کینیڈا کے برفانی جزیرے میں پہلی مسجد کی تعمیر،مساجد کی تعمیر سعودی شہری کا عظیم مگر کٹھن مشن

منگل 15 جولائی 2014 21:13

کینیڈا کے برفانی جزیرے میں پہلی مسجد کی تعمیر،مساجد کی تعمیر سعودی ..

لندن(اُردو پوائنٹ تازہ ترین اخبار۔ 15جولائی 2014ء) شمالی امریکا کے وسیع وعریض رقبے پر پھیلے ملک کینیڈا میں اسلام اور مسلمان برسوں پہلے پہنچے مگر اس کے بعض برفانی جزیرے ایسے بھی ہیں جہاں مقامی آبادی اب اسلام کے نام سے آشنا ہونے لگی ہے۔ کینیڈا کے اقصائے شمال میں واقع قطبی دائرہ نما سفید جزیرہ 'الاسکیمو' جما دینے والی سردی کی وجہ سے مشہور تھا لیکن اب اس کی شہرت اس میں تعمیر ہونے والی پہلی مسجد ہے۔

العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق موسم سرما میں جزیرہ 'لاسکیمو' مین درجہ حرارت منفی 40 سینٹی گریڈ تک گر جاتا ہے۔ جزیرے میں 'الاسکیمو' نسل کے آٹھ ہزار باشندے آباد ہیں۔ ان آٹھ ہزار میں صرف ایک مقامی مرد اور چھ خواتین مسلمان ہیں جبکہ جزیرے میں کل 80 غیرملکی مسلمان آباد ہیں۔

(جاری ہے)

جن میں سے 30 عرب ممالک اور باقی بھارت اور صومایہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ 'الاسکیمو' میں موجود ان مٹھی بھر مسلمانوں کا مشترکہ خواب مسجد کی تعمیر تھی۔

اپنی اس چھوٹی سی دنیا میں "اللہ اکبر" کی آواز سننے کو ترس گئے تھے۔ اب ان کی امیدیں بر آئیں ہیں۔ مقامی حکومت نے ایک مسجد کی تعمیر کی اجازت دے دی ہے تاہم اس پر کام ابھی شروع ہونا باقی ہے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ نے جزیرہ 'الاسکیمو' میں مجوزہ مسجد سے متعلق ایک رپورٹ مرتب کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق یہ مسجد جزیرے کے مرکزی شہر"ایکالویت" میں تعمیر کی جائے گی۔

اکالویت ریاست"نونافوت" کا دارالحکومت بھی ہے۔ اس کا رقبہ 21 لاکھ مربع کلومیٹر ہے، جو سعودی عرب کے کل رقبے سے بھی زیادہ ہے، لیکن اس وسیع وعریض ریاست کا سرد ترین موسم انسانی آبادی کی وسعت میں بڑی رکاوٹ ہے، یہی وجہ ہے کہ ابھی تک وہاں پر صرف 30 ہزار افراد آباد ہو سکے ہیں۔ریاست "نونافوت" تک پہنچنے کے لیے مختلف مراحل میں فضائی سروس کے ساتھ بحری راستے بھی موجود ہیں۔

تاہم سمندری راستے سے صرف سال میں دو ماہ کے دوران ہی جایا جا سکتا ہے۔ عموما اس ریاست میں موجود لوگوں کی ضروریات کا سامان موسم گرماں کے دو مہنوں میں کارگو بحری جہازوں کے ذریعے پہنچتا ہے۔ باقی دس ماہ یہ ریاست برفانی تودوں اور گلیشرز میں ڈھکی رہتی ہے۔ سب سے پہلا مسلمان کئی سال قبل اس جزیرے میں آیا، تاہم وہاں پر سب سے پہلی مسجد کی تعمیر کرنے والے خوش قسمت ڈاکٹر حسین قستی کا تعلق سعودی عرب سے ہے۔

ڈاکٹر قستی پیشے کےاعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر اور صحافی بھی ہیں۔ وہ چند سال قبل اپنی اہلیہ ڈاکٹر سوزان غزالہ اور ایک بیٹے اور ایک بیٹی کے ہمراہ کینیڈا کے شہر "ونیبیگ" میں پہنچے اور "مانی ٹوبا" کے مقام پر رہائش اختیار کی۔ ڈاکٹر قستی کی اہلیہ "زبیدہ تلاب فاؤنڈیشن" نامی ایک این جی او چلاتی ہیں۔
مساجد کی تعمیر ایک مشن
العربیہ ڈاٹ نیٹ کے مطابق کینیڈا کے برفانی جزیرے میں اسلامی تاریخ کی بنیاد رکھنے والے ڈاکٹر حسین قستی دور افتادہ علاقوں میں مساجد کی تعمیر کےایک عظیم لیکن کٹھن مشن پر کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے سنہ 2007ء میں"مانٹیوبا" شہر میں ایک مسجد تعمیر کرائی جس کا نام جامع مسجد تومیسون رکھا گیا۔ سنہ 2010ء میں "اینوفیک" شہر میں "مسجد شمس منتصف اللیل [مسجد آفتاب وسط شب] تعمیر کرائی۔ یہ علاقہ بھی موسمی شدت کے حوالے سے مشہور ہے۔ قبطی دائرے سے یہ جگہ تقریبا 200 کلومیٹر کی مسافت پر ہے۔ اس شہر کی آبادی 3700 نفوس پر مشتمل ہے جن میں سے 80 مسلمان ہیں۔

مسلمانوں میں بیشتر عرب ہیں۔ چار سال قبل وہاں کے مسلمانوں نے پانچ ملین ڈالرکے عطیات جمع کرنے کےبعد "مسجد شمس وسط اللیل" تعمیر کی۔اس مسجد کی تعمیر میں سعودی عرب کی ایک گمنام مخیر خاتون کا بھی بڑا حصہ ہے جنہوں نے ایک لاکھ نوے ہزار ڈالر کی رقم عطیہ کی تھی۔العربیہ ڈاٹ نیٹ نے ڈاکٹر حسین قستی سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا اور ان کے الاسکیمو جزیرے میں پہلی مسجد کی بنیاد رکھنے کے عزم اور اس مشن کی راہ میں حائل مشکلات پربات کی۔

انہوں نے بتایا کہ الاسکیمو جزیرے میں وہ جس مسجد کی تعمیر کرنے جا رہے ہیں، اس کا تخمینہ ساڑھےسات لاکھ ڈالر لگایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ براعظم شمالی امریکا کے دور افتادہ علاقے میں "مسجد شمس منتصف اللیل" کے بعد دوسری بڑی مسجد ہو گی۔ مسجد شمس چارسال قبل تعمیر کی گئی۔ یہ مسجد مجموعی رقبہ 777مربع میٹر پر ہے جس میں 343 مربع میٹر جگہ نماز کے لیے جبکہ بقیہ حصے میں سوشل سینٹر بنایا گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر قستی نے کہا کہ الاسکیمو جزیرے کی پہلی مسجد کی تعمیر کے لیے کینیڈا کے اندرسے گذشتہ برس ایک لاکھ ڈالر کے عطیات جمع کے گئے تھے۔ مسجد کی تعمیر کے لیے کچھ سامان 2012ء میں منگوایا گیا تھا اور باقی سامان روان سال اگست تک پہنچ جائے گا۔
الاسکیمو کے پہلے مسلمان
ڈاکٹر حسین قستی نے بتایا کہ ریاست "نونافوت" میں چھ خواتین اور ایک مرد مسلمان ہے۔

مرد نو مسلم کا نام" جیری" ہے جو پیشے کے اعتبار سے فائربریگیڈ کا ایک رضاکار ہے۔ ڈاکٹر قستی کا کہنا ہے کہ وہ خود بھی "جیری" کے خاندان کو نہیں جانتے اور نہ ہی ان کے پاس اس کی تصویرموجود ہے۔ جیری نے دوسال قبل 26 سال کی عمر میں اسلام قبول کیا۔ مردوں میں وہ پہلا مقامی نو مسلم ہے۔ تاہم اس ریاست میں دائرہ اسلام میں داخل ہونے والی خواتین کی تعداد چھ تک پہنچ گئی ہے۔

قبول اسلام کے بعد انہوں نے عرب اور دوسرے غیرملکی مسلمانوں سے شادیاں بھی کر لیں ہیں اور اب وہ کینیڈا کے دوسرے شہروں میں منتقل ہو چکی ہیں۔رپورٹ کے مطابق ریاست "نونافوت" میں سب سے پہلا مسلمان صداقت علی تھا جو سنہ 1990ء میں کینیڈین حکومت کےایک ملازم کی حیثیت سے وہاں گیا۔ بعد ازاں اس نے ملازمت ترک کر دی اور کاروبار شروع کیا۔ یہ پہلا مسلمان غیر عرب تھا، تاہم پہلا عرب جو اس ریاست میں پہنچا وہ فلسطینی نژاد عمر تھا۔

اس نے الاسکیمو کی ایک نومسلم سے شادی کی اور دونوں جرمنی منتقل ہو گئے تھے۔ عمر کے بعد الجزائر کے یوس بوشا، اس کےبعد سوڈان کے سید زین نے الاسکیمو میں قدم رکھا۔ آج وہاں پرعرب باشندوں کی تعداد تیس تک جا پہنچی ہے۔ ان میں سوڈان، صومالیہ اور لیبیا کے باشندے بھی شامل ہیں۔

متعلقہ عنوان :