Episode 14 - Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan

قسط نمبر14 - زِیرک زَن - شکیل احمد چوہان

”اِن لوگوں نے قرآنِ پاک کی بے حرمتی کی ہے۔“
”سوچ کیا رہے ہو… آگے بڑھو… “
”جلا دو سب کے گھروں کو … “
”ہاں ہاں … ساری بستی کو … !!“
”نعرہٴ تکبیر … “
”اللہ اکبر … “ فضا اللہ اکبر کی صداؤں سے گونج اُٹھی سرد اور اندھیری رات میں ہر طرف شعلے تھے۔ آگ کے شعلے … کسی کا گھر جل رہا تھا اور کسی کا ایمان پختہ ہو رہا تھا… کسی کا کلیجہ جل رہا تھا اور کسی کے دل کو ٹھنڈک نصیب ہو رہی تھی۔

کہیں چیخیں تھیں اور کہیں ہونٹوں پر تبسم تھا… ایک اللہ کے دو نبیوں کے ماننے والے ایک دوسرے کو مار رہے تھے۔
چند گھنٹوں بعد ہی سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا چیخ اُٹھا … ہر چینل بڑھ چڑھ کر خبریں دے رہا تھا۔
”یہ دیکھیں سب سے پہلے یہ خبر ہم نے بریک کی ہے … “ ایک TV رپورٹر بڑے فخر سے کیمرے کی آنکھ میں آنکھیں ڈال کر بولے جا رہا تھا۔

(جاری ہے)


”آپ میرے پیچھے دیکھ سکتے ہیں ہر طرف آگ ہی آگ ہے۔ فائر برگیڈ کی گاڑیاں آگ بجھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔“ دوسری TV رپورٹر بیچاری کوئی دبلی پتلی سی خاتون تھی صحت کے معاملے میں تو اُس کا ہاتھ تنگ تھا خبروں کے معاملے میں منہ بہت کھلا تھا۔
”پولیس نے سارے علاقے کو گھیرے میں لے لیا ہے۔“ تیسرا TV رپورٹر ایک سڑک پار کرنے والے پل پر چڑھ کر اپنی بانہیں کھول کھول کر ایسے خبریں دے ہا تھا، جیسے کوئی ہیرو سوئٹزر لینڈ کی سبز پہاڑیوں پر چڑھ کر گانا گا رہا ہو۔

”اب تک کوئی حکومتی عہدے دار یہاں نہیں پہنچا“ چوتھے بڑے TVچینل کا رپورٹر بتا رہا تھا۔
”ابے کبھی تیرا مائیک خراب اور کبھی کیمرہ Rollپر نہیں ہوتا۔ ہم نے خبر گھنٹہ دینی ہے۔“ ایک رپورٹر اپنے کیمرہ مین سے اُلجھا ہوا تھا۔
###
اگلے دن کے اخباروں کی سرخیاں یہ تھیں…
”عیسیٰ نگری میں نا معلوم افراد نے آگ لگا دی۔“
”عیسائیوں کی ساری بستی جل گئی۔

”13 افراد جل کر مر گئے اور 81 زخمی ہیں۔“
”دہشت گردوں کا ایک اور بڑا حملہ“
”ہم نے کمیشن بنا دیا ہے“ (صوبائی وزیر قانون)
”جلد ہی مجرموں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے“ (وزیر اعلیٰ)
اگلے دن کا نیوز پیپر پڑھنے کے بعد تجمل احمد جلدی سے بابا تیمور کی دکان کی طرف گاڑی لے کر نکلا۔ عیسیٰ نگری کے سامنے سڑک کے دوسری طرف کی دکانیں بھی جل کر راکھ ہو چکی تھیں۔
جہاں بابا تیمور کی چائے کی دکان بھی تھی۔
”بسیط … بسیط…“ تجمل نے اپنی ایڑھیاں اُوپر اُٹھاتے ہوئے کہا۔
”کدھر جوان … دیکھ نہیں رہا … صاحب TV والوں سے بات کر رہے ہیں۔“
”وہ میرا دوست ہے۔“ تجمل نے موٹے پولیس والے سے اُلجھتے ہوئے کہا۔
”کون TV والا … ؟“
”نہیں تمھارا صاحب … ہٹو آگے سے … مجھے جانے دو۔“ تجمل نے دو پولیس والوں کے درمیان سے گزرنے کی کوشش کی۔

”کدھر جانے دو …“ دوسرا پولیس والا چٹکی بجاتے ہوئے بولا، اُس کے چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں تھیں۔
”تتربتر ہو جا … نہیں تو شبے میں اندر ڈال دوں گا۔“ موٹا پولیس والا پھر بولا۔
”میں نے تمھیں بتایا نا بسیط میرا دوست ہے۔“ تجمل نے پھرسنجیدگی سے بتایا۔ لوگ ایک دوسرے پر گر رہے تھے۔ ایک شخص پھٹی پھٹی نگاہوں سے اُن دکانوں کی طرف دیکھ رہا تھا تو دوسرا پتھرائی ہوئی آنکھوں سے …
”میری دکان نہیں جلی میرا تو نصیب ہی جل گیا ہے۔

”میں نے کون سی گستاخی کی تھی … میری دُکان میں تو قرآن مجید بھی تھے… کیا وہ بھی جل گئے ہوں گے… ؟“
تجمل کے کانوں میں یہ جانی پہچانی آوازیں پڑیں اُس نے اپنے پیچھے مڑ کر دیکھا ایک کتابوں پنسلوں والا اپنی بربادی پر ماتم کر رہا تھا اور دوسرا پنکچر لگانے والا تھا۔
”میں ہائی کورٹ کا وکیل ہوں۔… ASP بسیط تابش میرا دوست ہے … ہٹو آگے سے… “ تجمل شدید غصے سے دونوں پولیس والوں کو ہٹاتے ہوئے آگے چلا گیا۔
دونوں پولیس والوں نے حیرت سے تجمل کو بسیط کی طرف جاتے ہوئے دیکھا۔ تجمل ٹریک سوٹ پہنے ہوئے تھا اور اُس کے پاؤں میں جوگر تھے۔
”یہ بڑے لوگ سویرے سویرے اس طرح کے ہی کپڑے پہنتے ہیں “ موٹے پولیس والے نے مونچھوں والے کو بتایا۔ بسیط نے تجمل کو دیکھ کر ہاتھ ہلایا، جو پولیس والوں نے دیکھ لیا تھا۔ بسیط TV والوں سے فارغ ہو کر تجمل ہی کی طرف آ رہاتھا۔

مونچھوں والے نے موٹے پولیس والے کے پیٹ کی طرف دیکھ کر جگت لگائی :
”تیرا یہ جو ٹِڈ (پیٹ) وردی سے باہر نکل رہا ہے شکر کر نہیں نکلا… “
بسیط نے تجمل کو تسلی دیتے ہوئے گلے سے لگایا تھا۔
”کیا مطلب ہے تیرا … ؟“ موٹا پولیس والا بولا۔
”جس طرح صاحب نے اُس لڑکے کو گلے لگایا ہے جگری یار لگتے ہیں … اور جتنی بدتمیزی تو نے اُس کے ساتھ کی تھی اگر اُس نے صاحب کو بتا دیا تو نہ یہ ٹڈ رہے گا اور نہ ہی یہ وردی … “ موٹے پولیس والے نے جلدی سے اپنے پیٹ پر دونوں ہاتھ رکھے۔

#…#
”یہ دو ڈیڈ باڈیز اِن دکانوں سے ملی ہیں … تم دیکھ لو اِن میں سے بابا تیمور کی کون سی ہے “ بسیط نے قریبی ہسپتال کے مردہ خانے سے دو لاشوں کے اوپر سے کپڑا ہٹاتے ہوئے کہا۔ لاشیں کیا تھیں جلے ہوئے کوئلے تھے…تجمل نے اُن لاشوں کی طرف صرف ایک نظر ڈالی، دوسری کی اُس میں ہمت نہ تھی۔ وہ لاشیں نہیں تھیں راکھ کے ڈھیر تھے۔ جنھیں سفید چادروں سے چھپایا گیا تھا۔

تجمل کی آنکھوں میں نمی تھی وہ جلدی سے مردہ خانے سے نکل آیا۔
”شناخت تو کر لو … بابا تیمور کی باڈی کون سی ہے۔“ بسیط نے تجمل کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہا۔
”جو زیادہ جلی ہوئی ہے دائیں طرف والی…“
تجمل کی آواز میں شدید درد تھا۔
”تم کیسے اتنے یقین سے کہہ سکتے ہو …؟“ بسیط نے تفتیشی لہجے میں پوچھا۔
”بابا تیمور کے دائیں ہاتھ کی شہادت والی انگلی میں ایک چاندی کی انگوٹھی ہوا کرتی تھی، جس کے اندر نیلم جڑا ہوا تھا اُس لاش کی انگلی میں بھی جلی ہوئی انگوٹھی ہے۔

تجمل نے جواب دیا اور نم آنکھوں کے ساتھ جلدی سے مردہ خانے سے باہر نکل گیا۔
###
”تم صبح پریشان تھے اس لیے ملنے چلا آیا۔“ بسیط نے تجمل کو اپنے آنے کی وجہ بتائی۔ تجمل نے بسیط کو صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ بسیط بیٹھتے ہوئے کہنے لگا :
”مجھے بھی بابا تیمور کی موت کا بہت دکھ ہے۔“
”ڈیڈی کے انتقال کے بعد سب سے بڑا صدمہ ہے یہ میرے لیے ! کتنا کچھ سیکھا ہم نے بابا تیمور سے۔
“ تجمل نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
”گوگل سے زیادہ معلومات تھیں بابا تیمور کے پاس!“ بسیط نے اظہار خیال کیا۔
”قدسیہ پھر غائب ہو گئی نا … ؟“ تجمل نے پوچھا۔
” کسی کردار کی تلاش میں نکلی ہو گی۔“ بسیط نے کہا۔
” اُسے خبر دی اس سانحے کی!“ تجمل نے سوال کیا۔
” نمبر بند آ رہا ہے اُس کا …؟“ بسیط نے بتایا۔
”قدسیہ کی ہم دونوں سے زیادہ قربت تھی بابا تیمور کے ساتھ۔
“ تجمل نے کہا۔
”قدسیہ چار سال کی تھی جب اُس کے ڈیڈی شہید ہوئے تھے وہ کہیں نا کہیں بابا تیمور میں اپنے ڈیڈی کو ڈھونڈ رہی ہوتی ہے۔“
” اتنا جانتے ہو اُسے تو شادی کیوں نہیں کر لیتے اُس کے ساتھ!“ تجمل نے مشورہ دیا۔
” تم کر لو نا … !“ بسیط نے بھی سنجیدگی سے مشورہ دے ڈالا۔
” وہ ہم دونوں میں سے کسی کے ساتھ نہیں کرے گی۔“ تجمل نے زبردستی مسکراتے ہوئے بتایا۔

”سچ کہا … !“ بسیط فوراً مان گیا۔
” ایک اُلجھے ہوئے کیس جیسی ہے قدسیہ“تجمل نے تصور میں قدسیہ کو لاتے ہوئے کہا۔ بسیط نے لمبی سانس لیتے ہوئے اپنی رائے دی :
” ٹھیک کہا تم نے وہ چھوئی موئی، چپ چاپ سنتی رہتی ہے بولتی کچھ نہیں۔“
”بابا تیمور سے بڑے سوال کرتی تھی ! “ تجمل نے فٹ سے بتایا۔
”جانتا ہوں میں اور تم کہاں اُس کے عجیب و غریب سوالوں کے جواب دے سکتے ہیں۔
“ بسیط نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بتایا۔
” کچھ پتا چلا کس کی لگائی ہوئی آگ تھی۔ جس نے بابا تیمور کے ساتھ درجنوں لوگوں کو جلا کر راکھ کر دیا۔“ تجمل کو پھر سے بابا تیمور کی یاد ستانے لگی۔
”انتہا پسندی کی!“ بسیط نے بتایا۔
”مطلب … ؟“ تجمل نے تشویش سے پوچھا۔
” سوچ رہا ہوں یہ نوکری چھوڑ دوں! تنگ آ گیا ہوں میں یہ خون خرابہ دیکھ دیکھ کر۔
“ بسیط نے بجھے ہوئے دل کے ساتھ بتایا۔
”میں آج تک کوئی کیس ہی نہیں جیت سکا۔“ تجمل نے اپنا دکھڑا بتا دیا۔
###
”As Busy As bee“ آخر تم نے کر دکھایا۔ Well Don قدسیہ “ کرنل صاحب نے ساؤنڈ پروف کمرے میں داخل ہوتے ہوئے کہا۔ قدسیہ اپنی جگہ سے اُٹھتے ہوئے بولی :
”سر ! سچ کہوں تو میں زیادہ Excited نہیں ہوں۔“ کرنل صاحب نے ایک لمبی سانس بھری پھر کہنے لگے :
”I Know جانی نقصان بہت ہوا ہے۔

”کچھ بتایا انھوں نے“ قدسیہ نے شیشے کے دوسری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
”As Deep As Well“ کرنل صاحب نے بھی اُسی سمت دیکھتے ہوئے کہا تھا۔ پھر شیشے کے پاس جا کر بتانے لگے :
کہتا ہے سر! میں سب کچھ سچ سچ بتا دوں گا۔ مگر اُس آدمی سے ملنے کے بعد جس کی وجہ سے آپ مجھ تک پہنچے۔“ کرنل صاحب کی بات سنتے ہی قدسیہ کمرے سے باہر نکل گئی۔ کرنل صاحب بھی بڑی پھرتی سے شیشے کے سامنے پڑی کرسیوں اور میز کی طرف لوٹے۔
کرسی پر بیٹھتے ہی انھوں نے میز پر پڑا ہوا ہیڈ فون کانوں پر لگا لیا۔
قدسیہ شیشے کے اُس پار کمرے میں داخل ہوئی۔ بابا تیمور اُسے دیکھتے ہی کھل کھلا کر ہنسنے لگے پھر یک دم سنجیدگی کے ساتھ کہنے لگے :
”بیٹی مجھے کبھی کبھی تم پر شک ہوتا تھا ! “ قدسیہ کرسی لے کر بابا تیمور کے سامنے میز کے دوسری طرف بیٹھ گئی۔ بابا تیمور لوہے کی مضبوط کرسی کے ساتھ ہتھکڑیوں اور اسٹیل کی بیڑیوں سے جکڑے ہوئے تھے۔

” تمھیں مجھ پر شک کیسے ہوا … ؟“ بابا تیمور نے فٹ سے اپنے مطلب کی بات پوچھ لی۔ قدسیہ کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آ گئی وہ ضبط کرتے ہوئے بولی :
”بابا جی ! باہر سے اتنے حلیم اور اندر سے کتنے سفاک ہیں آپ!“ قدسیہ کی بات پر بابا تیمور مسکرائے پھر کہنے لگے :
”جنگ میں خون ہی تو بہتا ہے۔“
”ہم نے آپ کے خلاف کوئی جنگ نہیں چھیڑی!“ قدسیہ نے دھیمے لہجے میں بتایا۔

”پونی صدی گزر جانے کے باوجود کسی کے وجود کو تسلیم نہ کرنا جنگ ہی تو ہے۔“ بابا تیمور کی بات سننے کے بعد قدسیہ نے اس پر لمحہ بھر غور کیا پھر کہنے لگی :
”آپ اسرائیل سے ہیں…؟“ بابا تیمور سر نفی میں ہلاتے ہوئے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ بتایا :
”نہیں… اسرائیل ! مجھ جیسے جانثاروں سے ہے۔“
”آپ اتنے آرام سے کیسے مان گئے… ؟“ قدسیہ کے پوچھنے پر بابا تیمور مسکرائے پھر پوچھا :
”اب تو شہادت ہی میرا مقدر ہے۔
کیوں خواہ مخواہ اللہ کے بنائے ہوئے جسم پر تشدد کرواؤں…؟“
”اللہ … ؟“ قدسیہ نے سوالیہ انداز میں پوچھا۔
”ہم مسلمانوں سے زیادہ توحید پرست ہیں۔“ بابا تیمور نے بڑے فخر سے بتایا۔ قدسیہ نے اتنی ہی نفرت سے تیمور کی طرف دیکھا پھر لفظ چباتے ہوئے بولی :
” حضرت محمدﷺ کو نا ماننا اُن کی شان میں گستاخی ہے۔“
” میں گستاخ نہیں ہوں۔
محمدﷺ کی گستاخی تو حرامی کرتے ہیں۔“ تیمور نے سنجیدگی سے بتایا۔
” حرامی … ؟“
”قدسیہ بیٹی ! “ تیمور کے بولتے ہی قدسیہ نے اُس کی بات کاٹتے ہوئے کہا :
”تم مجھے بیٹی مت کہو۔“ تیمور مسکرایا پھر دکھی لہجے میں کہنے لگا :
”تم…؟ خیر… اگر میری بیٹی میرے پاس صلی اللہ علیہ وسلم ہوتی تو وہ بھی یقینا اتنا ادب نہ کرتی جتنا تم نے کیا ہے۔

”تھا…“ قدسیہ نے یک لخت بتایا۔
” افسوس اب بھی اس ملک میں کروڑوں مومن ہیں۔ جو اپنے ہر رشتے سے زیادہ محمدﷺ کو محبوب رکھتے ہیں۔“
” محمدﷺ کا اتنا ادب کرتے ہو تو اُن پر ایمان کیوں نہیں لے آتے…؟“قدسیہ نے شائستگی سے پوچھا۔ تیمور نے ہلکا سا قہقہہ لگایا پھر بولا :
”میں نے کہا نا محمدﷺ کی بے ادبی صرف حرامی کرتے ہیں۔ میں تو خداوند کے کرم سے حلالی ہوں۔

”حرامی سے کیا مراد ہے تمھاری … ؟“ قدسیہ نے جانچتی نظروں کے ساتھ پوچھا۔ تیمور نے بھی غور سے قدسیہ کے چہرے کا جائزہ لیا پھر کہنے لگا :
”بے حیائی سے زنا عام ہوتا ہے۔ زنا کے نتیجے میں پیدا ہونے والے بچے بڑے ہو کر محمدﷺ کے گستاخ بنتے ہیں۔“
”بے حیائی … تونہیں ہے، ہمارے ملک میں !“ قدسیہ نے معصومیت سے کہا۔
”بھولی بھالی، گڑیا جیسی، نازک سی بچی، اندر سے اتنی ذہین ہو گی مجھے کبھی اندازہ ہی نہیں ہوا۔
تمھارا کمال یہ ہے کہ تم انجان بن کر سب کچھ جان لیتی ہو۔“
”بے حیائی پر بات ہو رہی تھی…“ قدسیہ نے یاد کرایا۔
”باتیں ہی تو تمھاری قوم بھول جاتی ہے۔ قرآن میں کھلے لفظوں میں سب کچھ ہمارے بارے میں لکھا ہوا ہے۔ چلو بے حیائی کا بھی بتا دیتا ہوں۔ ہم عورتوں کے ذہن میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ اسلام نے تمھیں مرد کے برابر حقوق نہیں دیے ، پھر وہ پلے کارڈ لے کر سڑکوں پر اپنے حقوق لینے کے لیے نکل پڑتی ہیں۔

” کیسے ڈالتے ہیں یہ باتیں … ؟“ قدسیہ نے سوال کیا۔
”پاکستان کے ہر شعبے سے ہمیں چند لوگ کرائے پر میسر آ ہی جاتے ہیں۔“
”شعبے مطلب … ؟“ قدسیہ کا اگلا سوال تھا۔
”میڈیا والے، سیاست دان، فوجی، جج، پولیس والے، خواتین کے حقوق کی جنگ لڑنے والیاں اور مولوی !“
”مولوی بھی ! “ قدسیہ نے حیرت سے کہا۔
”مولوی انتہائی غربت کے باوجود پیسوں پر نہیں بکتا اُس نادان کو ہم دین کی سر بلندی کے لیے خرید لیتے ہیں۔
“ تیمور نے بتایا۔
”دین کی سر بلندی … ؟“ قدسیہ کے منہ سے نکلا۔
”ہم ! پاکستان میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو فرقے کی شکل دینے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ مولوی، پیر اور ذاکر اپنے فرقے کو ہی اصل دین سمجھ بیٹھا ہے۔“ قدسیہ بڑے تحمل سے تیمور کی بات کاٹتے ہوئے بولی :
” تم کتنے آرام سے سب کچھ اگلتے جا رہے ہو۔“ تیمور نے آنکھیں بند کرتے ہوئے بڑے ادب کے ساتھ قرآن پاک کی ایک آیت پڑھی :
﴿ وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعاً وَّلاَ تَفَرَّقُوْا ﴾ ( آل عمران : ۱۰۳ )
قدسیہ نے تیمور کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
تیمور آنکھیں کھولتے ہوئے بولا :
”اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔ “ اس آیت کا ترجمہ ہے۔ جو قوم قرآن پڑھ کر نہ جاگ سکی۔ وہ میرے (Confession) سے کیا جاگے گی۔“ تیمور کے لہجے میں طنز تھا۔ قدسیہ سوچ میں پڑ گئی۔ تیمور غور سے اُسے دیکھتے ہوئے کہنے لگا :
”تم اپنے سینئرز سے سوالات کی لسٹ لے آتی تو ہم دونوں کا وقت بچ جاتا۔

”وقت تو تمھارا ختم ہو گیا ہے۔“ قدسیہ نے سنجیدگی سے بتایا۔
” ارے نہیں… میں تو اپنے وقت سے دس سال زیادہ جی چکا ہوں۔“ تیمور نے فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ بتایا۔
” مطلب … ؟“
”مطلب یہ 1985میں پاکستان میں پچیس سالہ منصوبے کے تحت داخل ہوا تھا۔“
”کہاں سے آئے تھے تم … ؟ اور کیسا منصوبہ … ؟“ قدسیہ نے فٹ سے دو سوال ایک ساتھ پوچھ لیے۔

”میں ایرانی نژاد یہودی ہوں۔ میری عمر اٹھارہ سال تھی جب میں مصر گیا، وہاں، جامعة الازہر میں پڑھتا رہا پھر وہاں سے غیر قانونی طور پر اسرائیل چلا گیا اسرائیل میں پانچ سال ٹریننگ لی۔ وہاں سے پھر مصر واپس آیا۔ مصر سے واپس ایران، ایران آ کر میں نے شیعہ مسلک اختیار کرتے ہوئے ایک مدرسے میں داخلہ لے لیا۔ وہاں سے فارغ ہوا تو میں نے ایرانیوں سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ مجھے پاکستان بھیج دیں تاکہ میں وہاں جا کر اپنے مسلک کا پرچار کر سکوں۔
انھوں نے فٹ سے میری بات مان لی۔ مجھے غیر قانونی طریقے سے کراچی پہنچا دیا۔ یہاں پر میرے جیسوں کے لیے حالات بڑے ساز گار تھے۔ سعودیہ پاکستان کی زمین پر اپنے مسلک کی فصل اُگانا چاہتا تھا اور ایران اپنے مسلک کی۔ میں نے ذاکر بن کے دس سال اہل تشیع کو اہل سنت کیخلاف خوب بھڑکایا۔ پھر میں کراچی سے جہلم چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر میں نے مولانا بن کر وہی کام کیا مگر اس بار میرا نشانہ اہل تشیع تھے۔
20سالہ مشقت کے بعد میں نے سوچا اب تھوڑی خدمت بھی کروانی چاہیے پھر میں ملتان جا کر پیر بن گیا اور دس سال پیری کے خوب مزے لوٹے۔ پچھلے پانچ سال تمھارے سامنے ہی ہیں۔“
تیمور کے چپ کرتے ہی قدسیہ نے فٹ سے بتایا :
” پھر لاہور میں تم مذہبی اسکالر بن گئے۔“
” مذہبی اسکالر بننے کا میرا فیصلہ غلط تھا۔“ تیمور نے مزے سے بتایا۔
”پینتیس سال اپنی زندگی کے پاکستان میں برباد کر دیے تم نے…!“ قدسیہ نے حقارت سے کہا۔

”کافر کے لیے اُس کا کفر… مسلمان کے لیے اُس کا دین … میرے لیے میری قوم … میں نے اپنی قوم کو دنیا میں مقام دلانے کی کوشش کی ہے۔“ تیمور نے بڑے فخر سے بتایا۔
” تمھارے کواٹر سے جن دو لوگوں کی لاشیں ملی ہیں وہ تمھارے ساتھی تھے کیا …؟“
”مہرے تھے ساتھی نہیں…؟“ تیمور نے معنی خیز مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
” مہرے اور ساتھی میں کیا فرق ہوتا ہے … ؟“ قدسیہ نے بھولی صورت کے ساتھ پوچھا۔
تیمور مسکراتے ہوئے کہنے لگا :
”پھر وہی طریقہ واردات۔ خیر بتا دیتا ہوں۔ ساتھی اپنی قوم کے ہوتے ہیں اور مہرے دوسری قوم سے۔ میری قوم کے لوگ کسی کے مہرے نہیں بنتے… ہمارے ہاتھوں میں تو ساری قوموں کی ڈوریاں ہیں۔ ہم تو سب کو کٹھ پتلیوں کی طرح نچا رہے ہیں۔“
” عیسیٰ نگری اور رحمان پورہ میں دنگے کیسے کروائے…؟“ قدسیہ نے تیمور کی بات کاٹتے ہوئے سوال کیا۔

” پیسے کے زور پر … تمھیں یاد ہوں گے … وہ دو آدمی جو اُس دن دودھ ختم ہونے کے بعد چائے پینے کے لیے آئے تھے۔“ قدسیہ نے اپنے ذہن پر زور دیا پھر بولی :
”جنھیں تم نے کہا تھا۔ دودھ ختم ہو گیا ہے۔“
”ہاں وہی … !“ تیمور نے کہا۔
” او مائی گاڈ…“ قدسیہ نے اپنا سرپکڑ لیا تھا۔
”بیٹی ! اب جلی ہوئی لاشیں تو زندہ ہونے سے رہیں۔“
”مت کہو مجھے بیٹی ! “ قدسیہ میز پر ہاتھ مارتے ہوئے چلائی۔
تیمور سفاکی کے ساتھ قہقہے لگانے لگا۔ قدسیہ نے اُسے کھا جانے والی نظروں کے ساتھ دیکھاپھر غصے سے بولی :
”پھر کیا ہواتھا…؟“
”ایسے نہیں… ایسے میں کچھ نہیں بتاؤں گا۔“ تیمور نے کمینی مسکراہٹ چہرے پر لاتے ہوئے کہا۔
قدسیہ نے ایک بھرپور ایک ٹھنڈی سانس لی پھر اپنے اوسان کو قابو میں کرتے ہوئے اگلا سوال کیا :
” وہ دو آدمی کون تھے۔

” پاکستانی ہی تھے ایک مسلمان اور دوسرا عیسائی۔ دونوں بے روز گار تھے۔ عیسائی کو میں نے لاکھوں روپے عیسیٰ نگری میں قرآن پاک کی بے حرمتی کے لیے دئیے تھے۔ مسلمان کو اُس بے حرمتی کے بعد عیسیٰ نگری میں آگ لگوانے کے لیے۔ جب انھوں نے یہ کام کر دیا تو وہ دونوں میری دکان پر آئے۔ میں نے انھیں اپنی انگوٹھی اور پشاور کا پتہ دیتے ہوئے کہا : ”تم دونوں یہاں آرام سے سو جاؤ۔
کل صبح دکان کو تالا لگا دینا۔ کوئی میرا کوئی پوچھے تو بتا دینا کہ پشاور گئے ہیں۔ پندرہ بیس دن بعد مجھے اس پتے پر آ کر ملنا۔ انگوٹھی دکھانے پر ہی میرے ساتھ ملاقات ہو سکتی ہے۔ اس لیے انگوٹھی سنبھال لو۔“ مسلمان نے اُسی وقت میری دی ہوئی انگوٹھی پہن لی۔ میں دکان سے باہر نکلا سڑک کے اُس پار عیسیٰ نگری میں آگ لگی ہوئی تھی۔ میں نے ارد گرد کا جائزہ لیا۔
سب اسی طرف بھاگ رہے تھے۔ میں نے موقع پا کر دکان والی مارکیٹ کو بھی آگ لگا دی۔ میں آگ لگا کر وہاں سے کھسکنے ہی لگا تھا کہ ملنگ نے مجھے دبوچ لیا۔ دبوچتے ہی اُس نے مجھے بے ہوش کر دیا، ہوش آئی تو میں یہاں تھا۔“
”میں نے ملنگ کو تم پر نظر رکھنے کے لیے وہاں بٹھایا تھا۔“ قدسیہ نے آگاہ کیا۔
”ملنگ پر تو مجھے پہلے ہی دن سے شک تھا تم پر نہیں۔
جب تم نے ملنگ کو پھل خرید کر دیے تب مجھے یقین ہوگیا تھا کہ اب مجھے یہاں سے نکل جانا چاہیے۔ مہینوں سے جس منصوبے پر کام کر رہا تھا میں نے اُسے پورا کرنے کے لیے اپنے مہروں کو فون کر دیا۔“
”پشاور جا کر تم کیا کرنا چاہتے تھے…؟“ قدسیہ نے ٹٹولتی نظروں کے ساتھ پوچھا۔ تیمور مسکرا دیا۔ پھر لمحہ بھر سوچنے کے بعد بولا :
”جو کام ادھورے رہ جائیں اُن کا ذکر نہیں کرتے۔

”پشاور میں کون تمھارے ساتھی ہیں…؟“ قدسیہ نے اگلا سوال پوچھا۔ تیمور پورے چہرے کے ساتھ مسکرایا پھر گویا ہوا :
”میں نے پہلے بھی بتایا ہے، ساتھی تو اپنے ہوتے ہیں۔ میری قوم انمول ہے۔ مول تو ہم دوسری قوموں کا لگاتے ہیں۔ ان چھوٹے موٹے کاموں کے لیے ہم اپنے ساتھی ساتھ نہیں لاتے یہ تو مہروں کا کام ہے۔“
”تم بھی تومہرہ ہی ہو…!“ قدسیہ نے تیکھے لہجے میں بتایا۔
تیمور کھل کھلا کر ہنسنے لگا اُس کے بعد بڑے تفاخر سے بولا :
”ساری زندگی حکم دیے ہیں میں نے۔ جس دن اسرائیل سے ٹریننگ لے کر نکلا تھا۔ اُس کے بعد کبھی اُن سے رابطہ نہیں رکھا۔“ قدسیہ یہ سننے کے بعد سوچنے لگی۔
”سوال ختم ہو گئے کیا … ؟“ تیمور نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔
”ابھی شروع ہی کہاں ہوئے ہیں۔“ قدسیہ نے سنجیدگی سے بتایا۔
” جو میں نے جواب دیے وہ … ؟“ تیمور نے قدرے خفگی سے کہا۔
اس بار قدسیہ نے ہلکا سا قہقہہ لگایا پھر بولی :
” وہ سوال تو میں نے ناول لکھنے کے لیے پوچھے تھے۔“
”قوموں کو عروج مجھ جیسے جانثاروں کی وجہ سے ملتا ہے تمھارے جیسے مصنّفین کی وجہ سے نہیں۔“ تیمور نے بڑے متکبرانہ انداز میں کہا۔
”جانثاروں کی تاریخ کون لکھتا ہے … ؟“ قدسیہ کے پوچھنے پر تیمور نے چونک کر اُس کی طرف دیکھا قدسیہ بڑے انداز سے اپنی گردن کو ہلکی سے جنبش دیتے ہوئے کہنے لگی :
”ہم ہاتھی کو چیونٹی اور چیونٹی کو ہاتھی لکھ دیں تو وہ تاریخ بن جاتی ہے۔

” کیا مجھ پر کہانی لکھو گی … ؟“ تیمور نے جلدی سے پوچھا۔
”ابھی تمھاری کہانی مکمل ہی کب ہوئی ہے۔“ قدسیہ نے بڑی سنجیدگی سے بتایا۔
”کیا مطلب … ؟“ تیمور کو تھوڑی فکر لاحق ہوئی۔
” اب تک تمھاری زندگی میں چین ہی چین تھا۔ بے چینی تو اب شروع ہو گی۔ کہانی شروع کرنا آسان ہے اور ختم کرنا مشکل، اگر کہانی کار کی اپنی کہانی ہی ختم نہ ہو جائے تو وہ کبھی نہ کبھی کہانی ختم کر ہی لیتا ہے۔
تم تو وہ بھی نہیں کر سکتے۔“
” کیا کہانی کہانی لگا رکھی ہے… ؟‘ ‘ تیمور نے بوکھلائے ہوئے انداز میں کہا۔ قدسیہ کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ دیکھ کر تیمور چڑتے ہوئے بولا :
”اب میں تمھارے کسی سوال کا جواب نہیں دوں گا۔“
”ٹھیک ہے … پھر میں چلتی ہوں…؟“ جیسے ہی قدسیہ نے یہ کہا تیمور نے خوف زدہ ہوتے ہوئے فٹ سے کہا :
” رکو … “
”بولو…!“
”مجھ پر شک کیسے ہوا …؟“ قدسیہ نے تیمور کو جواب دینے کی بجائے سوال پوچھ لیا :
”پاکستان میں شادیاں کتنی کی تم نے …؟“
”سات…“ تیمور نے فوراً بتایا۔

” اور بچے کتنے ہیں …؟“
”نو…نہیں دس ! پتہ نہیں کتنے ہیں…!“
” کیا مطلب … ؟“ قدسیہ کے سوال پر تیمور نے دھیان ہی نہیں دیا۔ وہ ماضی میں کھویا ہوا تھا۔ قدسیہ نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا :
” کبھی اپنے بچوں کے بارے میں سوچا ہے تم نے ؟“ جیسے ہی قدسیہ نے یہ سوال کیا۔ تیمور کا سارا خوف دور ہو گیا۔ وہ گھنٹہ بھر پہلے والا تیمور بن گیا۔
اعتماد سے بھر پور۔ وہ اُسی اعتماد کے ساتھ کہنے لگا :
” میرے بچوں کے بارے میں تم سوچو … وہ ہیں تو پاکستانی مگر اُن کی رگوں میں ایک یہودی کا خون ہے۔ میرے دس بچے حلالی ہیں۔ حرامیوں کی گنتی میں کر نہیں سکا۔“ قدسیہ یہ سنتے ہی کرسی سے کھڑی ہو گئی۔
تیمور نے فاتحانہ انداز میں کہا :
”میرے سوال کا جواب تو دیتی جاؤ۔“
”جواب !“ قدسیہ نے تیمور سے نظریں ملاتے ہوئے کہا تھا۔

”میں سمجھا نہیں۔“ تیمور نے لاعلمی ظاہر کر دی۔ قدسیہ میز پر اپنے دونوں ہاتھ رکھتے ہوئے تیمور کے قریب ہو کر کہنے لگی :
”تمھارے پاس پاکستان سے متعلق میرے ہر سوال کا جواب ہوتا تھا۔“ تیمور نے آنکھیں بند کرتے ہوئے سوچا پھر اُس نے فلک شگاف قہقہہ لگایا۔ اُس کی آواز سے وہ کمرہ گونج اُٹھا۔ وہ پوری گھن گرج کے ساتھ کہنے لگا :
” تم پاکستانی ڈرو اُس وقت سے جب میرے بچے اس ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔
“ قدسیہ بھی ہلکا سا قہقہہ لگاتے ہوئے بولی :
”تیمور صاحب ! میں آہٹ ہوں۔ دھماکہ تو ابھی باقی ہے۔“ قدسیہ نے شیشے کی طرف خود کو ہی دیکھتے ہوئے کہا :
” سر ! اِس کو دھماکے والوں کا ذرا ٹریلر تو دکھائیں۔“
سامنے دیوار پر لگی ہوئی Lcdپر ایک ڈھائی منٹ کا Silentٹریلر دیکھنے کے بعد تیمور کی کرسی کے نیچے فرش گیلا ہو گیا۔ قدسیہ نے فرش پر نظر ڈالی پھر وہاں سے چل دی۔
قدسیہ کے دروازے کے پاس پہنچتے ہی دروازہ کھل گیا۔ وہ پلٹی اور بڑے معنی خیز انداز میں بولی :
”پتہ ہے تم نے پاکستان میں پینتیس سال کیوں نکال لیے … ؟ کیونکہ تم نے مذہبی چولا پہن رکھا تھا۔ ایک بار تم نے ہی کہا تھا مذہبی چولا پہننے والوں سے برہنہ رنڈی بہتر ہے۔“ تیمور کا رنگ فق ہو گیا۔ قدسیہ دوبارہ بڑے تفاخر سے کہنے لگی :
”اب ”مارخور“ کے جانثار آئیں گے اور مجھے فخر ہے کہ میں اُن کی ساتھی ہوں۔“

Chapters / Baab of Zeerak Zann By Shakeel Ahmed Chohan