غیر سرکاری تنظیمیں معیشت کے لیے نیا خطرہ ہیں، بھارتی انٹیلی جنس،طیم ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کئی سرکردہ تنظیمیوں کا نام بھی شامل ہے، خفیہ رپورٹ

ہفتہ 14 جون 2014 21:20

غیر سرکاری تنظیمیں معیشت کے لیے نیا خطرہ ہیں، بھارتی انٹیلی جنس،طیم ..

نئی دہلی(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔14جون۔2014ء)بھارتی انٹیلی جنس ادارے نے غیر سرکاری تنظیموں کو ملکی معشیت کے لیے نیاخطرہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سالانہ داخلی پیداوار کو تین فیصد تک نقصان پہنچا رہی ہیں۔ انٹیلی جنس بیورو کی جانب سے حکومت کو بھیجھی گئی خفیہ رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ غیر ملکی مالی امداد یافتہ غیر سرکاری تنظیمیں ملک کی اقتصادی ترقی کے لیے ایک خطرہ ہیں۔

اس رپورٹ میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ یہ غیر سرکاری تنطیمیں ملک کی داخلی پیداوار کو ہر برس دو سے تین فی صد تک کا نقصان پہنچا رہی ہیں۔ تجزیہ خفیہ ادارے کے اقتصادی ماہرین نے کن بنیادوں پر کیا ہے، اس کی توضیح تو وہی کر سکیں گے لیکن غیر سرکاری تنظیموں کو ملک کی ترقی اور استحکام کے لیے خطرہ بتا کر انٹیلی جنس بیورو نے ملک میں اظہار رائے کی آزادی، احتجاج کے حق اور جمہوری مذمت کے اصولوں کے بارے میں بنیادی سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔

(جاری ہے)

انٹیلی جنس بیورو نے اپنی رپورٹ میں ماحولیات کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنطیم گرین پیس، ایکشن ایڈ اور حقوق انسانی کی تنطیم ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت کئی سرکردہ غیر سرکاری تنطیموں کا نام لیا ہے جو بھارت میں ایک عرصے سے سرگرم ہیں۔ بیورو نے ان تنطیموں کے فنڈ کی تفصیلات بھی دی ہیں۔دلچسپ پہلو یہ ہے کہ یہ رپورٹ مودی حکومت کے ایما پر نہیں بلکہ سابقہ منموہن سنگھ حکومت کی ہدایت پر تیار کی گئی ہے۔

تقریباً ڈھائی برس قبل تمل ناڈو کے کونڈئی کولم جوہری پلانٹ کے خلاف اچانک زبردست تحریک شروع ہو گئی۔ اس ری ایکٹر کی تعمیر اور اس کے لیے زمین کے حصول وغیرہ کے عمل میں کوئی خاص مشکل پیش نہیں آئی تھی۔لیکن جس وقت ملک کا یہ سب سے بڑا ری ایکٹر تیار ہو کر بجلی کی رسد شروع کرنے کی حالت تک پہنچا، اس وقت وہاں مخالفت کی تحریک شروع ہو گئی۔ ملک کے دوسرے علاقوں میں بھی جوہری ری ایکٹروں کی تعمیر کے خلاف احتجاج ہونے لگا۔

اس وقت حکومت کو شک ہوا تھا کہ یہ اجتجاج خود ساختہ نہیں بلکہ کسی کی ایما پر منطم کیے گئے ہیں۔اس سے قبل بنگال میں کار بنانے والی سب سے بڑی ملکی کمپنی ٹاٹا کو اپنی تعمیر شدہ فیکٹری اکھاڑ کر گجرات لے جانی پڑی کیونکہ فیکٹری بننے کے بعد مقامی لوگوں نے اپنی زمینیں واپس مانگنی شروع کر دی تھیں۔