Episode 5 - Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر5 - زِیرک زَن - شکیل احمد چوہان

”ہم نے تمھارے لیے ایک لڑکی پسند کی ہے۔“ ضرار کے پاپا راؤ حماد نے اُس کی ماما انیسہ حماد کی طرف مشاورتی نظروں سے دیکھتے ہوئے ضرار کو بتایا۔
”کس سیاست دان کی بیٹی ہے … ؟“ ضرار نے بڑی دلچسپی سے پوچھا۔ ضرار کے والدین خاموش رہے تو اُس نے اندازہ لگایا :
” کسی جرنل، کرنل کی بیٹی ہے کیا … ؟“
”نہیں ضرار بیٹا وہ یتیم ہے۔
“ انیسہ نے آگاہ کیا۔
”ہاسپٹل میں کوئی دل کی ڈاکٹر تو پسند نہیں آگئی آپ کو … ؟“
”وہ بے چاری تو خود مریضہ ہے۔“ راؤ حماد نے زخمی مسکراہٹ کے ساتھ خبر دی۔
” پڑھ پڑھ کے ذہنی مریضہ بن گئی ہو گی… ؟“ ضرار نے مذاق میں کہا۔
” نہیں بیٹا وہ تو صرف میٹرک پاس ہے۔“ انیسہ نے آگاہ کیا۔
”آپ دونوں کا دماغ تو نہیں خراب ہو گیا۔

(جاری ہے)

“ ضرار نے بڑی بد تمیزی سے کہا۔


” ضرار !“ راؤ حماد نے پوری گھن گرج کے ساتھ ضرار کو ٹوکا پھر وہ کرسی سے کھڑے ہوتے ہوئے کہنے لگا :
” ہم تمھارے ماں باپ ہیں… !“
” اچھا جی ! مجھے تو پتہ نہیں تھا تم میرے باپ ہو۔“
جیسے ہی ضرار کے منہ سے یہ طنزیہ جملہ نکلا انیسہ نے ضرار کے منہ پر ایک تھپڑ جڑ دیا۔
” تم دونوں نے خود گھر سے بھاگ کر شادی کی اور میرے اوپر اپنی مرضی مسلط کر رہے ہو۔
“ راؤ حماد دل پکڑ کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ وہ تکلیف کے عالم میں کہنے لگا :
”ابھی نکل جاؤ میرے گھر سے۔“
” یہ گھر میرے نام پر ہے راؤ حماد ! “
ضرار یہ بول کر لاؤنج سے اپنے بیڈ روم کی طرف جاتی ہوئی سیڑھیوں پر چڑھنے لگا۔ راؤ حماد منہ کے بل فرش پر جا گرا۔ انیسہ اُسے اُٹھاتے ہوئے چلائی :
”ساجد… شاکرہ… ان کو پھر دل کا دورہ پڑ گیا ہے۔
“ ساجد اور شاکرہ بھاگ کر آ گئے۔ ضرار بھی یہ سنتے ہی بھاگا…
###
ضرار کرسی سے اُٹھ کر عترت کی طرف بھاگتا ہوا آیا اور اُس سے لپٹ کر کہنے لگا :
”ماما … مجھ سے غلطی ہو گئی۔ اُس دن میں نے بہت زیادہ پی رکھی تھی … ماما آپ کو تو پتہ ہے میں آپ دونوں سے کتناپیار کرتا ہوں۔ سوری ما ما ! مجھے معاف کر دیں۔“ گھنٹہ بھرپہلے والا شکاری اب خود پناہ کی تلاش میں تھا۔
عترت نے ضرار کو بیڈ پر لٹایا اور خود بھی اُس کے ساتھ اپنی ماں کی طرح لپٹ گئی۔
جیسے میاں جی کی بیوی مطوفہ اُسے بچپن میں ماں کی طرح اپنے سینے سے لگاتی تھیں بالکل اُسی طرح عترت نے ضرار کو اپنے سینے سے لگا رکھا تھا۔
ضرار سو گیا تو عترت اُس کے پہلو سے اُٹھی اور واش روم چلی گئی۔ وہ وضو کر کے لوٹی تھی۔ اُس نے ارد گرد دیکھا اُسے جائے نماز کہیں نظر نہیں آیا۔
وہ ٹیرس پر گئی آسمان کی طرف منہ کر کے سورج کی سمت کا اندازہ لگایا پھر ٹیرس پر ہی اپنی چادر بچھا کے اُس پر نماز پڑھنے لگی۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہ بیڈ روم میں لوٹی۔ ضرار گہری نیند میں تھا۔ اُسے نظر بھر کے دیکھنے کے بعد عترت بیڈ روم سے نکل گئی۔
###
رات دس بجے کے پاس ضرار جاگا تو اُس نے ذہن پر زور دے کر سب کچھ یاد کیا۔
اُس نے ارد گرد دیکھا عترت نہیں تھی۔ وہ بے چین ہو کر بیڈ روم سے نکلا۔ گھر کے مختلف مقامات سے گزرتے ہوئے وہ زور زور سے چلایا۔
” شاکرہ … ساجد… شاکرہ“
” جی صاحب ! “ شاکرہ نے اُس کے پاس آتے ہوئے کہا۔
” عترت کہاں ہے … ؟“
” وہ تو چلی گئی۔“ شاکرہ نے بتایا۔
” کیسے چلی گئی۔“ ضرار نے پوچھا۔
” سر ! میں چھوڑ کر آیا تھا۔“ ساجد نے جلدی سے آگاہ کیا۔

” کیوں …؟“ ضرار نے تلخ انداز میں پوچھا۔ ساجد نے سر جھکا لیا۔ ضرار اُن دونوں کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔
بیڈ روم میں پہنچ کر اُس نے اپنا موبائل On کیا اور عترت کا نمبر ملا دیا۔
”السلام علیکم!“ اب کیسی طبیعت ہے تمھاری۔“ عترت نے کال رسیو کرتے ہی پوچھ لیا۔ ایک جملے ہی سے ضرار کا غصہ کچھ ہلکا ہو گیا تھا۔

” میں ٹھیک ہوں۔ آپ چلی کیوں گئی…؟“ ضرار نے پوری کوشش کر کے دھیمے لہجے میں پوچھا تھا۔
” مجھے جھوٹ اور دھوکے سے سخت نفرت ہے۔“ عترت نے سنجیدگی سے بتایا۔
” Sorry…“ ضرار نے دھیرے سے کہا۔ چند لمحے دونوں اطراف سکوت رہا پھر ضرار کی عاجزانہ آواز نے سکوت توڑا :
” مجھے اکیلے میں ڈر لگتا ہے … میں آپ کے پاس آ جاؤں …؟“ عترت نے یہ سنتے ہی فٹ سے بول دیا :
” ساجد کے ساتھ آنا … جب وہاں سے نکلو تو میری ساجد سے بات کروا دینا میں اُسے بتا دوں گی کہاں آنا ہے۔
ہاں شلوار قمیض پہن کر آنا اُسی پینٹ کوٹ میں دوڑ مت لگا دینا۔ میں انتظار کر رہی ہوں۔“ آخری لائن عترت نے بڑی مٹھاس سے کہی تھی۔ ضرار کے اندر خوشی کی لہر دوڑ گئی وہ دیوانوں کی طرح سے واڈ روب سے کپڑے نکالنے لگا۔ ایک گرم شلوار قمیض پر اس کا ہاتھ رُکا تھا۔ وہ تیار ہو کر نیچے آیا اور ساجد کو جوش سے پکارا :
”ساجد ! او ساجد کدھر ہو …؟“ ساجد نے فوراً جواب دیا :
” جی سر ! “
”چلو…!“ ضرار یہ بول کر باہر کی طرف چل دیا۔
ساجد بھی اُس کے پیچھے لپکا۔ ضرار نے عترت کا نمبر ملا دیا :
”جی … “ عترت نے لفظ ضائع نہیں کیے۔ ضرار نے ساجد کی طرف فون کرتے ہوئے کہا :
” یہ لیں ساجد سے بات کریں۔“
”جی آپی۔“ ساجد نے بڑے ادب سے کہا۔ اس کے باوجود ضرار کو ناگواری گزری تھی۔
” ساجد ! اُسی جگہ صاحب کو بھی اُتارنا۔ شاہدرہ پہنچتے ہی مجھے فون کر دینا میں خود صاحب کو لینے آؤں گی۔

” ٹھیک ہے آپی !“ ساجد نے اپنی بات بول کر موبائل ضرار کی طرف کر دیا۔ ضرار نے موبائل پکڑ کر اسے اپنی لیدر کی جیکٹ کے ساتھ مسلا تھا۔
ساجد نے آگے بڑھ کر Tyota vigo کا پچھلا دروازہ کھول دیا۔ ضرار نے گاڑی میں بیٹھنے کے بعد گاڑی کے ڈیش بورڈ کے اوپر پڑے ہوئے ٹشو کے ڈبے کی طرف دیکھا۔ جیسے ہی ساجد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا۔ ضرار نے فٹ سے حکم دیا :
”ٹشو دو ! “
ساجد نے بائیں ہاتھ سے ٹشو کا ڈبہ پکڑنے کے بعد دونوں ہاتھوں سے ضرار کے سامنے پیش کیا۔
ضرار نے اُس میں سے پانچ چھ ٹشو نکال لیے اور اُن سے اپنا موبائل صاف کرتے ہوئے تیکھے انداز میں کہنے لگا :
” آپی آپی ! کیا لگا رکھی تھی وہ بیگم صاحبہ ہیں تمھاری۔“
”سر ! بیگم صاحبہ کہنے سے انھوں نے منع کیا ہے۔“ ساجد نے بتایا۔
”میڈم تو بول سکتے تھے نا… “ ضرار نے سختی سے کہا۔
”یہ بھی بولا تھا سر ! وہ کہنے لگیں مجھے میرے محلے میں سب آپی کہتے ہیں… تم بھی آپی ہی کہو۔
“ ساجد نے یہ بتانے کے بعد اپنی ساری توجہ سڑک پر مرکوز کر دی۔ ڈیفنس سے نکل کر اب وہ رنگ روڈ پر سفر کر رہے تھے۔ ضرار ارد گرد باہر اندھیرے میں بھی کچھ دیکھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ وہ جلد سے جلد عترت کے پاس پہنچنا چاہتا ہے۔ نا چاہتے ہوئے بھی اُس نے ساجد سے پوچھا :
”اور کیا کہا تھا تمھاری آپی نے …؟“
”کس بارے میں سر ! “ ساجد نے سینٹر والے مرر میں ضرار کو دیکھ کر کہا :
”مطلب کیا پوچھا… کیا بتایا … ؟“ ضرار نے رُک رُک کر سوال کیا تھا۔

” سر! آپی مجھ سے امی اور لائبہ کے بارے میں ہی سوال کرتی رہیں۔“
”لائبہ کون… ؟“ ضرار نے فٹ سے پوچھا۔
” لائبہ میری بیوی سر ! “ ساجد نے بتایا۔
”ہاں … ہاں… تمھاری شادی دو چار مہینے پہلے ہوئی تھی۔“ ضرار نے یاد کرتے ہوئے کہا۔
”سال ہونے کو ہے سر ! چند دن تک تو میں باپ بھی بن جاؤں گا۔“ ساجد نے دبی سی خوشی کے ساتھ بتایا۔
”کبھی دیکھا نہیں تمھاری بیوی کو“ ضرار نے کہا۔
ساجد کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔
”ہم اُسے آپ کے سامنے نہیں آنے دیتے سر ! “ ساجد کی بات ضرار کو ایسے لگی، جیسے بے خیالی میں اُسے کسی نے تھپڑ مار دیا ہو۔ اُس وقت وہ دونوں ایک دوسرے سے ڈر رہے تھے۔ ضرار کے موبائل پر بیل ہونے لگی اُس نے چونک کر موبائل اسکرین کو دیکھا کوئی unknown نمبر تھا، اُس نے کال اُٹھا لی :
”ہیلو“
”آج کل کدھر ہو جان ! “ بڑی سریلی آواز میں کسی لڑکی نے پوچھا تھا۔

”ریشم “ ضرار نے تصدیقی لہجے میں پوچھا۔
” تمھاری جدائی میں ریشم کھدر ہو گئی ہے۔ کال کروں تو Mostly تمھارا نمبر Off ملتا ہے۔“ ضرار نے ریشم کی بات کاٹتے ہوئے بتایا :
”میں نے شادی کر لی ہے۔“ ضرار نے کال کاٹتے ہی اپنا موبائل بھی off کر دیا تھا۔ ساجد نے گاڑی رِنگ روڈ سے راوی کے پل کی طرف اتارتے ہوئے عترت کا نمبر ملایا :
”جی ساجد ! “
” آپی ہم آٹھ سے دس منٹ تک اُسی جگہ پہنچ جائیں گے۔

” ٹھیک ہے۔“ عترت نے یہ بول کر کال کاٹ دی۔ ساجد نے ابھی موبائل کان سے الگ کیا ہی تھا کہ ضرار نے خفگی سے پوچھ لیا :
” میرے بارے میں تو کچھ نہیں بتایا عترت کو!!“
”نہیں سر ! “
”سچ بول رہے ہو۔ نا …؟“ ضرار نے لفظوں پر زور دے کر پوچھا تھا۔
”جی سر!“ ساجد نے سنجیدگی سے کہا۔
”کبھی بتانا بھی مت۔“ ضرار حکمیہ لہجے میں بولا۔
” بہتر سر !“
ساجد نے اُسی جگہ پھاٹک سے پہلے گاڑی روکی تھی۔
پھاٹک کے ایک طرف مغلیہ کالونی اور دوسری طرف راوی کلفٹن کا علاقہ ہے۔ گاڑی کے رکتے ہی عترت ایک کھجور کے شجر کے پیچھے سے برآمد ہوئی۔ ساجد کے دروازہ کھولنے سے پہلے ہی ضرار خود اپنا دروازہ کھول کر باہر نکل آیا تھا۔ عترت کو حجاب کے اندر دیکھنے کے باوجود ضرار کی آنکھیں چمک اُٹھی تھیں۔ عترت نے بھی سر تا پیر غور سے ایک نظر ضرار پر ڈالی۔
گندمی رنگت اور دراز قد والا ایک لڑکا جس نے سرمئی شلوار قمیض کے اوپر لیدر کی ایمپورٹڈ جیکٹ پہن رکھی تھی۔
اس کے پیروں میں لیدر کے ہی اٹالین شوز تھے۔ بائیں کلائی پر راڈو اور دائیں ہاتھ میں اُس کا موبائل تھا۔ عترت نے ضرار کے بعد ساجد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :
” ساجد بھائی ! آپ چلے جاؤ!“ ساجد نے ضرار کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ضرار نے موبائل جیکٹ کی جیب میں ڈالتے ہوئے ساجد کو گردن ہلا کر جانے کا اشارہ دے دیا۔ ساجد کے وہاں سے جانے کے بعد عترت نے ضرار کا سیدھا ہاتھ پکڑتے ہوئے پوچھا :
” کھانا کھایا …؟“ ضرار نے نفی میں گردن ہلا دی۔
عترت نے خوشی سے اطلاع دی :
” میں نے بھی نہیں کھایا۔“ عترت نے اپنے اُلٹے ہاتھ کے پنجے سے ضرار کے سیدھے پنجے کو جکڑ لیا اور مقبرہ جہانگیر کی طرف چل دی۔ تھوڑا سا آگے جا کر چائے کے ایک کھوکھے پر اُس نے نظر ڈالی۔ دو بوڑھے اُسے اپنی پہچان کے نظر آ گئے تھے۔ وہ اُسی طرح اپنی انگلیوں سے ضرار کی انگلیوں کو جکڑتے ہوئے اُن کے پاس جا کر بولی :
” بزرگو ! السلام علیکم “ دو کی بجائے چار بابوں نے یک زبان ہو کر جواب دیا :
” و علیکم السلام ! “
”دھی رانی میں نے پہچانا نہیں تجھے۔
“ اُن میں سے ایک بابے نے پنجابی لہجے میں کہا۔
” بابا جی ! میں شاہ چانن کی پوتی ہوں اور یہ ہے میرا گھر والا !“ عترت نے ایک ایک لفظ پر ٹھہرتے ہوئے بتایا۔
” شاہ چانن کی پوتی“ دوسرا بابا یہ بولتا ہوا کھڑا ہو گیا۔ پہلے بابے نے دوسرے لوگوں کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی عقیدت سے کہا :
”اوئے نالائقو میرے مرشد شاہ چانن کی پوتی ہمیں ملنے آئی ہے اور تم سب بیٹھے ہوئے ہو۔
“ فٹ سے سب لوگ کھڑے ہو گئے۔ ضرار نے ایسا احترام میاں جی کے بعد زندگی میں پہلی بار عترت کے لیے دیکھا تھا۔
”بابا صادقا ! اس بچی نے سارے علاقے کی بچیوں کو قرآن شریف پڑھایا ہے۔“ ایک درمیانی عمر کا شخص بولا تھا۔
” وہ بھی تو بتا اس دھی رانی نے سارے علاقے کی لڑکیوں کو سلائی کڑھائی کا کام بھی تو سکھایا ہے۔“ دوسرے آدمی نے ستائشی اندا زمیں کہا۔

” اوئے گوگی ودھیا سی دودھ پتی بنا۔“ ایک موٹے سے بندے نے لاہوری انداز میں چائے والے کو حکم دیا۔ سب لوگوں نے باری باری عترت کے سر پر اور ضرار کے کندھے پر پیار دیا۔
” بٹ صاحب ! آپ کی طرف چائے اُدھار رہی۔ ابھی تھوڑی جلدی ہے۔“ عترت نے موٹے بندے کی طرف دیکھ کہا تھا۔
” ٹھیک ہے بیٹا جی۔“ بٹ صاحب نے عترت کے سر پر دونوں ہاتھوں سے پیار دیتے ہوئے کہا۔

”اجازت ہے بزرگو۔“ عترت نے بوڑھوں کی طرف دیکھ کر پوچھا تھا۔
”رب سوہنا تجھے لمبی حیاتی دے۔“ یہ سن کر عترت کی آنکھوں میں اُمید کے دیپ جل اُٹھے تھے۔
چوک میں سے گزرتے ہوئے، عترت نے ایک زلف تراش کی دکان کے اندر دیکھا۔ پچاس کے لگ بھگ ایک شخص پر نظر پڑتے ہی وہ ضرار کے ہاتھ میں ہاتھ دیے بے دھڑک اندر چلی گئی۔ کام کرتے ہوئے چار کاریگروں میں سے دوسری کرسی پر وہ کھڑا تھا۔
دُکان کے اندر اُس شخص سمیت کل دس افراد تھے۔
” چاچا جی ! السلام علیکم ! “ عترت نے اُس شخص کے پاس کھڑے ہوتے ہوئے کہا تھا۔ اُس شخص نے عترت اور ضرار کو غور سے دیکھنے کے بعد کہا :
” کون ہو تم دونوں …؟“
”میں شاہ چانن کی پوتی عترت ہوں اور یہ میرے شوہر ہیں۔“
”شاہ جی کی پوتی ! صنم اور زمان کی بیٹی۔“
”نہیں چاچا جی ! صنم اور زمان کی بیٹی نہیں۔
صرف شاہ چانن کی پوتی۔“ عترت نے لرزتی آواز میں بتایا۔
” دادا تیرا چانن تھا اور تو چاننی… تیرے نکاح کی خبر سنتے ہی میرے کلیجے میں ٹھنڈ پڑ گئی ہے۔“ پھر اُس شخص نے عترت کے سر پر شفقت سے ہاتھ رکھتے ہوئے دعوت دی :
” چلو پُتر گھر چلو۔“
”تایا جی آج نہیں… جلدی ہی چکر لگاؤں گی۔“
” اپنے شوہر کو بھی ساتھ لے کر آنا…“ اُس شخص نے محبت سے کہا۔ عترت نے گردن ہلائی اور دُکان سے باہر نکل آئی۔ عترت نے ضرار کا تجسس بھانپ لیا تھا۔ ضرار کے پوچھنے سے پہلے ہی وہ بول اُٹھی :
”اب ہم سیدھے گھر جائیں گے۔“

Chapters / Baab of Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan