Episode 15 - Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر15 - زِیرک زَن - شکیل احمد چوہان

ہم قدم
”تمھیں کتنی بار بتا چکی ہوں۔ میں بچہ پیدا نہیں کروں گی۔“ عزت نے فخر کے برابر کھڑے ہوتے ہوئے بتایا۔
”میں نے کبھی بچوں کی بات کی تمھارے ساتھ!“ فخر نے دھیمے لہجے میں پوچھا۔
”تمھاری امی تو کرتی ہیں نا…آج اُن کا فون آیا تھا… کہنے لگیں : ”فخر ہمارا اکلوتا بیٹا ہے۔
ہم چاہتے ہیں اُس کے ڈھیر سارے بچے ہوں۔ میں نے گاؤں میں ایک لڑکی دیکھی ہے۔ وہ ہمارے ہی پاس رہے گی۔ فخر کو دوسری شادی کی اجازت دے دو بیٹی “
”تو دے دو نا اجازت… ! “ فخر نے مذاق کے انداز میں کہا۔
”وہی Feudal Mindset شادی پہ شادی … ایک شادی سے تم مردوں کا پیٹ ہی نہیں بھرتا۔ جس مرد کے پاس چار پیسے آ جائیں تو وہ عیاشی کے لیے تین چار شادیاں کر لیتا ہے۔

(جاری ہے)

“ عزت نے کھنکتی آواز میں کہا۔
فخر نے بڑی اپنائیت سے عزت کے شانے پر ہاتھ رکھا پھر ہولے سے کہنے لگا :
”جاگیر دار تو تمھارے پاپا ہیں… میں تو کاشت کار کا بیٹا ہوں … میری سات پشتوں میں کسی مرد نے دوسری شادی نہیں کی… ہم عیاشی کے لیے نہیں… گھر بسانے کے لیے شادی کرتے ہیں۔“ فخر کی بات سنتے ہی عزت کا چہرہ مزید لال ہو گیا، وہ جلالی انداز میں بولی :
”تم مجھے طعنے دو گے اب … تم سے شادی کرنا میری زندگی کی سب سے بڑی بھول تھی۔
“ عزت دروازے کو زور سے مارتے ہوئے بیڈروم سے چلی گئی۔
گاڑی کی آواز پر فخر نے بیڈروم کی کھڑکی کا پردہ پیچھے کرتے ہوئے دیکھا۔ عزت کی گاڑی بیرونی گیٹ سے باہر نکل رہی تھی۔ فخر نے موبائل اُٹھایا اور ایک نمبر ملا دیا۔
تہذیب کے موبائل پر گھنٹی بجنے لگی۔ تہذیب نے کتاب سے نظریں ہٹا کر موبائل اُٹھایا۔
”جی فخر بیٹا… “ تہذیب نے محبت سے کہا۔

”آنٹی وہ آپ کی طرف آ رہی ہے۔“ فخر نے بتایا۔
”آج کس بات پر جھگڑا ہوا ہے…؟“ تہذیب نے پوچھا۔
”اکثر تو وہ بغیر بات کے ہی جھگڑ لیتی ہے۔ آج گاؤں سے امی کا فون آیا تھا…“
فخر کے بتانے سے پہلے ہی تہذیب نے بول دیا :
”امی نے کہا ہو گا…تم دوسری شادی کر لو۔“ فخر لمبی سانس بھرتے ہوئے بولا :
”جی … “
”Don't Worry“ میں سمجھاؤں گی اُسے… “
”وہ سمجھتی ہی تو نہیں … اُلٹا سمجھانے لگتی ہے… اب مجھے بھی لگنے لگا ہے۔
عزت سے شادی کر کے شاید میں نے غلطی کی ہے۔ اُس وقت میں نے صرف اپنے بارے میں سوچا تھا۔ اپنے والدین کے بارے میں نہیں۔“
”پریشان لگ رہے ہو…“ تہذیب نے بات کا رُخ بدلا۔
”جی آنٹی … آج کل بہت پریشان ہوں۔“
تہذیب نے فخر کی بات کاٹتے ہوئے یک لخت پوچھا :
”کیا ہوا بیٹا…؟ خیریت تو ہے۔“
”ہونا کیا ہے آنٹی ! گاؤں کے چوہدریوں کی غلامی سے جان چھڑانے کے لیے CSSکیا … فورس جوائن کرتے ہوئے سوچا تھا… کسی غریب کو انصاف دلواؤں گا… مگر یہ سسٹم تو میرے ساتھ ہی نا انصافی کر رہا ہے۔

”اب کس سے پنگا لے لیا تم نے … ؟“ تہذیب نے فخر کے ذہنی دباؤ کوبھانپتے ہوئے ہلکے پھلکے انداز میں پوچھا۔
”SHO کی غلطی پر بھی جج صاحب سرزنش میری کر دیتے ہیں… مجھے سب سے زیادہ دکھ اُس وقت ہوتا ہے جب ایک اَن پڑھ، جاہل، سیاست دان، میری یا میرے ساتھیوں کی بے عزتی کر دیتا ہے… ہم اس ملک کے قابل ترین لوگ ہیں، ہم ایسا سلوک تو Deserve نہیں کرتے۔
“ فخر کے خاموش ہوتے ہی تہذیب بولی :
”تم مجھے اُس جج کا نام بتاؤ … میں مزاری صاحب سے ابھی بات کرتی ہوں۔“
”نہیں آنٹی جی ! آپ کو پتہ ہے مجھے یہ سب پسند نہیں ہے۔ میں اپنی محنت سے یہاں تک پہنچا ہوں۔“
”تم میری طرف آ جاؤ… ڈنر اکٹھے کرتے ہیں۔“
”میں آؤں گا تو عزت کہے گی … آگئے ہو میری شکایتیں لگانے۔ Sorry آنٹی میں نہیں آ سکتا۔“
”ٹھیک ہے… تو پھر میں ہی تمھاری طرف آ جاتی ہوں۔

تہذیب کے یہ کہنے پر فخر تھکے لہجے میں بولا :
”آپ بھی نا آنٹی… فریش ہو کر آتا ہوں۔“ فخر نے فون بند کر دیا۔
تہذیب نے اپنے خانسامہ کو اسٹڈی میں بلا کر چند ہدایات دیں۔ اُس کے بعد کچھ سوچتے ہوئے سگریٹ لگا لیا۔ سگریٹ کے ختم ہونے سے پہلے ہی عزت بھی آ ٹپکی اور آتے ہی اپنا فیصلہ سنا دیا :
”میں فخر سے ڈائیوورس لینے لگی ہوں۔“
”تم بانجھ ہو اس لیے … یا پھر کوئی تیسرا مل گیا ہے …؟“ تہذیب نے سگریٹ کو ایش ٹرے میں مسلتے ہوئے کہا۔

عزت نے تہذیب پر شکوے سے بھر پور نگاہ ڈالی۔ تہذیب معزز لہجے میں بولی :
”بیٹھ جاؤ…“ عزت بیٹھ گئی۔
”چاہتی کیا ہو زندگی سے…؟“ تہذیب کے سوال پر عزت آنکھیں مٹکاتے ہوئے سوچنے لگی۔ عقل سے جواب ملنے کے بعد عزت فٹ سے بولی :
”آزادی…؟“
”کس سے …؟“ تہذیب نے یکایک پوچھا۔ عزت ایک بار پھر سوچنے پر مجبور ہو گئی۔
”جو سوچ میں ڈال دے نا تو وہ ضرورت ہوتی ہے… اور نا ہی خواہش…“ تہذیب کی بات کا جواب دینے کی بجائے، عزت نے بات کا رُخ ہی بدل دیا :
”فخر کی ماں اُسے کہتی ہے … دوسری شادی کر لو…“
”اُس نے کر لی کیا … ؟“ تہذیب نے پوچھا۔

”فخر کی ماں کو ڈھیر سارے بچے چاہئیں۔ “ عزت نے تلخی سے بتایا۔
”اُسے بتا دو کہ تم بانجھ ہو…“ تہذیب نے مشورہ دیا۔
”وہ مجھے چھوڑ دے گا۔“
”نہیں چھوڑے گا…چاہے تم اُسے دوسری شادی کی اجازت دو یا نہ دو…“
” وہ مجھے خوش نہیں رکھتا۔‘
” تم خوش رہنا ہی نہیں چاہتی۔“
”آپ میری ماما ہیں یا اُس کی …؟“
”اِس وقت میں ماں کے ساتھ ساتھ ایک منصف بھی ہوں … عزت فخر اب بھی سمجھ جاؤ۔

”کیا سمجھانا چاہتی ہیں مجھے … ؟“
”اُسے اپنی زندگی کے دونوں راز بتا دو…“
”راز بتا دوں…؟ تاکہ وہ بات بات پر مجھے ذلیل کرتا رہے“ عزت نے چڑتے ہوئے کہا۔
”ذلیل تو تم اُسے کر رہی ہو … “ تہذیب اپنی ایزی چیئر سے اُٹھ کر عزت کے روبرو لیدر کے کالے صوفے پر آ بیٹھی۔
”تم نے مجھ سے کئی بار پوچھا کہ میں نے تمھارے پاپا شاہ عالم مزاری سے شادی کیوں کی … ؟“
”کیوں کی …؟“ عزت نے بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔

”وہی تو بتانے لگی ہوں … میں الحمرا میں تھیٹر کر رہی تھی … مزاری صاحب نے مجھے دیکھا اور دیکھتے ہی رہ گئے۔ پلے کے اختتام پر ہماری ملاقات ہوئی۔ مزاری صاحب نے کہا :
”میں شادی شدہ ہوں، اس کے باوجود آپ سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔“ مجھے اُن کا اِس طرح پرپوز کرنا ایک مذاق لگا… میں نے بھی مذاق میں بول دیا حق مہر میں کیا دیں گے …؟ میں یہ بول کر وہاں سے آ گئی… اگلے دن شام کے وقت ہمارے گھر مزاری صاحب کا منشی ایک خط اور تین فائلیں چھوڑ گیا… یہ گھر اور گلبرگ کے دو پلازے مزاری صاحب نے میرے نام کر دیے تھے … خط میں لکھا تھا :
”یہ حق مہر نہیں ہے۔
“ پہلی ہی ملاقات میں مجھے بھی مزاری صاحب بہت اچھے لگے تھے… اماں کو ساری بات بتائی تو وہ مجھے سمجھانے لگیں :
” وہ تم سے دس بارہ سال بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ شادی شدہ بھی ہے۔“
میں نے ایک شرط کے ساتھ مزاری صاحب سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا…“
”وہ شرط کیا تھی … ؟“ عزت نے جلدی سے پوچھا۔
”ہماری شادی میں مزاری صاحب کے سارے خاندان کے ساتھ ساتھ اُن کی پہلی بیوی اور بچے بھی شرکت کریں، پھر ایسے ہی ہوا۔
میں نے مزاری صاحب کی پہلی بیوی اور بچوں کو دل سے قبول کیا اور انھوں نے مجھے۔“
”مرد کی ہوس… ایک شادی سے کیوں نہیں پوری ہوتی …؟“ عزت نے حقارت سے پوچھا۔
”جبلت کو ہوس کا نام مت دو… مرد کا دل ایک پر آ بھی جائے تو دوسری کو دیکھ کر مچل ضرور جاتا ہے۔ ایسے سمجھ لو کہ عورت مورتی ہے اور مرد پجاری… اب آرتی تو پجاری ہی اُتارے گا، نا … مورتی تو نہیں… سیدھی سی بات ہے … مرد کی جبلت میں رنگین مزاجی ہے۔

”عورت کی جبلت میں کیا ہے …؟“ عزت نے سوال کیا۔
”حیا اور ممتا ! عورت رنڈی ہی کیوں نہ ہو اُس کے اندر سے حیا اور ممتا کبھی نہیں مرتیں۔“
”عورت کو رنڈی بنانے والا بھی تو مرد ہی ہوتا ہے “ عزت نے تیز دھاری لہجے میں کہا۔ تہذیب ہلکا سا مسکرائی پھر ارد گرد دیکھا اُس کے سگریٹ، ایش ٹرے اور موبائل ایزی چیئر کے ساتھ سائیڈ ٹیبل پر پڑے ہوئے تھے۔
وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور سب کچھ اُٹھا لائی۔ صوفے پر بیٹھتے ہوئے اُس نے ایک نمبر ملایا۔
”اسٹڈی میں ڈرنک دے جاؤ۔“ چند منٹ بعد ملازمہ ایک ٹرولی پر وسکی، سوڈا، برف اور ڈرائی فروٹ سجا کر لے آئی۔ ملازمہ نے وہ ٹرولی صوفے پر بیٹھی ہوئی تہذیب کے برابر میں لا روکی اور خود مہذب کھڑی ہو گی۔
”تم جاؤ میں بنا لوں گی۔“ ملازمہ وہاں سے چلی گئی۔
تہذیب نے ایک گلاس میں سوڈا ڈالتے ہوئے پوچھا :
”ڈرنک بناؤں تمھارے لیے …؟“
” موڈ نہیں ہے …“ عزت نے بتایا۔
تہذیب نے اپنا پیگ بنایا پھر ڈرائی فروٹ والی ٹرے، عزت کو پیش کی۔ عزت نے اُس میں سے کاجو کے چند دانے اُٹھا لیے۔
”مزاری صاحب شراب نہیں پیتے اور میں نے شادی سے پہلے ہی پینا شروع کر دی تھی… شادی سے اگلے دن میں نے اُن سے شراب، پینے کی فرمائش کی تو انھیں حیرت ہوئی… وہ کہنے لگے : ”دوسری شادی حلال ہے اور شراب حرام۔
“ سگریٹ تو حرام نہیں ہے۔ میں نے جلدی سے بتایا۔ مزاری صاحب مسکرا دیے۔ پھر کہنے لگے :
”مرجانا مگر میرا رقیب نا پیدا ہونے دینا …“
”رقیب…مطلب…؟“ عزت نے اُلجھتے ہوئے پوچھا۔ تہذیب نے عزت کو جواب دینے کی بجائے گلاس میں سے ایک گھونٹ پیا پھر دوسرا۔ آخری گھونٹ میں اُس نے اپنا سارا پیگ ختم کر کے خالی گلاس ٹرولی پر رکھ دیا پھر اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ وہ آنکھیں بند کیے ہوئے مسکرا رہی تھی۔

Chapters / Baab of Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan