پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر بات چیت کاسلسلہ آگے بڑھنا چاہئے۔ صدر مشرف، ہماراایٹم بم شیعہ یا سنی بم نہیں پاکستان بم ہے‘ڈاکٹر قدیر کے حوالے سے کوئی دباؤ نہیں‘ تحفظ حقوق نسواں پر مشاورت جاری ہے قانون بنا کر فوری طور پراسے منظور کرانا آسان نہیں ہوتا‘نجی ٹیلی ویژن کو انٹرویو

پیر 23 اکتوبر 2006 14:25

اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبار تازہ ترین23اکتوبر2006) صدر جنرل پرویز مشرف نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے درمیان کشمیر کے مسئلے پر بات چیت جاری ہے دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہئے- پاکستان کاایٹم بم شیعہ یا سنی بم نہیں بلکہ پاکستان بم ہے جسے ہم نے اپنے دفاع کیلئے تیار کیا ہے-ڈاکٹر قدیر کے حوالے سے پاکستان پر کوئی دباؤ نہیں ہے پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت موجود نہیں- تحفظ حقوق نسواں پر مشاورت جاری ہے قانون بنا کر فوری طور پراسے منظور کرانا آسان نہیں ہوتا-یہ باتیں انہوں نے ایک نجی ٹیلی ویژن کو دیئے گئے انٹرویو میں کہیں-صدر مشرف نے کہا کہ القاعدہ کے رہنماء اسامہ بن لادن اور ملا عمر کی تلاش آسان کام نہیں کیونکہ وہ جس علاقے میں چھپے ہوئے ہیں وہ سارا پہاڑی علاقہ ہے اور وہاں پر سڑک بھی نہیں ہے- خاص طور پر ایسی صورتحال میں ان کی تلاش اور بھی مشکل ہے جب علاقے کے لوگوں کی ہمدردیاں بھی ان کے ساتھ ہوں-صدر نے کہاکہ جب میں نے اقتدار سنبھالا تو ابتداء میں بہت مشکلات کا سامنا رہا میں نے سول انتظامیہ اور جمہوریت کو آہستہ آہستہ مضبوط کرنے کا کام شروع کیا-مشکلات کے باوجود آج ملک میں جمہوریت قائم ہے تاہم اس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے انہوں نے کہا کہ پہلی سیڑھی سے براہ راست آخری منزل تک چھلانگ لگا کر نہیں پہنچا جا سکتاایسا کریں گے تو گر جائیں گے اوپر جانے کیلئے مرحلہ وار طریقے سے سفر کرنا پڑتا ہے -صدر پرویز مشرف نے پاک بھارت تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ کشمیر کے مسئلے پر بات چیت جاری ہے جو نہایت خوش آئند بات ہے انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے دونوں ممالک کے مشترکہ اعلامیوں میں مثبت طرز عمل کا اظہار کیا گیا ہے اس سلسلے کو آگے بڑھنا چاہئے صدر نے کہاکہ دونوں ممالک کو ایک دوسرے کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز کرنا چاہئے بھارت پہلے اپنے ملک کے معاملات ٹھیک کرے پھر پاکستان کی بات کرے کیونکہ وہاں پر 21 مقامات ایسے ہیں جہاں سرکشی جاری ہے اور کشمیر کے علاوہ آسام کی صورتحال بھی سامنے ہے-صدر پرویز مشرف نے پاکستان کی ایٹمی قوت کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ یہ کوئی شیعہ یا سنی بم نہیں ہے بلکہ یہ پاکستان بم ہے جسے ہم نے ملک کے دفاع کیلئے تیار کیا ہے انہوں نے واضح کیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حوالے سے پاکستان پر کسی قسم کا بیرونی دباؤ نہیں ہے کیونکہ ہمارا اس حوالے سے موقف بالکل واضح ہے دباؤ اس پر ہو گا جو حقائق چھپانے کی کوشش کر رہا ہو- اگر کسی کو کوئی معلومات درکار ہے یا اس کے پاس نئی معلومات ہیں تو وہ پہلے ہمارے ساتھ بات کرے ہم اس کا جائزہ لیں گے-حکومتی پالیسیوں کا ذکر کرتے ہوئے صدر پرویز مشرف نے کہاکہ ہم نے خواتین کو ان کے حقوق مہیا کئے ہیں اور انہیں آزادی دی ہے کہ اسمبلیوں میں اپنے حقوق کے لیے لڑیں اور اپنا مقام بنائیں- صدر نے کہاکہ یہ بات خوش آئند ہے کہ تعلیمی اداروں میں لڑکیاں لڑکوں کی نسبت اچھی کارکردگی دکھا رہی ہیں وہ دن دور نہیں جب پاکستان میں لڑکیاں اور لڑکے برابر ہوں گے- ایک سوال کے جواب میں صدر مشرف نے کہاکہ تحفظ حقوق نسواں بل حوالے سے مشاورت ہو رہی ہے کوئی قانون بنا کر اسے فوری منظور کرانا آسان بات نہیں ہے بل میں زنا بالرضا اور زنا بالجبر کے کے معاملات کو حل کیا جانا ضروری ہے اس حوالے سے خواتین کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے جس کا حل ضروری ہے-انہوں نے کہا کہ حقیقی جمہوریت پہلے سیاسی جماعت میں اور بعد میں ملک و قوم میں لائی جاتی ہے لیکن یہ بات قابل افسوس ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جمہوریت موجود نہیں- انہوں نے کہاکہ نئی سیاست جماعت کا قیام آسان بات نہیں سیاسی جماعت ہمیشہ وہی رہا کرتی ہے لیکن لوگ بدلتے رہتے ہیں-اور جماعت کامطلب یہ بھی نہیں کہ ایک ہی شخصیت اس کی سربراہ رہے اور اس کے جانے کے بعد اس کا بھائی یا بیٹا آ جائے-پارٹی کو اپنے سربراہ کے انتخاب کا اختیار ہونا چاہئے-صدر نے کہا کہ جب بھی ملک میں مارشل لاء کا نفاذ ہوتا ہے تو ایک چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر بن جاتا ہے اور صوبوں سے لیکر ضلع کی سطح تک فوجی افسران کو انتظام دیدیا جاتا ہے اس معاملے پر میں نے کور کمانڈرز کانفرنس میں تفصیل سے بحث کی کیونکہ یہ مناسب طریقہ کار نہیں ہے بلکہ سول انتظامیہ کو اوپر لاکر اسے مضبوط بنایا جانا چاہئے-