ہمارا معاشرہ بڑا ہی ظالم ہے، انسپکٹر بچی کو اغواء کر کے لے گیا اور پولیس اپنے پیٹی بند بھائی کو بچانے میں لگی ہوئی ہے چیف جسٹس کے ریمارکس،سپریم کورٹ کی ڈی پی او شیخوپورہ کو انسپکٹر کیخلاف مقدمہ درج کرنے اور 2 نومبر کو عدالت میں پیش کرنے کی ہدایت

جمعرات 19 اکتوبر 2006 17:56

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین19اکتوبر2006) چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے تین مختلف مقدمات میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں دو بندے اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں ایک زخمی ہوا اس کی صحیح انکوائری نہیں ہو رہی ہے معاملہ ابھی تک تفتیش میں الجھا ہوا ہے ہمارے معاشرے میں والدین اولاد کے ہاتھوں مجبور ہوتے ہیں اور اپنی اولاد کے گناہوں پر ہمیشہ پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں یہ معاشرہ بڑا ہی ظالم ہے پولیس انسپکٹر بچی کو اغواء کر کے لے گیا ہے پولیس اپنے پیٹی بند بھائی کو بچانے میں لگی ہوئی ہے اور ابھی تک اس کیخلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے پولیس انسپکٹر جاوید قریشی کو دو نومبر کو عدالت میں پیش کیا جائے۔

انہو ں نے یہ ریمارکس فیصل آباد کی رہائشی ڈاکٹر بشریٰ کے خاوند اور بیٹے کے قاتل گرفتار نہ کرنے کے مقدمے اور شیخوپورہ سے نیلم کے اغواء کیس کی سماعت کے دوران ادا کئے۔

(جاری ہے)

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور جسٹس محمد نواز عباسی نے جمعرات کے روز مقدمے کی سماعت کی چیف جسٹس آف پاکستان نے فیصل آباد کی رہائشی ڈاکٹر بشریٰ کے خاوند اور بیٹے کے قاتلوں کیخلاف کوئی کارروائی نہ ہونے پر ا انتہائی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پولیس افسران ابھی تک اس کے قاتلوں کیخلاف کوئی بھی کارروائی کرنے سے گریزاں ہیں اور خاص دلچسپی نہیں لے رہے ہیں کیونکہ وہ نہیں چاہتے کہ ملزمان کو گرفتار کیا جائے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جن رل پنجاب چوہدری محمد حسین کی رپورٹ کو انہوں نے ناکافی قرار دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی پنجاب کو جب ہم نے کہا تھا کہ ان پولیس افسران کا تعین کرے جنہوں نے ابھی تک ملزمان کیخلاف کارروائی نہیں کی ہے تو اس کے بارے میں ہمیں کیوں نہیں بتا رہے ہیں نئے ایس پی فیصل آباد نے عدالت کو بتایا کہ اس کی تعیناتی کو چار دن ہوئے ہیں اور انہوں نے موبائل فونز کا ڈیٹا اور ملزموں کے خاکے حاصل کر لئے ہیں اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اے اے جی پنجاب ہمیں بتائیں کہ آئی جی کا جواب کہاں ہے اس پر اے اے جی نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے آئی جی کے ساتھ رابطہ کرنے کی کوشش کی تھی تاہم وہ وزیر اعظم کے ساتھ تھے اس لئے رابطہ نہیں ہو سکا اس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت عظمیٰ میں پیش ہو کر کہا کہ اب معاملہ مجھے دے دیں اور چند دن دیں انکوائری ٹیم مقرر کی جا چکی ہے اس پر عدالت عظمیٰ نے ایڈووکیٹ جنرل کی درخواست پر سماعت 30 اکتوبر تک ملتوی کر دی ہے جبکہ ایک دوسرے مقدمے میں سردار علی کی درخواست پر ایس پی عامر مسعود نے عدالت کو بتایا کہ لڑکی ماریہ بی بی برآمد ہو چکی ہے وہ خود ہی گئی تھی ایدھی سنٹر میں تھی وہ خود ہی گھر سے ناراض ہو کر گئی تھی عدالت نے سردار علی کی درخواست نمٹا دی جبکہ شیخوپورہ سے اغواء ہونے والی نیلم کے مقدمے میں ڈی پی او شیخوپورہ ڈاکٹر شفیق پیش ہوا کہ مذکورہ لڑکی کو اس کے والد نے خود ہی انسپکٹر کو دے دیا تھا وہ اس کی پرورش کرے گا اور بعدازاں اس کی شادی بھی کرے گا والد لڑکی کو ملنے جاتا بھی رہا لیکن بعدازاں انسپکٹر جاوید قریشی نے اس لڑکی سے والد کو ملانے سے انکار کر دیا اس پر چیف جسٹس نے ڈی پی او شیخوپور ہ کو ہدایت کی ہے کہ وہ خود مذکورہ انسپکٹر کیخلاف شیخوپورہ میں مقدمہ درج کر کے آئی جی کے مشورہ سے اس کیخلاف کارروائی کرے اور مذکورہ انسپکٹر کو دو نومبر کو عدالت میں پیش کیا جائے۔