Episode 13 - Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر13 - زِیرک زَن - شکیل احمد چوہان

مار خور
”کسی کی ذات میں صفات کو تلاش مت کرو۔ ہم کسی کی ذات میں ظاہری صفات دیکھ کر اُس کے رتبے کا اندازہ لگاتے ہیں۔ ذات میں ذات کو ڈھونڈو۔ اپنی شہرت مت دیکھو اپنی حیثیت کو جانو۔ اُس کی حقیقت کے سامنے تمھاری حیثیت ہی کیا۔ سوال دوسرے کی عملی قابلیت پرکھنے کے لیے مت پوچھو۔

”بابا جی ! دو دودھ پتی…“ چائے کے ایک شوقین نے لکڑی کے بنچ پر بیٹھتے ہوئے۔ بابا تیمور کی طرف دیکھ کر دائیں ہاتھ کو فضا میں بلند کیا تھا۔ ایک لمحے کے لیے چائے کو پھینٹتے ہوئے بابا تیمور کے ہاتھ رکے۔ بابا تیمور نے سر کو ہاں میں جنبش دیتے ہوئے مسکراہٹ کے ساتھ گاہک کا استقبال کیا۔
” میں چلتا ہوں …“ بسیط تابش نے تجمل احمد اور قدسیہ احد کے سامنے سے اُٹھتے ہوئے کہا۔

(جاری ہے)


”چائے تو پیتے جاؤ …“ تجمل نے زور دے کر کہا۔
”تھوڑا بیزی ہوں… ٹیک کیئر…“ بسیط نے تجمل کے کندھے پر ہاتھ رکھا اور وہاں سے اُٹھ کر چل دیا۔
”جو جتنا مصروف ہے اصل میں وہ اُتنا ہی ویلا (فارغ) ہے۔“
بابا تیمور نے اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے بسیط کو کہا مگر اپنی نظریں چائے کے برتن پر ہی مرکوز رکھیں۔ بسیط کے جانے کے بعد بابا تیمور نے چائے کے برتن سے چائے کے برتنوں میں ڈال کر سب گاہکوں کا آرڈر پورا کیا۔
سب گاہکوں کو فارغ کرنے کے بعد جو چائے بچی وہ پھر سے چولہے پر رکھ دی۔ گاہکوں کو اُن کے ٹیبلوں پر چائے پہنچانے کے بعد بابا تیمور نے باقی چائے چینی کی تین پیالیوں میں اُنڈیلی اور وہ پیالیاں ٹرے میں میں رکھ کر تجمل اور قدسیہ کے سامنے بسیط والی جگہ پر جا بیٹھے، ابھی بابا تیمور بیٹھے ہی تھے، کہ دو بندے دکان کے اندر داخل ہوئے۔
”بابیو ! سانوں وی دو کپ چاہ پلا دو“ اُن میں سے ایک بولا۔

”دودھ ختم ہو گیا“ بابا تیمور نے دونوں ہاتھوں سے چائے کی پیالی کو اپنے ہونٹوں سے لگاتے ہوئے اُنھیں بغیر دیکھے ہی کہہ دیا۔ قدسیہ نے لمحہ بھر اُن آدمیوں کی طرف دیکھا وہ دونوں آدمی مایوسی سے وہاں سے چلے گئے۔ قدسیہ چائے کی پیالی کے اوپر اپنی شہادت والی اُنگلی پیالی کے اوپری کناروں پر گھما رہی تھی۔ بابا تیمور نے قدسیہ کی انگلی کی طرف دیکھا تو کہنے لگے :
”چیزیں دائروں میں سفر کر رہی ہیں۔
دائرے پر جہاں بھی اُنگلی رکھیں دائرہ وہیں سے شروع ہو جاتا ہے ۔ دائرے کا آغاز اور اختتام ہے ہی نہیں …“ بابا تیمور یہ کہہ کر خاموش ہو گئے۔ اپنی چائے ختم کی اور اپنی دکان سمیٹنے لگے۔
”تم تو بیٹھو گی ابھی۔“ بابا تیمور کے اپنی جگہ سے اُٹھنے کے بعد تجمل نے قدسیہ سے سوال کیا۔ قدسیہ نے مسکرانے پر ہی اکتفا کیا۔
”بابا جی ! کہیں پر پہنچنا ہے مجھے بھی اجازت دیں۔
“ تجمل آگاہ کرتے ہوئے وہاں سے چلا گیا۔ تجمل، بسیط اور قدسیہ تینوں کالج فیلو تھے۔ تجمل اور بسیط شروع سے کنفیوژ تھے کہ انھوں نے کیاکرنا ہے۔ قدسیہ کو بچپن سے لکھنے کا شوق تھا۔ بسیط نے مقابلے کا امتحان دیا جس میں وہ پاس بھی ہو گیا، اس لیے اُس نے پولیس فورس جوائن کر لی۔ بسیط اور کچھ نہ کر سکا تو اُس نے وکالت کی ڈگری لے لی۔ قدسیہ اب ملک کی ایک معروف مصنفہ ہے۔

قدسیہ حسب معمول اپنی عادت کے مطابق سب گاہکوں کے جانے کے بعد بھی بیٹھی رہی۔ بابا تیمور نے اپنے سارے برتن دھو کر اپنی اپنی جگہ پر لگا دیے۔ دکان کے لکڑی کے کواڑوں میں سے ایک بند کر دیا۔ قدسیہ خانہ کعبہ کی چکور، کالے لباس میں ملبوس کاسہ نور عمارت کے گرد دائرے میں گھوم رہی تھی۔
”چائے ٹھنڈی ہو گئی ہے … اب پی لو بیٹی… “ بابا تیمور کی آواز سے قدسیہ کی دیوار پر لگی ہوئی خانہ کعبہ کی سینری سے نظریں ہٹیں تو قدسیہ نے پوچھا:
”خانہ کعبہ کی بلڈنگ تو چوکور ہے۔
حدود اربع پتہ نہیں اونچائی 13 میٹر سے زیادہ ہے۔“ پھر بھی ہم اس کے گرد دائرے میں گھوم کر منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں۔“
”اُس کی اونچائی میٹروں میں نہیں سما سکتی… جہاں پر اونچائی ختم ہوتی ہے وہاں سے خانہ کعبہ کی بنیادیں اُٹھتی ہیں… اب رہا منزل کا سوال …؟ منزل … ؟ منزل تو کوئی نہیں ہے … بس چلنا ہے … چائے پیو … “ بابا تیمور نے پہلے سوالیہ انداز میں خود ہی سے کئی سوال پوچھے پھر جواب دیا اور ساتھ ہی حکم بھی دے دیا۔
قدسیہ ایک ہی سانس میں ساری چائے پی گئی پھر خالی پیالی اپنے سامنے ٹیبل پر رکھ دی۔
”چائے تو گرم پینی چاہیے ! تم کیوں ٹھنڈی پیتی ہو بیٹی ! “ بابا تیمور نے جانچتی نظروں سے قدسیہ کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”خود ہی عادت ڈالی ہے بابا جی ! “ قدسیہ نے بابا تیمور کے چہرے کا جائزہ لیتے ہوئے بتایا۔ دونوں نے ایک دوسرے کو بڑے غور سے دیکھا۔

”منزل نہیں تو پھر ہم ایک جگہ سے دوسرے مقام پر کیسے پہنچ جاتے ہیں …؟“
قدسیہ نے اُلجھن سے چائے کی پیالی کے کناروں پر اپنی اُنگلی گھماتے ہوئے، اگلا سوال پوچھ لیا۔
”شیطان سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچ سکتا ہے۔ “
”آپ کا جواب میرے سوال سے مطابقت نہیں رکھتا۔ “
قدسیہ نے بابا تیمور کا جواب سننے کے بعد فوراً کہہ دیا۔

”وہ کسی مکان میں نہیں رہتا مگر کوئی مکان اُس سے خالی بھی نہیں۔“
”تو پھر ہم خانہ کعبہ کو سجدہ کیوں کرتے ہیں …؟“ قدسیہ نے بابا تیمور کے چہرے پر ٹٹولتی نظریں ڈالتے ہوئے اگلا سوال کیا۔
”تمھارے اس سوال کا جواب تو میں دے چکا ہوں… وہ کسی مکان میں نہیں رہتا مگر کوئی مکان اُس سے خالی بھی نہیں ہے … سجدہ مکان کو نہیں سجدہ تو ذات کو ہے … اُس کے نور کی تجلیاں کعبے پر پڑتی ہیں… اِس لیے کعبے کو سجدہ کیا جاتا ہے۔

”سجدوں سے وہ مل جاتا ہے کیا … ؟“ قدسیہ نے بے تابی سے پوچھا۔
”ہر شخص کو وہی ملتا ہے۔ جس کی طرف وہ ہجرت کرتا ہے“ بابا تیمور نے بتایا۔
”وصل کی طرف ہجرت کی جائے تو کیا وصل مل جائے گا…؟“ قدسیہ کے لہجے میں بے چینی اور درد تھا۔
بابا تیمور کے ہونٹوں پر میٹھی سی مسکراہٹ اُبھری انھوں نے اپنی چھوٹی چھوٹی سفید داڑھی پر دائیاں ہاتھ پھیرا پھر اپنے نچلے ہونٹ پر شہادت کی اُنگلی رکھی جیسے اُس کے اوپر تالا لگا دیا ہو۔
کچھ دیر توقف کیا پھر کہنے لگے :
”قدسیہ احد ! یہ جو فراق ہے یہی تو اصل میں وصل ہے… فراق اور وصل کے چکر میں مت پڑو… بس اتنا جان لو … وہ تو موجود ہے … ہم ہی غیب ہیں۔“
”میں نے جرمن، رشین، انگلش، اُردو کا سارا لٹریچر پڑھا ہے… پھر بھی معرفت سمجھ نہیں آئی…“ قدسیہ نے اپنی لا علمی ظاہر کر دی۔
”پڑھا لٹریچر ہے اور طالبہ معرفت کی ہو … معرفت کی پہلی سیڑھی محبت ہے اور دوسری خدمت … “
یہ کہہ کر بابا تیمور نے توقف کیا۔

 ”تیسری سیڑھی کیا ہے…؟“ قدسیہ نے یک لخت پوچھ لیا۔
”نفرتوں کے جہاں میں لوگ پہلی سیڑھی تک بھی نہیں پہنچ پاتے…“ بابا تیمور نے زیر لب مسکراتے ہوئے جواب دیا۔
”میں نے محبت پر کئی رومینٹک افسانے، ناولٹ اور ناول لکھے ہیں …“ قدسیہ کے لہجے سے فخر جھلک رہا تھا۔ بابا تیمور کچھ دیر قدسیہ کے چہرے کی طرف دیکھتے رہے۔ چہرے پر کاسِہ طلب تو تھا مگر آواز میں اب بھی فخر کی گھن گرج باقی تھی۔

”قدسیہ احد ! تم نے اپنے تخیل اور علم سے اپنے اندر سے کئی کتابیں نکالی ضرور ہیں … مگر اپنے من کے گھڑے کے پیندے میں پڑے ہوئے آبِ حیات کی لذت سے محروم ہو۔“
”من کا گھڑا… آبِ حیات…؟“ قدسیہ حیرت سے بابا تیمور کو تک رہی تھی۔
”جسے تم دل کہتی ہو … وہ مَن نہیں ہے … اور جسے تم آبِ حیات سمجھتی ہو … وہ تو آبِ جذبات ہے… معرفت جذبات سے نہیں ملتی… یہ تو احساسات سے ملتی ہے…“
”مجھے آپ کی کسی بات کی سمجھ نہیں آئی… ؟“ قدسیہ نے دھیمے لہجے میں بتایا۔

”بچپن میں پیاسے کوے کی کہانی تو پڑھی ہو گی… کوے نے اپنی پیاس بجھانے کے لیے جذباتی ہو کر نہ تو گھڑے میں گھسنے کی کوشش کی اور نہ ہی اُسے توڑنے بیٹھا…وہ اُس میں بس چھوٹے چھوٹے کنکر ڈالتا رہا… کتابیں بھی کنکر ہی کی طرح ہوتی ہیں … سمجھ آ جائیں تو … ؟ آبِ حیات پینے میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں اگر نہ سمجھ آئیں تو گھائل ضرور کر دیتی ہیں … من کے گھڑے میں کتابیں پڑھ پڑھ کر ڈالتے جاؤ … جو پیاسے کوے کے کنکروں کی طرح آبِ حیات کو اوپر لیتی آئیں گی … اگر آبِ حیات تمھارے ہونٹوں کو نصیب ہو گیا۔
پھر تمھارا قلب روشن ہو جائے گا۔“
”اب یہ قلب کیا چیز ہے … ؟“ قدسیہ نے صرف قلب پر زور دے کر پوچھا جیسے باقی ساری باتیں سمجھ آ گئی ہوں۔
دل، من اور قلب … ؟ دل سے تو تم واقف ہی ہو … میں نے تمھاری ساری کتابیں پڑھی ہیں تم دل کو من اور کسک کو محبت سمجھ بیٹھی ہو۔ ایسا ہرگز نہیں… کسک محبت کی معمولی سی چنگاری کا نام ہے۔ دل کو چھوڑ دیتے ہیں…
یاد رکھو من کو مارنے سے قلب زندہ ہوتا ہے … لہریں سمندر سے ہیں … سمندر لہروں سے نہیں ہے۔
سمندر حقیقت ہے اور لہریں کچھ نہیں … جس نے اپنی ذات کو پہچان لیا اُس نے اپنے رب کو جان لیا پہچاننے کے بعد بھی تم رہو گی لہر ہی … سمندر نہیں بن سکتی… محرومی افلاس اور غربت کفر سے جا ملتے ہیں … غریب کی مدد ہرگز مت کرنا، بلکہ اُس کی غربت دُور کرنے میں مدد گار بننا … جہاں ہدیہ دیا جاتا ہے وہاں صدقے کی ضرورت نہیں پڑتی … خیانت محبت میں بھی جرم ہے اور عزت میں بھی … دوسروں کی عزت کرنے سے دلوں میں محبت کی کونپلیں کھلتی ہیں… یار کی مرضی کو رقص کہتے ہیں رقص اصل میں اطاعت کا نام ہے …
اسلام جاہلوں کا نہیں… علم والوں کا دین ہے ایک اور بات یاد رکھنا … علم سے غرور جنم لیتا ہے اور علم سے انسان پھول بھی جاتا ہے اگر نہ پھولے تو پھر پھل لگتا ہے۔

بابا تیمور نے بہت ساری نصیحتوں کے بعد خاموشی اختیار کی۔ شام کی سیاہی دن کے اُجالے کو کھا چکی تھی۔ پرندے اپنے گھروں کو پلٹ چکے تھے۔ مغرب کی اذان سے پہلے پرندے درختوں کی شاخوں پر بیٹھ کر ایک دوسرے کو سارے دن کا حال احوال سنا رہے تھے۔
”آپ نے مجھے اتنے مہینوں میں اتنی باتیں نہیں بتائیں جتنی آج بتائی ہیں اِس کی کوئی خاص وجہ … ؟“
قدسیہ نے دبے لہجے میں اختصار کے ساتھ پوچھا۔

بابا تیمور کا چہرہ کھل اُٹھا اور وہ کہنے لگے :
”قدسیہ احد !! بہت ساری وجوہات ہیں … زندگی اورموت کا کیا بھروسہ … دوسری بات !! اہل سے چھپانا اور جاہل کو بتانا دونوں ہی جرم ہیں … تم طالب بھی ہو اور اہل بھی … آخر میں سب سے اہم اور سب سے خاص بات !! کسی کی ذات میں صفات کو تلاش مت کرو … خود کی ذات میں صفات پیدا کرو … کیونکہ رسالت سے پہلے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات میں مکمل تھے… ہزار کوششوں کے باوجود … دوسرے مذاہب کے لوگ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر انگلی نہیں اُٹھا سکے … اس لیے وہ رسالت پر حملہ کرتے ہیں … تم سب سے پہلے اپنا کاسِہ ذات پکا کرو کیونکہ کچے برتن گرمی اور ٹھنڈک کی شدت برداشت نہیں کر سکتے … کاسِہ ذات پکا کرو… “ مغرب کی اذان شروع ہو گئی تھی۔
قدسیہ دُکان سے باہر نکل آئی۔ بابا تیمور نے قدسیہ کے باہر آنے کے بعد اپنی دُکان کے دونوں کواڑ اندر سے بند کیے اور خود دکان کے اندر سے اوپر جاتی ہوئی سیڑھیوں سے اپنے کمرے میں چلے گئے۔
قدسیہ سامنے فٹ پاتھ پر بیٹھے ہوئے ملنگ کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ ملنگ کے مکھڑے پر اُس کی وجاہت واضح نظر آ رہی تھی۔
قدسیہ نے تھوڑی دُور کھڑی فروٹ کی ریڑھی سے کچھ پھل خرید کر ملنگ کے پاس رکھ دیے۔
ملنگ نے جلدی سے ایک سیب اُٹھایا اور پاگلوں کی طرح کھانے لگا۔ بابا تیمور اپنے کمرے کی کھڑی کا ایک کواڑ کھول کر یہ سب دیکھ رہے تھے۔ قدسیہ اس سب سے انجان تھی۔
”کسک سے محبت کی طرف پہلا قدم اُٹھایا ہے۔“ بابا تیمور نے مسکراتے ہوئے خود کلامی کی اور کھڑکی کا کواڑ بند کردیا۔ قدسیہ جا کر اپنی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ ونڈ اسکرین سے ایک بار اُس پرانی بلڈنگ کو غور سے دیکھا اُس کی نظروں کا مرکز بابا تیمور کی کھڑکی تھی۔
اُس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور وہاں سے چلی گئی۔ چند کلو میٹر آگے جا کر قدسیہ نے ایک شاپنگ مال کی پارکنگ میں گاڑی پارک کی پھر ارد گرد دیکھا لوگ بے نیاز آ جا رہے تھے۔ وہ گاڑی سے باہر نکلی گرد و نواح کا جائزہ لیا۔ پھر گاڑی کے ریمورٹ کی مدد سے ڈگی کھولی اور اُس میں سے ایک لیدر کا چھوٹا سا شولڈر بیگ نکال کر شاپنگ مال کے فورڈ کورٹ کی طرف چل دی۔

Chapters / Baab of Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan