صدر مشرف کے موجودہ اسمبلیوں سے دوبارہ انتخاب کو ہر صورت روکیں گے، مولانا فضل الرحمن،موجودہ حکومت کی ناکام سفارتکاری کی وجہ سے عالمی برادری میں ہم تنہا ہو چکے ہیں، مغرب زدہ این جی اوز کے ذریعے پاکستانی معاشرے میں مذہبی اور تہذیبی تضادات کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی، قائد حزب اختلاف کا تقریب سے خطاب اور صحافیوں سے گفتگو

ہفتہ 20 جنوری 2007 21:44

پشاور (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔20جنوری۔2007ء) قائد حزب اختلاف مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ اپوزیشن صدر جنرل پرویزمشرف کے موجودہ اسمبلیوں سے دوبارہ انتخاب کو ہر صورت روکے گی اور وہ اپنے عزم میں کامیاب رہے گی اس سلسلے میں اپوزیشن جلد کوئی متفق لائحہ عمل طے کرے گی، موجودہ حکومت کی ناکام سفارتکاری کی وجہ سے ہم عالمی برادری میں تنہا ہو چکے ہیں، مسلمانوں نے کسی پر حملہ نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، کشمیر، فلسطین، افغانستان، لبنان اورعراق میں مسلمانوں پر حملے ہو رہے ہیں۔

قذافی فاؤنڈیشن سمیت اسلامی دنیا کی این جی اوز نے انسانیت کی بھلائی کیلئے جو کام کیا ہے مغربی استعمار نے اس کی تشہیر نہیں ہونے دی جبکہ مغرب زدہ این جی اوز کے ذریعے پاکستانی معاشرے میں مذہبی اور تہذیبی تضادات کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی۔

(جاری ہے)

ہفتہ کے روز یہاں ایک تقریب سے خطاب اور بعدازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ اپوزیشن صدر جنرل پرویز مشرف کے موجودہ اسمبلیوں سے دوبارہ انتخاب کو ہر صورت روکے گی اور وہ اپنے اس عزم میں کامیاب رہے گی اس سلسلے میں اپوزیشن جلد کوئی متفق لائحہ عمل طے کر لے گی۔

انہوں نے کہا کہ وہ قبائلی علاقوں میں پولیٹیکل ایجنٹس کے اختیار بڑھانے کے حکومتی فیصلے کی حمایت کرتے ہیں انہوں نے کہا کہ وزیرستان میں حالات بہتر ہیں اور حکومتی رٹ بھی موجود ہے لیکن امریکہ وزیرستان معاہدے پر واویلا کر رہا ہے انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کی طرف سے حسبہ بل کو عدالتوں میں گھسیٹا جا رہا ہے جبکہ بجلی کی رائلٹی پر ثالثی کمیشن کے فیصلے کا احترام نہیں کیا جا رہا ۔

مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ بہت جلد صدر کے دوبارہ انتخاب کے حوالے سے معاملے پر اپوزیشن متفقہ لائحہ عمل لے کر لے گی۔ انہوں نے کہا کہ اگر ہم اس میں کامیاب ہوئے تو مجھے خوشی ہے کہ ہم صدر مشرف کی طرف سے جمہوریت کے راستے میں تمام رکاوٹیں ہٹانے میں کامیاب ہونگے۔ مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ صدر پرویز مشرف کو دوبارہ موجودہ اسمبلیوں سے منتخب ہونے کو ہر صورت روکا جائے گا۔

پاک افغان گرینڈ جرگے کو زمینی حقائق کے برعکس منعقد کرانے کو وقت کا ضیائع قراردیا اور کہا کہ اگر وہاں کوئی امن کا قیام چاہتا ہے تو ان کو اس جرگے میں تمام اہم فریقوں کو شامل کرنا ہوگا مغرب کی جانب سے مسلمانوں پر الزامات کے جواب میں کہا کہ عراق اور افغانستان میں ناکامی کے بعد اب ان کے پاس ان الزامات کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے انہوں نے کہا کہ مغرب نے افغانستان اور عراق میں جو مظالم ڈھائے وہ دنیا کے سامنے ہیں جبکہ ان کے کٹھ پتلی افغان حکمران خود ان کے اجلاسوں میں افغان شہریوں کے قتل عام پر کئی بار روئے ہیں تاھم ان کو اپنے کٹھ پتلی پر بھی رحم نہیں آیا۔

پاک افغان سرحد پر بارودی سرنگیں اور آہنی باڑ لگانے کے سوال کے جواب میں کہا کہ یہ پاکستان کے مغربی سرحد کو متنازعہ بنانے کیلئے استعمار کی سازشوں کا حصہ ہے انہوں نے کہا کہ بارودی سرنگیں بچھانے اور باڑ لگانے کا فیصلہ گندمک معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس میں پاک افغان سرحد پر موجود قبائلی کو آزادانہ آمدو رفت کی اجازت دی گئی ہے باڑ لگانے سے قبائل میں اشتعال پیدا ہوگا انہوں نے کہا کہ جہاں تک افغان حکومت کی جانب سے الزامات کا تعلق ہے تو یہ کوئی نئی بات نہیں ہے انہوں نے کہا کہ پہلے تو پاکستان سے دراندازی نہیں ہوتی کیونکہ پاکستان کی جانب سے80ہزار فوج اور افغانستان کی جانب سے بھی نیٹو کی ہزاروں کی تعداد میں افواج موجود ہیں تاھم اگر پھر بھی دراندازی کو مان لیا جائے تب بھی یہ پانچ فیصد سے زائد نہیں ہوگی افغان حکومت اور نیٹو افغانستان میں 95فیصد کاروائیوں کو کیوں نہیں روکتی اس کا واضح مطلب ہے کہ مغربی استعمار پاکستان میں عوام اور فوج کو لڑانا چاہتی ہے یہ سازش ہم کبھی کامیاب ہونے نہیں دینگے انہوں نے کہا کہ مسلمانوں نے کسی پر حملہ نہیں کیا بلکہ مسلمانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے کشمیر ،فلسطین ،افغانستان ،لبنان اور عراق میں مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں افسوس کی بات تو یہ ہے کہ مسلمان ظلم کا شکار ہورہے ہیں مگر انہیں ظالم کہا جاتا ہے وہ قتل ہورہے ہیں انہیں قاتل کہا جاتا ہے وہ عالمی دہشت گردی کا شکار ہیں مگر ان کو دہشت گرد قرار دیا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ قذافی فاؤنڈیشن سمیت اسلامی دنیا کی این جی او نے انسانیت کی بھلائی کے لئے جو کام کیا ہے مغربی استعمار نے اس کی تشہیر ہونے نہیں دی جبکہ مغرب زدہ این جی اوز کے ذریعے پاکستانی معاشرے میں مذہبی اور تہذیبی تضادات کو ہوا دینے کی کوشش کی گئی انہوں نے کہا کہ ایم ایم اے حکومت کے قیام سے قبل ہم نے این جی اوز کے خلاف تحریک چلائی تھی جس سے یہ تاثر بنا کہ ہم این جی اوز کے خلاف ہیں حالانکہ ایسا نہیں تھا بلکہ ہم ان این جی اوز کے خلاف تھے جو ہمارے پسماندگی ،غربت اور مفلوک الحالی کا فائدہ اٹھا کر معاشرے اور خاندان میں مذہبی وتہذیبی تضادات کو ہوا دینا چاہتے تھے اس بارے میں ہمارے پہلے بھی خدشات اور تحفظات تھے اور آئندہ بھی ہونگے انہوں نے کہا کہ جو این جی اوز واقعی اھداف پر کام چاہتی ہیں نہ صرف ان کے ساتھ تعاون کیا بلکہ ان کا تحفظ بھی کیا انہوں نے کہا کہ صوبہ سرحد میں دیگر صوبوں کی نسبت غربت زیادہ ہے یہی وجہ ہے کہ قابل تقسیم پول سے ہم نے غربت کے حساب سے وسائل کی تقسیم کا مطالبہ کیا تھا جو کہ ہمیں نہیں دیا جارہا ہے انہوں نے کہا کہ ہم قذافی فاؤنڈیشن سمیت تمام مسلم این جی اوز کا خیرمقدم کرتے ہیں جو یہاں بغیر کسی بگاڑ کے کام کرنا چاہتی ہیں وہ آئیں اور سرحد کے پسماندہ علاقوں کی ترقی اور عوام کو وسائل مہیا کریں انہوں نے کہا کہ علماء کی حکومت قائم ہونے کے بعد نہ صرف پاکستان بلکہ عالمی سطح پر پراپگنڈا کیا گیا تاھم علماء کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں تھا ا سلئے ان کی تعلیمی ،صنعتی ،سرمایہ کاری اور زرعی پالیسیوں کی کسی نے اپوزیشن نہیں کی اسی طرح اپوزیشن کی جانب سے ایم ایم اے کے خلاف جو بیان بازی کی جارہی ہے ا سمیں کوئی اعدادوشمار نہیں دے جاتے کہ ہم کس شعبے میں ناکام ہوئے کم وسائل میں ہم نے بہترین کام دکھایا ہے انہوں نے کہا کہ ایک نجی ٹی وی کے ذریعے جیلوں میں اصلاحات کے بارے میں غلط بیانی کی گئی تاہم مجموعی طور پر میڈیا کے کردار سے ہم مطمئن ہیں انہوں نے کہا کہ این جی اوز کو خدمت کے جذبے کو آگے بڑھانا چاہیے انہوں نے تسلیم کیا کہ صوبے میں گداگری کی لعنت ختم نہیں ہوسکی تاھم اس کے خاتمے کے لئے اقدامات شروع ہوچکے ہیں اس طرح کے اقدامات ابھی تک دوسرے صوبوں میں نہیں اٹھائے گئے اسی طرح تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ایم ایم اے حکومت نے بجٹ میں سوا سوا ارب روپے کا اضافہ کیا جب ہم عالمی اور مرکزی سطح پر اپنی مخالفت دیکھتے ہیں تو ایم ایم اے حکومت کو کافی کامیابی ملی کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ موجودہ حکومت کی ناکام سفارتکاری کی وجہ سے عالمی برادی میں ہم تنہا ہوچکے ہیں ماضی میں جب کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی قرارداد اقوام متحدہ میں پیش کی گئی تو اس میں بھارت کے بجائے ہمارے پڑوسی ہمسایہ ملک کی اصطلاح استعمال کی گئی جب اس قرارداد کی لیبیا کے علاوہ کسی نے حمایت نہیں کی جس پر ایران کے مشورے پر قرارداد موخر کردی گئی ۔