Last Episode - Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan

آخری قسط - زِیرک زَن - شکیل احمد چوہان

”تم نے بھی شادی سے پہلے ضرور فخر سے کہا ہو گا۔ میں مہینے میں ایک آدھ دن ہی تمھیں دے پاؤں گی۔“
”میں خواتین کی بہبود کے لیے کام کر رہی ہوں … Bussy ہوتی ہوں۔“ عزت نے خشک لہجے میں بتایا۔
”کتنے گھر ٹوٹنے سے بچائے ہیں اب تک … ؟“
”آپ یہ کہنا چاہتی ہیں لڑکیاں پٹتی رہیں، مار کھاتی رہیں، بس طلاق نہ لیں۔“ عزت نے دانت پیستے ہوئے کہا۔

”طلاق آخری حل ہے، پہلا نہیں … تم طلاق کی جگہ اخلاق سے بات کرو تو، کئی لڑکیوں کا گھر ٹوٹنے سے بچ جائے۔“
”جو درندے اپنی بیویوں کو مارتے ہیں۔ اُن سے اخلاق سے بات کروں…؟“ عزت بھڑک گئی تھی۔
”تم بھی فخر کی مار پیٹ کی وجہ سے ہی طلاق لینا چاہتی ہو، نا… ؟“ تہذیب نے سنجیدگی سے پوچھا۔ عزت کے پاس اس سوال کاکوئی جواب نہیں تھا۔

(جاری ہے)

وہ اِس سوال پر شرمسار ہوئی تھی۔

تہذیب نے یہ دیکھا تو وہ نرم شگفتہ لہجے میں کہنے لگی :
”میری جان ! معاشرہ ٹھیک کرنے سے پہلے، خود کو ٹھیک کرو… کسی کو وقت دینے سے پہلے خود کو وقت دو۔“ تہذیب کی بات کاٹتے ہوئے عزت نے پوچھا :
”آپ دیتی ہیں خود کو وقت … ؟“ تہذیب مسکراتے ہوئے بولی :
”ایسا ویسا… صبح پارک میں جاتی ہوں۔ درختوں، پرندوں سے باتیں کرتی ہوں۔ واپسی پر کچھ دوست مل جاتے ہیں۔
ناشتہ کرنے کے بعد اسٹڈی میں کچھ پڑھتی ہوں، کچھ لکھتی ہوں۔ میوزک سنتی ہوں۔ شام کو کبھی فلم اور کبھی تھیٹر دیکھنے چلی جاتی ہوں۔ محبت کرنے والا شوہر ایک پیاری سی بیٹی… ایک بیٹے کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ وہ داماد نے پوری کر دی۔ مہینے میں ایک دو بار شوہر آ جاتا ہے۔ ہر ہفتے فخر سے ملاقات ہو جاتی ہے اور کیا چاہیے زندگی سے… ؟“ یہ سب کچھ بتانے کے بعد تہذیب کے چہرے پر اطمینان ہی اطمینان تھا۔

”آپ اندر سے بھی اتنی ہی پر سکون ہیں، جتنی باہر سے نظر آتی ہیں۔“ عزت نے رشک سے پوچھا۔
”کوئی شک ہے تمھیں … “
”پتہ نہیں … “ عزت نے بے یقینی سے بتایا۔
”میں نے اپنی زندگی کے سارے فیصلے خود لیے … مجھے اپنے کسی فیصلے پر کوئی پچھتاوا نہیں … “ تہذیب نے یہ بتانے کے بعد جانچتی نظروں سے عزت کی طرف دیکھا پھر بولی :
”ایک بات پوچھوں …؟“
”پوچھیں ماما ! “
”میں نے اور تمھارے پاپا نے … کبھی تمھارے کسی فیصلے میں رکاوٹ ڈالی ہو …؟
چند لمحے سوچنے کے بعد عزت نے بتایا :
”یاد نہیں پڑتا مجھے ! “
”باپ، شوہر، بھائی، دوست، کسی بھی مرد سے تمھاری بنتی کیوں نہیں …؟“ عزت کافی دیر سوچتی رہی۔
اُس کی عقل نے اُسے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ بولی :
”پتہ نہیں ! “
”میں بتاؤں !“
”لمبا چوڑا لیکچر مت دیجیے گا۔“ عزت نے سنجیدگی سے کہا۔
”تم ہر مرد کو ہرانا چاہتی ہو … میرے مولا ! نے تمام جانداروں کو جوڑوں میں پیدا کیا … انسان کے علاوہ کوئی جاندار اپنے ساتھی سے مقابلہ نہیں کرتا… ہمارے یہاں مرد و زن نے آپس میں ہی مقابلہ شروع کر رکھا ہے۔
جو عورت کے خلاف ہے وہ در اصل ماں کے خلاف ہے اور ماں کا مخالف دنیا اور آخرت میں رسوائی ہی اُٹھاتا ہے۔ میرے خیال میں جو عورت سے مقابلہ کرنے لگے وہ مرد ہی نہیں …عورت کو بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے، میرے مولا ! نے پہلے آدم کو پیدا کیا پھر آدم کی پسلی سے حوا کو نکالا۔ عورت مرد کے جسم سے نکلی ہے، اس لیے اُس سے آگے کبھی نہیں نکل سکتی۔ نبوت کے لیے بھی میرے مولا! نے مرد کا ہی انتخاب کیا تھا۔
“ عزت کی نگاہیں تہذیب کے چہرے پر مرکوز تھیں، جہاں پر سکون ہی سکون تھا۔ عزت ہلکا سا مسکرائی۔ عزت کو مسکراتے ہوئے دیکھ کر تہذیب بھی کھل اُٹھی۔ دونوں نے چند لمحے ایک دوسری کو بڑی محبت سے دیکھا پھر عزت آگے بڑھ کے تہذیب کے گلے لگ گئی۔
”ماما ! UK میں بھی ڈائیوورس میں نے نہیں لی تھی۔ میں اب بھی نہیں لینا چاہتی۔“
”تو پھر تم فخر کی دوسری شادی کروا دو۔
“ تہذیب نے مشورہ دیا۔ عزت کا سر تہذیب کے کندھے پر تھا۔ وہ آنکھیں بند کرتے ہوئے بولی :
”چند باتوں سے میں ڈرتی ہوں ماما ! “
” وہ کون سی … ؟“ تہذیب نے فٹ سے پوچھا۔
مجھے ڈر ہے دوسری شادی کے بعد وہ مجھے چھوڑ دے گا۔ جس دن بھی اسے پتہ چلا کہ میں نے UK میں بھی شادی کی تھی اور میں اُسے اُولاد بھی نہیں دے سکتی۔ وہ اُسی دن مجھے طلاق دے، دے گا۔

”نہیں دوں گا…“ فخر کی آواز پر عزت چونکتے ہوئے کھڑی ہو گئی تھی۔
”تم کب آئے … ؟“ عزت نے بوکھلاہٹ میں پوچھا۔
”جب تم آنٹی کے گلے لگی تھی۔“ فخر کے بتانے پر عزت کا رنگ اُڑ گیا۔ یکایک پریشانی اُس کے چہرے پر اُمڈ آئی۔ اُس نے نظریں جھکا لیں۔ فخر نے اپنے ہاتھ سے عزت کی ٹھوڑی کو اوپر اُٹھایا اور محبت سے کہنے لگا :
”ساتھی سے راز نہیں چھپاتے … ہاں ساتھی کا راز ضرور چھپاتے ہیں … تمھارے دونوں راز ہماری شادی سے پہلے ہی مجھے بتا دیے گئے تھے۔
میں نے آج تک کسی کو نہیں بتائے۔“
”تمھیں کس نے بتایا تھا۔“ عزت نے فکر مندی سے پوچھا۔ تہذیب کی طرف دیکھ کر فخر مسکرا دیا۔ عزت نے پلٹ کر اپنی ماما کی طرف دیکھا۔ تہذیب کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ عزت نے سنجیدگی سے پوچھا :
”ماما! بتانا ضروری تھا کیا…؟“ تہذیب نے ممتا بھری نگاہ فخر پر ڈالتے ہوئے کہا :
”زِیرک زَن کی کوکھ سے ہی فخر جیسے جنم لیتے ہیں۔

”زِیرک زَن…؟ یہ کون ہے …؟“
”زِیرک زَن کا مطلب ہے ذہین، فطین، دانا عورت۔“ تہذیب نے بتایا۔ عزت کے ہونٹوں پر پھیکی سی مسکراہٹ اُبھری وہ افسردگی سے کہنے لگی :
”آج لگ رہا ہے میں تو Duffer ہی ہوں۔“
”Every woman has an insight“
تہذیب کے جملے کے بعد فخر فٹ سے بولا :
”ایک Duffer ہی پسندآئی تھی مجھے“
عزت نے مڑ کر فخر کے سینے پر محبت سے مکے مارتے ہوئے کہا :
”میرے Duffer پانچ سالوں سے سب کچھ جانتے ہو… ایک بار بھی مجھے طعنہ نہیں دیا۔

”محبت کرتا ہوں تم سے “ فخر کے منہ سے یہ سنتے ہی عزت اُس سے لپٹ گئی۔
”محبت ختم تو نہیں ہو گی نا …؟ “ عزت نے سر گوشی کے انداز میں فخر کے کان میں پوچھا۔
”جو ختم ہو جائے وہ محبت نہیں ہوتی۔“
”پھر تم دوسری شادی کر سکتے ہو … !“
عزت نے ایک قدم پیچھے ہٹتے ہوئے کہا۔
…ختم شد…

Chapters / Baab of Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan