29 سالہ امریکی خاتون کا یکم نومبر کو خود کی جان لینے کا فیصلہ

جمعرات 9 اکتوبر 2014 21:59

29 سالہ امریکی خاتون کا یکم نومبر کو خود کی جان لینے کا فیصلہ

کیلیفورنیا(اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔9اکتوبر۔2014ء)انتیس سالہ امریکی خاتون نے لاعلاج برین ٹیومر کے باعث یکم نومبر کو اپنی جان لینے کا فیصلہ کرلیا ہے جبکہ اپنی بقیہ زندگی ’عزت کے ساتھ‘ موت نامی مہم کے حق میں وقف کردی۔جنوری میں برٹنی مینارڈ کے دماغ میں برین ٹیومر کی تشخیص کی گئی تھی تاہم ابتدائی طور پر ڈاکٹروں کا کہنا تھا کہ وہ دس سال تک زندہ رہ سکیں گی تاہم بعد میں ڈاکٹروں نے انہیں صرف چھ ماہ کا وقت دے دیا۔

اس خوفناک خبر کے بعد برٹنی کے اہل خانہ نے کیلی فورنیا سے اوریگون منتقل ہونے کا فیصلہ کرلیا جو کہ پہلی ایسی امریکی ریاست ہے جہاں لاعلاج امراض میں لاحق افراد کے لیے خود ساختہ خودکشی کے لیے قانون سازی موجود ہے۔قانون کے تحت ایسے مرض میں مبتلا افراد کی زندگی ختم کرنے کے لیے ڈاکٹر دوا تجویز کرسکتا ہے تاہم یہ دوا مریض کو خود ہی کھانی ہوتی ہے اور ڈاکٹر کو ایسا کرنے کی اجازت نہیں۔

(جاری ہے)

بعدازاں واشنگٹن، مونٹانا، ورمونٹ اور نیو میکسیکو نے بھی اسی طرح کی قانون سازی اپنی ریاستوں میں کیں۔یوٹیوب میں پوسٹ کی گئی ویڈیو میں برٹنی کا کہنا تھا کہ آپ نہیں سمجھ سکتے کہ مجھے اس بات سے کتنا سکون ملتا ہے کہ میں ویسے نہیں مروں گی جیسا کے میرے ڈاکٹروں نے برین ٹیومر کے ذریعے میری موت بیان کی ہے۔انہوں نے کہا کہ میری موت میرے کمرے میں اپنے شوہر، والدہ کے ساتھ ہوگی اور میں پر سکون انداز میں اس دنیا سے رخصت ہوجاؤں گی۔

اپنے شوہر ڈین ڈیاز سے شادی کے کچھ عرصے بعد برٹنی کے سر میں شدید درد رہنے لگا اور 2014 کے پہلے دن ہی انہیں اس بیماری کے حوالے سے آگاہ کیا گیا۔ریاست اوریگون میں31 دسمبر 2013 کے بعد سے لیکر اب تک 750 سے زائد افراد اس قانون کا استعمال کرچکے ہیں تاہم زیادہ تر افراد کی عمریں 71 سال سے زیادہ تھیں، صرف چھ ایسے افراد ہیں جن کی عمریں 34 سال سے کم تھیں جن میں برٹنی شامل ہیں۔

ویڈیو میں ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بقیہ زندگی زیادہ سے زیادہ باہر کی دنیا دیکھ کر گزارنا چاہتی ہیں اور ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ انہوں نے یہ فیصلہ انتہائی سنگین حالات کے باعث لیا اور یہ خود کشی نہیں۔پیوپل میگزین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں ان کا کہنا تھا: ’میرے جسم میں کوئی ایک بھی ایسا سیل نہیں جو مرنا چاہتا ہے، میں جینا چاہتی ہوں۔

کاش میری بیماری کا کوئی علاج ہوتا لیکن بدقسمتی سے اس کا کوئی علاج نہیں۔‘انہوں نے کہا کہ میری بیماری مجھے مار ڈالے گی اور یہ میرے کنٹرول سے باہر ہے۔ میں نے ماہرین سے اس حوالے سے بات چیت کی ہے کہ میں اس بیماری سے کس طرح مروں گی اور یہ انتہائی تکلیف دہ موت ہوگی۔ خود اپنی زندگی کو اپنے ہاتھوں پرسکون انداز میں ختم کردینے کا خیال کم خوفناک ہے۔