نہ ہو؟ذہن میں کوئی نقش ایسا نہیں تھاجس سے اندازہ لگایا جا سکتالیکن ایک دن ۔۔۔!
ایک دن آخر کہاں گیا؟
میں نے موبائل پر میسج پڑھنے شروع کیے کچھ فارورڈ میسج تھے کچھ موبائل کمپنی والوں کے اور کچھ دوستوں کے۔
مجھے اب باقاعدہ پریشانی ہونا شروع ہو گئی۔
 اپنے موبائل سے جمعہ کے دن کی ڈائل کالز کی لسٹ نکالی تو پہلی کال،دانش خان، دوسری عمیر علی، تیسری آمنہ شاہ اورچوتھی شاہ فیصل کو کی گئی تھیں ۔اس کے علاوہ بہت سے نمبر تھے جو نام سے سیو نہیں تھے پر ڈائل کیے گئے تھے۔
میں سوچنے لگا ،یہ میں نے کب اور کیوں ڈائل کیے ہیں؟
خیر اس بات کا بھی کوئی جواب نہیں ملا۔

دماغ مسلسل سوچ رہا تھا۔
 اس مخمصے کا کوئی سرا میرے ہاتھ نہیں آ رہا تھا۔میں جانتا تھا کہ کوئی نہ کوئی بات ایسی ضرور ہوئی ہے جس سے مجھے کچھ یاد نہیں آ رہا۔
 میں نے اپنے دماغ کو ٹھنڈا کیا ۔
 اپنے کمرے سے لاؤنچ اور پھر کچن میں آ گیا، بوتل سے ایک کپ پانی لیاا اور کیتلی میں گرم ہونے کے لیے رکھ دیا۔ تھوڑا غور کیا ،کچن ،لاؤنچ ،کمرا، کتابوں والی الماری اور باقی ماندہ چیزیں باقاعدہ اپنی جگہ پر تھیں اور صاف تھیں کہیں کوئی گند نہیں تھا۔

 صفائی کب کی؟
میں نے کپ میں ایک چمچ دودھ،ایک چمچ چینی ڈالی اور کیتلی میں گرم ہوئے پانی میں چائے کی پتی ڈال دی۔پھر قہوہ کپ میں ڈال لیا اور چمچ سے ہلاتے ہوئے بھاپ اڑاتی ہوئی چائے کے ساتھ لاؤنچ میں آ گیا۔
 کپ ٹیبل پر رکھا ۔سامنے لگی ٹی وی سکرین پر نگاہ کی۔
 ایک معروف نیوز چینل پر نیوز کاسڑ خبریں پڑھ رہا تھا ، میں نے نیچے مونو گرام کے ساتھ تاریخ اور ٹائم پڑھنا شروع کیا۔

انیس جنوری ،اتوار کا دن تین بج کردو منٹ۔
آج نو ہے یا انیس؟
یہ کیا میں اٹھا اور اپنے بیڈ روم سے موبائل اٹھا کر لاؤنچ میں آ کر بیٹھ گیا اور دیکھنے لگا۔ میں نے ٹھنڈی سانس بھر ی اور خود سے کہنے لگا”آج نو نہیں، انیس ہے ۔“
میں نے دوبارہ موبائل کو دیکھا اور پریشان ہو گیا۔
ہاں آج انیس ہے اتوار کا دن ۔
 اس حساب سے میں نوتاریخ کو سویا اور سترہ کو اٹھا ۔

نہیں یار سترہ کو جمعہ کی رات سویا اور انیس کو اتوار کے دن اٹھا۔
اس حساب سے ایک دن کہیں غائب ہے۔
میں نے ٹیبل سے چائے اٹھائی اور ایک گھونٹ لیا۔چائے کی حرارت نے بدن کے سوئے ہوئے تمام حصوں کو جگا دیا اور میں موبائل دیکھنے لگ گیا۔یہاں تک کہ میں مسلسل کئی منٹ تک موبائل کو ہی دیکھتا رہا۔
یہ ساری کالز تو ہفتے کے دن یعنی آٹھ تاریخ کو آئی ہیں ۔

نہیں نہیں آٹھ نہیں آٹھارہ کو۔
 میری رسیوڈ اور ڈائل کالز میں آٹھارہ تاریخ کی کوئی کال نہیں ہے۔
# اس کا مطلب ،میری ہفتے کے دن آنکھ ہی نہیں کھلی میں سوتا رہا؟
پورا دن ہی سوتا رہا؟
 میں نے اپنی یاداشت کے تانے بانے جوڑے۔موبائل بھی صبح اٹھتے ہوئے سرہانے نہیں تھا بلکہ واش روم میں پڑا تھا۔شاید اس لیے کالز کی آواز بھی مجھے سنائی نہیں دی ۔

 موبائل واش روم میں کیسے جاسکتا ہے؟مجھے یاد پڑتا ہے میں نے وہاں نہیں چھوڑا تھا بلکہ بستر کے قریب ہی رکھا تھا۔
اب میں نے ترتیب سے سوچنا شروع کیا کہ اصل میں بات کیا ہے۔
 کمرے میں ادھر اُدھر ٹہلنا شروع کیا ۔
سگریٹ کی شدید طلب ہو رہی تھی۔میں حسب معمول بیڈ کے ساتھ والے ٹیبل کی طرف چل پڑا جہاں عموماََ سگریٹ اور ایش ٹرے رکھی ہوتی تھی۔
یہاں سے سگریٹ کا پیکٹ اٹھایا اور باہر لاؤنچ کی طرف آتے ہوئے سگریٹ سلگا لیااور سوفے پر بیٹھ گیا۔
جب سگریٹ کے برینڈپر غور کیا تو خود سے ہی پوچھنے لگا ”یہ میں نے کب لیے ،میں تویہ برینڈ نہیں لیتا ۔“تھوڑا اور سوچنے پر یاد آیا، شاید یہ سگریٹ جمعے کی شام لیے تھے اس لیے کہ عموماََ یہ برینڈمیں اس وقت لیتا ہوں جب اسے کتھی سے بھر کر پینا ہوتا ہے۔

رات میں کس کے ساتھ گاڑی میں تھا؟
مجھے یاد آ رہا ہے۔ اس آبادی سے نکل کر مین روڑ کی کیش اینڈ کیری سے میں نے کچھ لیا تھا جس میں یہ سگریٹ بھی شامل تھے لیکن تصویر واضح نہیں ہو رہی تھی۔
میں رات کو گاڑی میں کس کے ساتھ تھا؟
میں نے دوبارہ سوچا اور اپنے موبائل کو دیکھنے لگا۔
آمنہ شاہ؟
ہاں آمنہ شاہ کے ساتھ تھا۔
میں نے موبائل میں سے جمعے کے دن کی گئی کالز کی لسٹ نکالی۔
پہلی کال دانش خان کو، دوسری عمیر علی،تیسری آمنہ شاہ کو چوتھی شاہ فیصل کو کی گئی تھیں۔ اس کے علاوہ بہت سے نمبر تھے جو نام سے محفوظ نہیں تھے پر ڈائل کیے گئے تھے۔
وہ تو لاہور رہتی ہے۔اسلام آباد میں کیسے آ سکتی ہے؟
میں نے انگلیوں میں بجھتے ہوئے سگریٹ کو دیکھا اور گہرا کش لیتے ہوئے سوچ میں پڑ گیا۔
ہاں جمعہ کی شام کو جب میں گھر سے نکلا تو راستے میں آمنہ کی کال آئی۔
وہ لاہور سے اسلام آباد اپنے کسی رشتہ دار کی شادی میںآ ئی ہوئی تھی کہہ رہی تھی شادی سے فارغ ہونے کے بعد تھوڑی دیر میں آئے گی۔
میں نے میسج میں اسے ایڈریس بھی سینڈ کیا تھا ۔
 دماغ کی گرہیں آہستہ آہستہ کھل رہی تھیں ۔
مجھے یاد آیا ۔مین روڑ پر پل کے ساتھ ایک ڈیلر سے ۲۲گرام کتھی لے کر گھر کی طرف آ رہا تھاکہ اسی دوران آمنہ کا میسج آ گیا کہ میں پل پر آ گئی ہوں۔

ایک لمحے کو میرا دل پہلو سے نکل کر میرے آگے آگے دوڑنے لگا۔
جب میں پہنچا ،وہ پُل پر ہی موجود تھی۔
 ہیلو ہائے ہوئی اورہم گاڑی میں بیٹھ گئے ۔ تیز وسکی کی خوشبو آ رہی تھی۔وہ بہت خوش تھی ۔آمنہ ڈرائیو کر رہی تھی اسی اثنا میں ہم سٹور تک پہنچے اور ہم نے وہاں سے کچھ چیزیں لیں۔
میں سوچ میں پڑ گیا اور کمرے کے چکر کاٹنے لگا ۔
”ہم نے وہاں سے سگریٹ کے علاوہ کیا لیا تھا“؟
میرابٹوا کہاں ہے؟میں نے خود سے سوال کیا۔

 بٹوے کی تلاش شروع کی اور ادھر اُدھر دیکھنے لگا پھر یاد آیا جو کتھی جمعے کی شام کو لی تھی وہ کہاں ہے؟
کپڑوں میں ہو گی ۔میں نے خود سے مکالمہ شروع کیا۔
کپڑے کہاں ہونگے؟
 جمعے کے دن کون سے کپڑے پہنے تھے؟
آج اتوار ہے۔
میں لگاتار خود سے سوال کر رہا تھا۔
اسی دوران میں سوچتے سوچتے واش روم میںآ گیا اور پینٹ کی زپ کھول کر کموڈ کے سوراخ میں پیشاب سے آواز پیداکرنے لگا ۔

 اپنے پرانے کپڑوں کو ٹٹولنے لگا جو یہاں پربکھرے پڑے تھے۔پیشاب کی سرانڈ پورے واش روم میں پھیلی ہوئی تھی۔ سب کپڑوں کو باری باری چیک کیا اور دوبارہ کمرے میں آ گیا۔
میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے۔
میں نے بیڈ روم میں پڑے کپڑوں کو ٹٹولنا شروع کیا۔ایک ٹراؤزر سے بٹوا ،کتھی،کنڈم،سگریٹ اور مختلف پرچیاں نکلی جن کو لے کر لاؤنچ میں آ گیا۔
پہلی پرچی کو پڑھنا شروع کیا، جس میں کنڈم،چپس،سگریٹ،چوکلیٹ،کولڈ ڈرنکس،کا بل بنا تھا ،یہ مین روڑ کے کیش اینڈ کیری کا نہیں بلکہ شہر کے ایک مشہور سٹور کا بل تھا۔
میں سوچ رہا تھااور مسلسل سوچ رہا تھا۔
ہاں اس سے پہلے یہ ہوا تھا کہ ہم نے وہاں سے صرف چپس اور سگریٹ لیے،اس کے بعد پارکنگ میں وسکی کے دو دو پیک لگائے اور گاڑی میں بیٹھ کر ہی گپ شپ کرنے لگے۔
مدھم میوزک چل رہا تھا۔رات جب اپنے عروج پر تھی تو ہم نے کھانے کا پروگرام بنایا ۔
ہم پانچ پانچ پیک پی چکے تھے ۔
آمنہ گاڑی چلا رہی تھی ۔
آنکھوں میں خماری اتنی تھی کہ سامنے سے آتی ہوئی گاڑیوں کا صحیح اندازہ نہیں ہو رہا تھا۔ہائی وے سے اندر جب ہم ڈبل روڈ پر آئے تو میری ہنسی نکل گئی آمنہ رونگ وے پرگاڑی چلا رہی ہے ۔اس کے دوسرے ہاتھ میں بوتل تھی اور گھونٹ لے رہی تھی ۔

 آگے کیا ہوا؟
ہم وہاں سے آگے کہاں گئے تھے۔میں نے سوچنا شروع کیا ؟
یہ معاملہ توایک معمہ بن گیاجو حل ہونے میں ہی نہیں آ رہا تھا۔
ہاں اب یاد آرہا ہے۔
ہم نے وہاں سے چیزیں لیں تھی ،جن کی لسٹ سامنے پڑی تھی۔
اسی دوران میری نظر سامنے میز پر پڑے ہوئے بٹوے پر پڑی۔مجھے یاد آیا میں اپنے بٹوے کو تلاش کر رہا تھا جواب میرے سامنے ہی میز پر پڑا تھا۔

نہیں یار ،یہ چیزیں تو ٹراؤزر میں تھیں ۔میں بیڈ روم سے اٹھا کر لایا تھا۔
ہوں ہوں۔۔۔
میری سامنے ٹی وی سکرین پرنظر پڑی،جہاں ایک اینکر زہریلی شراب کے پینے سے کئی لوگوں کی ہلاکت پر رپورٹ پیش کر رہا تھا۔مجھے خیال آیا۔
ہم نے رات کون سا برینڈ پیا تھا؟
کون سا پیا ہو گاوسکی؟
 پر کون سے برینڈ کی؟
اسی دوران میری نظر دوبارہ بٹوے پر پڑی ۔
کھول کر دیکھا توایک اور پرچی اورکچھ پیسے نکلے۔یہ توکسی ہسپتال کی پرچی تھی جو میرے ہاتھ میں تھی ۔
ہم ہسپتال کیوں اور کب گئے؟
میں نے دوبارہ سگریٹ لگایا اور ٹانگوں کو سامنے والی ٹیبل پر پھیلا دیا۔
مجھے یاد آیا جب ہم کافی وسکی اور کتھی پی چکے تو واپس آ رہے تھے ،سامنے مین روڑ پر واقع پولیس چوکی کے باہر کانسٹیبل نے روک لیا تھا۔آمنہ نے نشے کی حالت میں انہیں روکنے پر خوب گالیاں دیں۔
بڑی مشکل سے ان سے جان چھڑوائی اور پھر ڈرائیونگ سیٹ میں نے خود سنبھال لی ۔
شٹ۔۔۔
آگے کیا ہوا تھا؟
کچھ یاد نہیں آ رہا۔
آخر میرے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے۔
میں دوبارہ لاؤنچ کے چکر کاٹنے لگا۔
ہم کہاں سے واپس آ رہے تھے؟
 آگے ہم کہا ں جا سکتے ہیں؟
 ایسا کیسے ہوسکتا ہے کہ انسان کو کچھ بھی یاد نہ رہے۔ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ہاں ایسا کیسے ہو سکتا ہے ہم تیز موسیقی پررقص نہ کریں۔

ہاں ں ں ں
مجھے یاد آیا۔ہم نے تیز میوزک پر ڈانس کیا تھا۔ ہاں ہم نے تیز میوزک پر ڈانس کیا تھا۔
 ہم ہائی وے سے گھر کی طرف آ رہے تھے اور سوچ رہے تھے کہ گھر چلتے ہیں ۔اسی دوران جام کا ایک اور دور چلا، میری طبیعت پہلے سے کئی گنا اور ہری بھری ہوگئی۔
 ہم نے سامنے ایک بند مارکیٹ کے پاس گاڑی روکی اور تیز میوزک پر ڈانس کرنے لگے ۔
ہر طرف اندھیرا تھا ۔

دوکانوں کے ناموں کے روشن بورڈ نظر آ رہے تھے لیکن کسی چیز کا صحیح اندازہ نہیں ہو پا رہا تھا۔گاڑی کی ہیڈ لائٹس کے سامنے ہم دونوں ناچ رہے تھے ۔تھوڑی ہی دیر میں کہیں سے چوکیدار آ گیا اور ہمیں برا بھلا کہنے لگا۔ ہم وہاں سے نکلے اور کہاں گئے؟
خیر جہاں بھی گئے ۔اب کہانی سمجھ آ گئی تھی ۔
میں نے جمعے کی رات آمنہ شاہ کے ساتھ گزاری۔ایک عرصے سے شاید ملاقات نہ ہونے کی وجہ سے ہم نے کھل کر موج مستی کی اور میرا ہفتے کا دن سونے میں گزر گیا۔
دوست فون اور میسج کرتے رہے لیکن فون بھی واش روم میں پڑا تھا جس کی وجہ سے ہفتے کے دن یعنی آٹھارہ تاریخ کو آنکھ نہ کھلی۔اس کی وجہ نشے کی خماری بھی تھی۔
 اب مجھے سب یاد آ گیا تھا ۔
میں نے فون اٹھایا اور آمنہ شاہ کا نمبر ڈائل کیا۔مجھے خیال آیا اس کا بھی حال احوال معلوم کر لینا چاہیے اور کہانی کے وہ حصے جو سمجھ نہیں آ رہے ان کی ترتیب بھی معلوم کر لینی چاہیے۔

جی آمنہ کیسی ہو ؟
ٹھیک ہوں علی، آپ سناؤ کیسے ہو؟
یار کیا بتاؤں کیسا ہوں۔ مشکل سے اپنی میموری ری کال کر پایا ہوں۔جانتی ہو میرا ہفتے کا پورا دن سونے میں گزر گیا۔اس لیے تمہیں کال بھی نہیں کر پایا اور نہ ہی تمہاری خیریت دریافت کی۔اس کے لیے بہت معذرت۔
میں سمجھی نہیں علی؟
میں یہ کہہ رہا ہوں ،تم لاہور خیریت سے تو پہنچ گئی تھی؟کافی دیر ہو گئی تھی اس لیے میں تمہیں بار بار رکنے کا کہہ رہا تھا۔

کس رات؟ علی ہماری ملاقات کب ہوئی؟
جمعے کی رات سترہ تاریخ کو؟آج انیس ہے اور اس لحاظ سے ہفتے کا پورا دن میں سوتا رہا ہوں۔
نہیں علی ہماری کوئی ملاقات نہیں ہوئی ۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے؟میں سوچنے لگا۔
جمعے کے دن میں لاہور میں تھی۔
ہیلو علی ،سن رہے ہو؟
جی سن رہا ہوں ۔۔۔اچھا میں تمہیں دوبارہ کال کرتا ہوں۔
ہیلو علی،بات سنو۔۔۔
میں نے فون بند کر دیا۔
 موبائل نکال کر لاؤنچ میں جمعے کے دن کی گئی کال لسٹوں کو دوبارہ سے دیکھنے لگا۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟
میں رات آمنہ کے ساتھ نہیں تو کس کے ساتھ تھا؟
میں نے خود سے سوال کیا
گہری خاموشی کے بادل دماغ کے اردگرد منڈلانے لگے۔

Chapters / Baab of Taqatwar Shikari Ka Almiya - Afsane By Tayyab Aziz Nasik