Episode 6 - Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر6 - زِیرک زَن - شکیل احمد چوہان

عترت نے چابی سے اپنے گھرکا Lockکھولا۔ نیچے چھوٹے سے گیراج کے ساتھ بہت بڑا ہال تھا۔ ہال کے دروازے پر تختی لگی تھی۔ اندر صرف عورتوں کو آنے کی اجازت ہے۔
”یہ میری بوتیک ہے۔“ عترت نے بوتیک کے اندر جاتے ہوئے بتایا۔ بوتیک کی لائٹیں On کرنے کے بعد اُس نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹایا پھر اپنی کالی گرم چادر اُتاری۔ کالی چادر کے نیچے سے سفید شلوار قمیض میں ملبوس ایک چاندنی نمودار ہوئی تھی۔
چاندنی کی چمک سے ضرار کے تن بدن میں بجلی دوڑ گئی۔ عترت نے غور سے ضرار کو دیکھتے ہوئے کہا :
” کچھ کہنا چاہتے ہو!“
”چاند سے چکور کیا کہے !“ ضرار نے نظروں ہی سے عترت کے جسم کو جکڑ رکھا تھا۔ عترت کو اس بات کا احساس ہو گیا تھا۔ وہ ضرار کے پاس آ کر بڑی نزاکت کے ساتھ اُس سے لپٹ گئی۔

(جاری ہے)

وہ ضرار سے ایسے لپٹی ہوئی تھی جیسے پنچھی کے بدن سے پنکھ لپٹے ہوتے ہیں۔

اُس نے ضرار کے کندھے پر اپنا سر ٹکاتے ہوئے بڑی اُلفت سے کہا :
”کہہ دو ! جو دل میں ہے۔“
”آپ بہت حسین ہو۔“ ضرار نے عترت کے کان میں سرگوشی کی۔
” اور کچھ … “ عترت نے دھیرے سے پوچھا۔
”میں آپ کو مرنے نہیں دوں گا۔“ ضرار نے فرطِ محبت کے ساتھ کہا۔
”میں بھی جینا چاہتی ہوں…!“
”اپنی بد تمیزی پر معذرت چاہتا ہوں۔“ ضرار نے پشیمانی سے کہا۔

” میں معاف کر چکی ہوں۔“ عترت نے ضرار سے الگ ہوتے ہوئے بتایا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھ رہے تھے۔ عترت ہلکا سا شرماتے ہوئے بولی :
”کھانا کھا لیتے ہیں۔ یہ نہ ہو کہ ہم دونوں ایک دوسرے کو ہی کھا جائیں۔“ ضرار مسکرانے لگا۔ عترت نے کہا :
” چلو اوپر چلتے ہیں۔ میں نے تمھارے لیے پالک گوشت بنایا ہے۔“ ضرار کو کلائی سے پکڑ کر عترت اوپر لے گئی۔

”تم یہاں بیٹھو ! میں روٹیاں بنا لوں۔“ ہال میں پہنچ کر عترت نے صوفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
” اگر میں کچن میں تمھارے پاس کھڑا رہوں تو … ؟“ ضرار نے تھوڑی جھجھک کے ساتھ پوچھا تھا۔ عترت نے مسکراتے ہوئے بات مان لی۔ عترت روٹیاں پکانے لگی اور ضرار اُسے دیکھتا رہا۔ روٹیاں پکانے کے بعد عترت برتن ٹرے میں رکھنے لگی۔ پھر اُس نے سالن ڈونگے میں نکالا۔

”وہ کدھر ہیں۔“ ضرار نے اِرد گرد دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”اوپر والی منزل پر … بی بی خانم 9 بجے سو جاتی ہیں… اب تو 12 بجنے والے ہیں۔ تم آجاؤ۔“ عترت برتن اور پانی اُٹھا کے کچن سے ہال میں آ گئی۔ ضرار روٹیاں اور سالن اُٹھا لایا۔ میز پر برتن رکھنے کے بعد وہ پلٹی تو ضرار اُس کے پیچھے تھا۔ اُس نے مسکراتے ہوئے بڑی محبت سے ضرار کو دیکھا پھر صوفے کی طرف بیٹھنے کا اشارہ کیا۔
ضرار بیٹھ گیا تو عترت اُس کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئی اور ایک پلیٹ میں سالن ڈالا پھر روٹی کا نوالہ توڑ کر سالن سے لگانے کے بعد کہنے لگی :
”بسم اللہ پڑھو“ ضرار نے بسم اللہ پڑھی۔
”اب منہ کھولو۔“ ضرار نے منہ کھولا۔ عترت نے بسم اللہ پڑھ کر وہ نوالہ ضرار کے منہ میں ڈال دیا کھانے سے فارغ ہونے کے بعد عترت نے ضرار سے پوچھا:
”میں چائے نہیں پیتی تم نے پینی ہے تو بنا دیتی ہوں۔
“ ضرار نے نفی میں گردن ہلا دی۔
”چھت پر چلیں۔“ عترت نے معصومیت سے پوچھا۔
”چھت پر …؟“ ضرار نے تھوڑی حیرت سے کہا۔ عترت نے اُسی معصومیت کے ساتھ گردن ہلا دی۔ تھوڑی دیر بعد وہ دونوں چوتھی منزل پر پہنچ گئے۔ چھت سے کلفٹن راوی کا سارا علاقہ نظر آ رہا تھا۔ رات کی رانی اور مروا کی خوشبو سے فضا معطر تھی۔ ایک طرف دریائے راوی اور دوسری طرف جہانگیر کا مقبرہ۔
اُسی وقت لاہور سے آنے والی ٹرین راوی کے پل سے چھکا چھک گزری۔ عترت چھت کی منڈیر پر ہاتھ رکھ کے جاتی ہوئی ٹرین کو دیکھنے لگی۔ ضرار کی نظریں کبھی ٹرین پر جاتی اور کبھی عترت پر۔ ٹرین کے جانے کے بعد عترت تھوڑی اداس ہو گئی تھی۔ اُس نے افسردگی سے بتایا :
”صنم ٹرین کے ذریعے ہی گھر سے بھاگی تھی۔“
”کون صنم … ؟“ ضرار نے پوچھا۔
” جس کی وجہ سے میں نے ساری زندگی لوگوں کی لعن طعن سنی ہے۔
“ عترت نے بھرائی ہوئی آواز میں خود کو سمیٹتے ہوئے ضرار کو آگاہ کیا۔ ضرار کوایسے لگا جیسے عترت کو سردی لگ رہی ہے۔ اُس نے اپنی جیکٹ اُتار کر عترت کے کندھوں پر ڈال دی۔ عترت نے اپنے شانوں پر ضرار کی جیکٹ کو دیکھتے ہوئے کہا :
” میاں بیوی لباس تو اپنا اپنا ہی پہنتے ہیں مگر اُن دونوں نے عزت ایک دوسرے کی اوڑھی ہوتی ہے۔“
”آپ باتیں بہت گہری کرتی ہیں۔
“ ضرار نے بتایا عترت نے کڑھتے ہوئے لہجے میں کہا :
” یہ سارا علاقہ شاہ چانن کے ہاتھ چوما کرتا تھا۔ صنم کے بھاگنے کے بعد ہر بندے نے زمان پر انگلی اُٹھائی۔ پھٹیچر سا بندہ بھی زمان کو ٹچکر کر کے گزرتا تھا۔ زمان نے اُس کا حل یہ نکالا کہ وہ دنیا ہی سے نکل گیا۔
اُس نے خودکشی کر لی، میں دنیا میں اکیلی رہ گئی۔ اگر اُس وقت اماں اور میاں جی مجھے اس گھر سے نہ لے جاتے تو … ؟“ عترت بات کرتے کرتے رُک گئی۔

”آپ کی ماں نے آپ کے باپ کو کیوں چھوڑا… ؟“ ضرار نے تھوڑی لجاجت سے پوچھا۔
” صنم نے زمان سے اُس کی دولت کی وجہ سے شادی کی تھی۔ زمان کی دولت پر صنم کے سارے خاندان نے عیاشی کی۔ جب صنم کو پتہ چلا کہ اب زمان کے پاس کچھ نہیں ہے تو اُس نے اپنی راہ لی۔“ عترت جھرجھری لیتے ہوئے خاموشی ہو گئی۔ ضرار نے عترت کو یقین دلاتے ہوئے کہا :
”میں ہوں آپ کے ساتھ۔
“ عترت نے مسکرانے کی کوشش کی۔ ضرار نے کہا :
”ایک بات پوچھوں …؟“ عترت نے نظروں سے بولنے کی اجازت دی۔
” آپ کے دادا نے آپ کے باپ کو اپنا خلیفہ کیوں نہیں بنایا تھا…؟“
”وہ خلافت کا اہل نہیں تھا۔“ عترت نے بتایا۔
” میں سمجھا نہیں…؟“
”عیاش تھا وہ! “
”عیاش مطلب … ؟“ ضرار نے تمسخرانہ انداز میں پوچھا۔ اُس کی تسلی نہیں ہوئی وہ مزید تفصیل جاننا چاہتا تھا۔
عترت کو ضرار کا یہ انداز پسند نہیں آیا اُس کے ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ اُبھری وہ اُسی مسکراہٹ کے ساتھ بولی :
”عیاش کا مطلب ہے، تمھارے جیسے… “ عترت کے منہ سے دو ٹوک بات سنتے ہی ضرار کی رنگت بدل گئی۔ ضرار نے احتجاجی لہجے میں پوچھا :
”پھر مجھ سے شادی کیوں کی…؟“
”اگر یہی سوال میں پوچھوں…؟“ ضرار کے ساتھ ساتھ عترت بھی سنجیدہ ہو گئی۔
ضرار سوچ میں پڑ گیا وہ بات کرتے کرتے رُکا تو عترت کہنے لگی :
” راؤ ضرار سچ سچ بتانا۔“
”گھر بلا کر تم نے میری بے عزتی کی ہے۔“ ضرار نے تلخی سے کہا۔
”میری عزت نظر نہیں آئی…؟“ عترت نے تڑپ کر پوچھا۔
”میں تمھارے حسن پر مرمٹا تھا۔ میں کسی بھی قیمت پر تمھیں حاصل کرنا چاہتا تھا۔“ ضرار غصے سے چلایا تھا۔ عترت زور زور سے ہنستے ہوئے ضرار سے چمٹ گئی۔

” لو حاصل کر لو… جو تم حاصل کرنا چاہتے تھے کر لو… کرتے کیوں نہیں۔“ ضرار کی جیکٹ عترت کے شانوں سے چھت پر گر گئی تھی۔ ضرار نے بڑے تحمل کے ساتھ عترت کو خود سے الگ کیا۔ چھت کے فرش سے اپنی جیکٹ اُٹھا کر پھر سے عترت کے کندھوں پر ڈال دی اور بڑی ملائم آواز میں کہنے لگا :
”میاں بیوی لباس تو اپنا اپنا ہی پہنتے ہیں مگر انھوں نے عزت ایک دوسرے کی اوڑھی ہوتی ہے۔
“ ضرار کے منہ سے اپنے الفاظ سن کے عترت ٹھٹھک کے رہ گئی۔ ضرار اُسی تال پر پھر سے بول اُٹھا :
”میں نے آپ کی عزت اُتاری تھی… آپ تو میری عزت مت گراؤ۔“ ضرار کی یہ بات سن کر عترت کو پشیمانی ہوئی اُس نے اپنے کندھے پر ضرار کی جیکٹ کو ہاتھ لگایا، پھر ضرار کو دیکھے بغیر اُس کا ہاتھ پکڑ کر نیچے کو چل دی ۔
عترت کا ہاتھ پکڑتے ہوئے ضرار ایک بیڈ روم میں داخل ہوا۔
بیڈ روم میں داخل ہوتے ہی ضرار اُس کا جائزہ لینے لگا۔ جس دروازے سے وہ داخل ہوئے تھے وہ بیڈ روم کے ایک کونے میں تھا، اُسی دیوار کے ساتھ چھوٹی میز کے دائیں بائیں دو کرسیاں رکھی ہوئی تھیں۔ سیدھے ہاتھ والی دیوار پر کھڑکی تھی جس پر سفید رنگ کا ریشمی پردہ لگا ہوا تھا۔ اُلٹے ہاتھ والی دیوار پر لکڑی کی الماری بنی ہوئی تھی۔ سامنے والی دیوار کے دائیں ہاتھ کونے میں باتھ روم تھا۔
باتھ روم کے دروازے سے ذرا ہٹ کے سائیڈ ٹیبل تھا۔ اُس کے ساتھ عام سا بیڈ دیوار کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ بیڈ پر سفید رنگ کی موٹی سی بیڈ شیٹ بچھی ہوئی تھی۔
بیڈ کی پچھلی طرف طے کیا ہوا ایک کمبل رکھا ہوا تھا۔ جب ضرار کا جائزہ مکمل ہوا تب عترت نے لمحہ بھر ضرار کی طرف دیکھتے ہوئے بیڈ کی طرف اشارہ کر دیا۔ ضرار بیڈ کی طرف چل پڑا اور عترت بیڈ روم سے نکل گئی۔
بیڈ پر لیٹتے ہوئے ضرار کو عجیب سا لگ رہا تھا، اُس نے اپنا نائٹ ڈریس جو نہیں پہنا تھا۔ وہ اُٹھ کر بیٹھ گیا پھر باتھ روم چلا گیا۔ باتھ روم سے نکل کر اُس نے سوئچ بورڈ کے سارے بٹن On Off کرنے کے بعد لائٹ offکر کے زیر و کا بلب on کر لیا تھا۔ ضرار کمبل اوڑھ کر کروٹ لے کر لیٹ گیا۔
آرام سے دروازہ کھولا۔ عترت اندر داخل ہوئی، سائیڈ ٹیبل پر کچھ رکھا اور کمبل میں گھستے ہوئے ضرار کے کان کے پاس اپنے عنابی ہونٹ لے جاتے ہوئے بولی :
”دودھ لائی ہوں۔

ضرار فٹ سے پلٹا۔ عترت اُس کے پہلو میں کہنی کے بل لیٹی ہوئی تھی۔ ضرار کے منہ سے حیرت سے نکلا :
” آپ یہاں…؟“
”شوہر ہو تم میرے…“ عترت نے ضرار سے آنکھیں ملاتے ہوئے کہا۔ چند لمحوں تک وہ ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے۔ پھر عترت اُٹھ کے بیٹھ گئی اور سائیڈ ٹیبل سے ایک دودھ کا مگ اُٹھا کر ضرار کو پیش کیا۔ ضرار چپ چاپ دودھ پینے لگا۔
عترت بھی دودھ پینے لگی۔ وہ دونوں اپنی اپنی سوچوں میں گم چپ چاپ دودھ پیتے رہے۔ عترت نے پہلے اپنا دودھ ختم کیا اور اپنی طرف والی سائیڈ ٹیبل پر اپنا مگ رکھا اور الماری کی طرف کروٹ لے کر لیٹ گئی۔ جب ضرار نے یہ دیکھا تو اُس نے بھی عترت کی تقلید کی وہ کھڑکی کے اوپر لگے ہوئے پردے کی طرف منہ کر کے لیٹ گیا۔
کتنی دیر وہ دونوں چپ چاپ ایک دوسرے کی طرف پشت کر کے لیٹے رہے۔
یک دم وہ دونوں ایک ہی لمحے پلٹے اور ایک دوسرے سے لپٹ گئے پھر دونوں کی بے قراری کو قرار مل گیا۔
###
عترت ضرار کے کپڑوں کے ساتھ بیڈ روم میں داخل ہوئی۔ بیڈ روم کی کھڑی کا پردہ پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا :
”ضرار صاحب کتنا سوتے ہیں آپ۔“ ضرار آنکھیں ملتے ہوئے بیدار ہوا۔ اُسے عترت کے جملے میں سے صرف آپ یاد رہا، اُس نے حیرت سے عترت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :
”آپ…؟“ عترت لجا سی گئی۔
وہ نظریں چراتے ہوئے کمبل کو طے کرنے لگی۔ عترت کمبل طے کر کے اُسے الماری میں رکھنے کے لیے الماری کی طرف چل دی۔ ضرار بیڈ سے اُٹھنے کے بعد بیڈ شیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا۔ عترت نے فٹ سے بیڈ شیٹ کو کھینچ کر لپیٹ دیا اور الماری سے نئی بیڈ شیٹ نکال کر اُسے بیڈ پر بچھانے لگی۔
ضرار بڑی سنجیدگی سے عترت کی طرف بڑھا اور اُس کے چاند سے مکھڑے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لیتے ہوئے کہنے لگا :
” عترت شادی سے پہلے آپ پاک دامن تھی جبکہ میں … کیوں کی مجھ جیسے عیاش سے شادی…؟“
”آج سے عیاشی کا دروازہ بند کر دیں۔
“ عترت نے آرام سے بول دیا۔
”یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔“ ضرار نے سنجیدگی سے بتایا۔ عترت نے فوراً بات بدلی :
”بہت بھوک لگی ہے جلدی سے غسل کر لیں۔“
”غسل …؟“ ضرار کے منہ سے نکلا۔ عترت نے لمحہ بھر سوچا پھر کہنے لگی:
” نہا لیں۔“ عترت کے دھکا لگانے پر ضرار باتھ روم چلا گیا تو عترت نے دل میں کہا :
”یقینا غسل کے فرائض بھی معلوم نہیں ہوں گے۔
“ عترت شاہ چیلنج تو قبول کر لیا تھا تم نے مگر اس بندے کو راہِ راست پر لانا بڑا مشکل کام ہے …؟“
اسی دوران ضرار نہا کر باہر نکلا اُس نے اپنی کمر پر تولیا لپیٹا ہوا تھا۔ عترت نے دیکھا تو فٹ سے کرسی سے اُس کے کپڑے اُٹھا کر اُسے پیش کرتے ہوئے کہا :
”آپ کے کپڑے…“ضرار نے کپڑے پکڑتے ہوئے کہا :
”پھر آپ…؟“ عترت نے ضرار کی بات سنی ذرا تامل کیا پھر بڑی سنجیدگی سے بولی :
”آپ سے جناب پر جا سکتی ہوں۔
تم پر واپس کبھی نہیں آؤں گی۔ میں ناشتے پر انتظار کر رہی ہوں کپڑے پہن کر باہر آ جائیں۔“
بیڈ روم سے باہر نکلتے ہی ضرار نے پوچھا :
” یہ شور کس چیز کا ہے؟“
”اوپر سلائی مشینیں چل رہی ہیں۔“
عترت نے صوفے کے سامنے میز پر پڑے ہوئے ناشتے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :
”ناشتہ“
ناشتے سے فارغ ہونے کے بعد ضرار کو خیال آیا :
” یہ کپڑے کہاں سے آئے…؟“
” ہمارے گھر سے … ساجد سے منگوا لیے تھے۔
“ عترت نے برتن اُٹھاتے ہوئے بتایا۔ ضرار کو اُس کا کام کرنا پسند نہیں آیا وہ چڑ کے بولا :
” تمھاری ملازمہ کدھر ہے۔“
”اوپر کارخانے میں لڑکیوں سے کام کروا رہی ہیں۔“ عترت نے میز کو صاف کرتے ہوئے خبر دی۔ عترت کچن کی طرف جانے لگی تو ضرار نے صوفے پر بیٹھے بیٹھے ہی پوچھ لیا :
” ہم گھر کب جائیں گے …؟“
”برتن دھو رہی ہوں آ کر بتاتی ہوں۔
“ عترت نے کچن سے آواز دی۔ چند منٹ بعد عترت صوفے پر ضرار کے سامنے بیٹھتے ہوئے بولی :
”مجھے آپ سے چند باتیں کرنی ہیں۔“ ضرار نے عترت کی بات سنی اَن سنی کر دی۔ اُس نے عترت کے گال پر ہاتھ رکھتے ہوئے بڑے رومانوی انداز میں کہا :
” چلیں بیڈ روم میں۔“ ضرار کی بات عترت کو ناگوار گزری۔ وہ کچھ کہنے لگی پھر توقف کیا اسے ضرار کو بات سمجھانے کے لیے مناسب الفاظ نہیں مل رہے تھے۔
وہ پھر بھی مسکراتے ہوئے بولی :
” ضرار میں خود بہت رومینٹک ہوں۔“ عترت کی بات مچلتے لہجے میں ضرار نے کاٹ دی :
”رات اُس کا اندازہ مجھے ہو گیا تھا۔“ ضرار نے دوسرا ہاتھ بھی عترت کے دوسرے گال پر رکھ دیا۔
” پلیز … ضرار میری بات سنجیدگی سے سن لیں۔“ اوپر کارخانے میں پندرہ سولہ جوان لڑکیاں کام کر رہی ہیں۔ دروازے کی کنڈی بھی نہیں لگی۔
آپ کچھ خیال کریں۔“ عترت نے احتجاجی لہجے میں بتایا تو ضرار سنجیدہ ہو گیا۔ عترت نے اُس کی کلائی پکڑی اور بیڈ روم میں لے جانے کے لیے اُٹھی تو ضرار ادھر ہال میں ہی اُس سے لپٹ گیا۔ اُسی وقت بی بی خانم ہال کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی۔ اُس نے یہ سب دیکھ لیا۔ عترت کی جب بی بی خانم پر نظر پڑی تو اُس نے زور لگا کر ضرار کو خود سے الگ کیا۔
بی بی خانم اُلٹے پاؤں وہاں سے چلی گئی۔ عترت شرم سے پانی پانی ہو گئی۔ عترت نے پھر بھی تحمل سے کام لیا۔ وہ ضرار کو بیڈروم میں لے آئی، بیڈ روم کا لاک لگایا۔ عترت نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا :
”بیٹھیں…“ ضرار بیٹھ گیا، دوسری کرسی پر عترت بھی بیٹھ گئی۔ عترت مناسب انداز میں بتانے لگی :
”مجھے چھچھورے لوگ پسند نہیں ہیں۔“ یہ سنتے ہی ضرار کی رنگت بدل گئی۔
اُس نے قدرے سنجیدگی سے پوچھا :
” تمھیں کیسے مرد پسند ہیں … ؟“
” میں نے لوگوں کی بات کی ہے، مردوں کی نہیں۔“ عترت نے شائستگی سے بتایا۔ اس کے باوجود ضرار نے روکھے انداز میں پوچھا :
” مرد کیسے پسند ہیں؟“ ضرار کے چہرے کے لمحہ لمحہ بدلتے خدو خال کو عترت غور سے دیکھ رہی تھی۔
” میاں جی جیسے ! “ عترت نے بتایا۔
”مطلب میں چھچھورا ہوں۔
“ ضرار نے غصے سے پوچھا۔
”میرا مطلب یہ نہیں تھا آپ غلط سمجھے ہیں۔“ عترت نے نرمی سے بتایا۔ ضرار نے تلخی سے پوچھا :
” کیا تھا تمھارا مطلب بتاؤ مجھے۔ تمھاری ملازمہ کودستک دے کر اندر آنا چاہیے تھا۔“
ضرار اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔ عترت بھی کرسی سے اُٹھ گئی، اُس نے بڑی اُلفت کے ساتھ ضرار کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا :
”آپ نے اس غصے کی وجہ سے اپنے والدین کو کھو دیا۔
یہ نہ ہو کہ میں بھی آپ کی زندگی سے چلی جاؤں۔“
” تم ! کہاں جاؤ گی۔“ ضرار عترت کو بانہوں میں دبوچتے ہوئے پاگلوں کی طرح چومنے لگا۔ عترت نے بڑی شائستگی کے ساتھ ضرار کی گرفت سے خود کو آزاد کروایا پھر اُس سے نظریں ملاتے ہوئے سنجیدگی سے کہا :
” آپ یہاں سے چلے جائیں۔ اگر ایک ہفتے کے اندر اندر آپ نے طلاق نہ بھیجی تو میں خلع کے لیے کیس دائر کر دوں گی۔“ ضرار نے کوئی جواب نہیں دیا۔ جیسے ہی اُس نے بیڈ روم کا لاک کھولا عترت بولی :
”غسل کے تین فرض اور پانچ سنتیں ہیں۔ گھر جا کے غسل یاد سے کر لیجیے گا۔“ ضرار کے جانے کے بعد عترت کرسی پر بیٹھ کر بہت دیر تک روتی رہی۔

Chapters / Baab of Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan