سرینگر مسجد کی بے حرمتی حریت رہنماؤں کی گرفتاری اور خواتین کے قتل کیخلاف مظاہرے  ایک جاں بحق  متعدد زخمی ،ٹیر گیس شل کلاس روم میں جاگرا،15طالبات بے ہوش  ملزمان کو گرفتار کر نے کا مطالبہ

اتوار 14 جون 2009 13:23

سرینگر(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14جون۔2009ء) مقبوضہ میں کشمیر مسجد کی بے حرمتی  حریت رہنماؤں کی گرفتاری اور خواتین کے قتل کے خلاف احتجاجی مظاہر کئے گئے اس دور ان پولیس کے لاٹھی چارج فائرنگ اور شیلنگ سے ایک شخص جاں بحق پندرہ طالبات بے ہوش اور متعددافراد زخمی ہوگئے تفصیلات کے مطابق جمعہ کے دن گاندربل میں لوگ سانحہ شوپیاں کے خلاف مظاہرہ کر رہے تھے اور انہیں منتشر کرنے کیلئے پولیس نے طاقت کا استعمال کیا ۔

جس کے دوران پولیس اہلکار مظاہرین کاتعاقب کرتے ہوئے قمریہ چوک میں پہنچ گئے جس کے دوران ا یس ایچ اومسجد شریف کے اندر جوتوں سمیت داخل ہوا۔چنانچہ اسی واقعہ کے خلاف کل لوگوں نے احتجاجی ہڑتال کی جس کے دوران قمریہ چوک میں تمام دکانیں بند ہوئیں اور لوگوں نے سڑک پر دھرنا دیا ۔

(جاری ہے)

اسی اثناء میں جب ایس پی گاندربل وہاں پہنچے تو اس کے ذاتی محافظوں نے وجی محمد صوفی ولد بشیر احمد نامی نوجوان کی شدید مارپیٹ کی ۔

اس موقعہ پر لوگوں نے پولیس کے خلاف زبردست نعرہ بازی کی اور پولیس پر سنگ باری کی ۔پولیس نے احتجاجی لوگوں کو منتشر کرنے کے لئے لاٹھی چارج اور شلنگ کی ۔پولیس احتجاجی لوگوں کا تعاقب کرتے ہوئے سالورہ میں گی کوچوں میں گھس گئے اور سینکڑوں ٹیر گیس شل داغے جس کے دوران ایک شل گورنمنٹ گرلز ہائر اسکنڈری اسکول کے 12ویں جماعت کے کلاس کے اندجا کر پھٹ گیاجس کے نتیجے میں وہاں افرا تفری مچ گئی اور طالبات چیخنے چلانے لگیں ۔

اس موقعہ پر 15طالبات دم گھٹنے کے نتیجے میں بے ہوش ہو گئیں اور کئی ایک کو ہسپتال لے جایا گیا۔ ان میں سے بعض کی شناخت جبینہ دختر بشیر احمد بٹ ،شازیہ دختر غلام محمد صوفی،روزیہ دختر محمد مقبول ڈار ،سائمہ دختر مسعود احمد بٹ ،یاسمینہ دختر عبدالاحد،عصمت دختر غلام حسن ،آسیہ دختر غلام حسن لون ی،الفت دختر بشیر احمد ،اقراء دختر منظور احمد ،مسرت دختر غلام احمد شاہ،روبینہ دختر غلام محمد،مسرت دختر غلام محمد ،روبینہ دختر غلام محمد بٹ ،جبینہ دختر عبدالرزاق کے بطور ہوئی ہے ۔

جبینہ کو سرینگر کے صورہ ہسپتال منتقل کیا گیا ۔ ٹیر گیس گولوں کی گھن گرج کے ساتھ ہی پورے قصبے میں آناً فاناً دکانیں اور کاروباری ادارے بند ہو گئے اور گاڑیوں کی آمد و رفت ٹھپ ہو کر رہ گئی جس کے بعد ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکل کر پولیس کے خلاف احتجاج کرنے لگے ۔اسی اثناء میں بار ایسوسی ایشن گاندربل نے بھی مسجد کی بے حرمتی کے خلاف احتجاجی جلوس نکالا اور ڈی سی گاندربل کو ایک میمورنڈم پیش کیا ۔

ڈپٹی کمشنر نے انہیں یقین دلایا کہ اس سلسلے میں اے ڈی سی کو تحقیقاتی افسر مقرر کیا ہے اورانہیں سوموار تک رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی گئی ہے ۔ ایس پی گاندربل نے اس حوالے سے کہا کہ انہوں نے ابتدائی کاروائی کرکے ایس ایچ او کو تندیل کیا ہے ۔گرلز ہائر اسکنڈری اسکول پر شلنگ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ ایک شل سکول احاطے میں پھٹ گیا جس کے نتیجے میں کچھ طالبات خوف کا شکار ہو کر کچھ دیر کیلئے بے ہوش ہوئیں ۔

سانحہ شوپیاں کے خلاف وادی میں گذشتہ کئی روز تک احتجاجی ہڑتال کے بعد کل معمول کی زندگی بحال ہوئی تاہم طالبات نے مسلسل چوتھے روز بھی لالچوک میں احتجاجی جلوس نکالا اور شوپیاں سانحہ میں ملوث افراد کو بے نقاب کرنے کے مطالبے کو لیکر نعرے لگائے ۔ دریں اثناء حریت (گ) کے چیئرمین سید علی شاہ گیلانی نے ایک ہفتے کا احتجاجی کلینڈر جاری کیا تھا جس پر طلباء ،طالبات ،ملازمین اور وکلا نے عمل پیر ا ہوتے ہوئے احتجاجی جلوس نکالے ۔

اس دوران شوپیاں چلواور پلوامہ چلو کال کو ناکام بنانے کیلئے 2دنوں تک غیر اعلانیہ کرفیو کا نفاذ رہا جبکہ شوپیاں سانحہ کے خلاف پرتشدد احتجاجی مظاہروں میں ایک نوجوان جاں بحق  5سوسے زائد افراد زخمی ہوئے ۔دوسری جانب شمیر بار ایسوسی ایشن نے کل حریت کانفرنس کی کال پر عمل کرتے ہوئے عدالتوں کا بائیکاٹ کرکے شوپیان میں دو خواتین کی عصمت ریزی اور بعد میں اْنہیں قتل کرنے کے خلاف احتجاجی مظاہرے کئے۔

وکلاء نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا اور بعد میں سینئرایڈوکیٹ اور سابق بار صدر ظفر احمد شاہ کی قیادت میں وکلاء نے ایک احتجاجی جلوس نکال کر لالچوک کی طرف پیش قدمی کی۔ وکلاء نے اپنے ہاتھوں میں پلے کارڑس اور بینر اٹھارکھے تھے ،جن پر شوپیاں سانحہ میں ملوث وردی پوش اہلکاروں کے خلاف فوری طور پر کاروائی کرنے اور ان کو سخت سزا دینے کا مطالبہ جیسے الفاظ درج تھے۔

وکلاء ڈویڑنل کمشنر مسعود سامون اورایس پی جاوید اقبال کے خلاف بھی نعرے لگارہے تھے۔ گھنٹہ گھر کے نزدیک ایڈوکیٹ ظفراحمد شاہ نے جلوس میں شامل وکلاء اور عام لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بھارت نے آزادی کی تحریک دبانے کیلئے اب جنگی حربوں کو آزمانے کا آغاز کیا ہے اور شوپیان سانحہ اس کی تازہ مثال ہے۔ انہوں نے کہ کہا فورسز اہلکاروں نے ہماری ماؤں اور بہنوں کی عصمت لوٹی ہے اور اس سے بڑا جرم دنیا میں اور کوئی نہیں ہے۔

انہوں نے مزیدکہا کہ بار ایسوسی ایشن اس معاملہ میں علیحدہ طور پر تحقیقات کریگی اور ملوث اہلکاروں کو سزا دلانے کیلئے اہم رول ادا کریگی۔ انہوں نے کہاکہ ایک گواہ نے اب جوڈیشل کمیشن کے سامنے بھی اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ اس بزدلانہ حرکت اور جرم میں وردی پوش اہلکار ہی ملوث ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جو وردی پوش اہلکار کشمیر میں رہ کر یہ دعویٰ کررہے تھے کہ وہ کشمیریوں کی عزت بچانے کیلئے کام کررہے ہیں ،اب ہمیں ان ہی اہلکاروں سے نجات حاصل کرنے کے کئے تحریک چلانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے اس دْہرے عصمت ریزی اور قتل کے بارے میں زور دیا کہ اس معاملہ میں کسی خصوصی عدالت کی بجائے معمول کے مطابق ریگولر عدالت میں سماعت ہونی چاہئے تاکہ ملزمان کے خلاف عدالت کی طرف سے ہونے والی کاروائی کا ہر ایک شہری مشاہدہ کرسکیں۔ظفراحمد شاہ نے کہا کہ یہ صرف 2خواتین کا معاملہ نہیں ہے بلکہ پوری کشمیر کی ماؤں اور بہنوں کی عزت کا معاملہ ہے اور اس پر کسی بھی حالت میں سمجھوتہ نہیں کیا جائیگا۔

انہوں نے کہا کہ بار صدر میاں عبدالقیوم ، نائب صدر محمد عبداللہ پنڈت ، غلام نبی شاہین،بشیر احمد ڈار اور محمد رفیق شوپیان پہنچ جانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ بعد میں جلوس میں شامل وکلاء نے ریگل چوک کی طرف پیش قدمی کی۔ ریگل چوک میں سابق صدر ایڈوکیٹ نذیراحمد رونگا نے بھی اس واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے صدر ہند پرتیبھاپاٹل سے اپیل کی کہ وہ ایک خاتون ہونے کی بنا پر کشمیری خواتین کی عزت بچانے کیلئے فورسز اہلکاروں کو لگام کسیں۔

اس دوران ایڈوکیٹ بلال احمد نے اپنی تقریر میں کہا کہ اس سانحہ پر پردہ ڈالنے کیلئے ایس پی جاوید اقبال کو بھی ملزمان کے لسٹ میں شامل کیا جائے ۔ انہوں نے اس بات پر حیرانگی کا اظہار کیا کہ ایس پی کے خلاف تادیبی کاروائی کرنے کی بجائے اس کو ترقی سے نواز اگیا ہے اور اس کو ایک اہم ضلع کا ایس پی مقرر کیا گیا ہے۔ انہوں نے ایس پی کو فوری طور پر نوکری سے برطرف کرنے پر زور دیا۔

اْنہوں نے اس بات پر بھی حیرانگی کا اظہار کیا کہ ابھی تک طالبہ کو اغواکرنیکی دفعہ363اور خاتون کا اغوا کرنے کیلئے دفعہ366کے تحت کیس درج نہیں کیا گیا ہے اور یہ ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔ جلوس میں شامل وکلاء نے کانگریس ہیڈکارٹر کے سامنے آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف بھی نعرزہ بازی کی۔ وکلاء قاتلوں کو پھانسی دو، مجروں کو پیش کرو ،کے نعرے لگاتے ہوئے صدر کورٹ میں واپس داخل ہوئے جس کے بعد پر امن طور پر جلوس اختتام پذیرہوا۔

اْدھرشوپیان میں کل لگاتار پندرویں روز بھی عام ہڑتال رہی جس کے دوران آسیہ اور نیلوفر کی عصمت دری اور قتل میں ملوث افراد کی فوری نشاندہی اور گرفتاری کے مطالبے کو لے کر عوام نے مظاہروں کا سلسلہ جاری رکھا۔علاقے کے وکلاء نے بھی عصمت دری اور دوہرے قتل کی تحقیقات میں سرعت لانے اور ملزموں کو جلد ازجلد گرفتار کرنے کے حق میں قصبے کی سڑکوں پر مارچ کیا ۔

بارایسوسی ایشن کے صدر میاں عبدالقیوم ، جنرل سیکریٹری غلام نبی شاہین، نائب صدر محمد عبداللہ پنڈت، الطاف احمد خان اور بشیر احمد خان کے علاوہ ایسوسی ایشن کے دیگر زعماؤں نے شوپیان میں کل احاطہ عدالت سے ایک جلوس نکالاجس میں وہ واقعہ کی مذمت کررہے تھے۔ وکلا نے بعد میں مرکزی جامع مسجد تک جلوس نکالا اور وہاں دھرنے پر بیٹھے لوگوں کے ساتھ شمولیت اختیار کی۔ بارایسوسی ایشن کے زعماؤں نے آسیہ اورنیلوفر کے لواحقین کے گھر پرافراد خانہ سے تعزیت کا اظہار بھی کیا۔