کوبانی کا فرشتہ کون؟

پیر 3 نومبر 2014 16:19

کوبانی کا فرشتہ کون؟

دنیا بھر میں ہزاروں افراد نے سوشل میڈیا پر ’اینجل آف کوبانی‘ یا کوبانی کا فرشتہ کے نام سے ایک تصویر شیئر کی ہے۔ در اصل یہ تصویر ایک کرد جنگجو ریحانہ کی ہے جو دولت اسلامیہ کے خلاف مزاحمت کی علامت بن گئی ہے۔ریحانہ سے متعلق گردش کرنے والی کہانیوں میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے دولت اسلامیہ کے سو سے زیادہ جنگجوؤں کو قتل کیا ہے۔
اس میں صرف ایک قباحت ہے کہ اصل حقیقت تھوڑی مختلف ہے۔

دنیا کوبانی کو اس نظر سے دیکھ رہی ہے کہ وہاں کرد جنگجو امریکی فضائی حملوں کی آڑ میں دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کے خلاف برسر پیکار ہیں۔ لیکن کوبانی میں رونما ہونے والے اصل واقعات کی تصویر مشکل ہی سے سامنے آتی ہے کیونکہ وہاں صحافیوں کی پہنچ نہیں ہے۔
ایسے حالات میں سوشل میڈیا پر جنگجوؤں کی تصاویر شیئر کی جا رہی ہیں جو انٹرنیٹ پر اساطیری حیثیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔

(جاری ہے)


ریحانہ کی یہ تصویر ان خواتین جنگجوؤں کی علامت بن گئی ہے جنھیں دولت اسلامیہ کے خلاف میدان جنگ میں اتارا گیا ہے۔ ہزاروں لوگوں نے ان کی تصویر کو ان کی بہادری کی کہانیوں کے ساتھ شیئر کیا ہے جس میں مجموعی طور پر یہ کہا گیا ہے کہ انھوں نے بڑی تعداد میں دولت اسلامیہ کے جنگجوؤں کو ہلاک کیا ہے۔
یہ تصویر جسے ریحانہ کہا جا رہا ہے، دراصل کوبانی میں 22 اگست کو لی گئی تھی۔

انھوں نے رضاکاروں کی ایک تقریب میں فوجی وردی پہن رکھی ہے۔ اس وقت کوبانی میں واحد بین الاقوامی صحافی سویڈن کے کارل ڈروٹ موجود تھے تھے اور دونوں کی مختصر ملاقات ہوئی تھی۔
ڈورٹ کا کہنا ہے کہ وہ بالکل بھی صف اول کی جنگجو نہیں ہیں بلکہ وہ کوبانی پولیس یا ہوم گارڈ رضاکار کے طور پر آئی تھیں۔ ان کے مطابق ان کے ہاتھوں اتنی تعداد میں دشمنوں کا کام تمام کرنا ناممکن نظر آتا ہے:’وہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ وہ حلب میں قانون کی تعلیم حاصل کر رہی تھی لیکن دولت اسلامیہ کے لوگوں نے اس کے والد کو مار دیا اس لیے اس نے خود فوج میں آنے کا فیصلہ کیا۔

۔۔اس کے بعد اس کا کوئی سراغ نہیں ملا۔‘
پھر پانچ اکتوبر کو الفیصل رجد alfaisal_ragad@ نے اپنے دولاکھ فالوورز کے لیے اس کی تصویر کے ساتھ یہ پوسٹ کیا کہ اس کی موت ہو گئی ہے۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پر اس کے ہلاک یا زندہ ہونے پر بحث جاری رہی۔
پھر یہ ٹویٹ آیا کہ ’ریحانہ نے کوبانی میں آئی ایس آئی ایس کے سو سے زیادہ دہشت گردوں کو مارا ہے، اسے ری ٹویٹ کریں اور اسے اس کی بہادری کے لیے مشہور کر دیں۔

‘ پھر اسے ’اینجل آف کوبانی‘ کہا جانے لگا۔
ہرچند کہ یہ کردی پروپیگنڈا نظر آتا ہے تاہم یہ کرد اکاؤنٹ سے نہیں آیا بلکہ اسے ایک بھارتی بلاگر پون دورانی نے ڈالا تھا جو کشمیر میں ہندوؤں کے حق کی بات کرتے ہیں۔ تاہم خبروں کی دنیا میں اس کی کہانی ’اینجل آف کوبانی‘ کے نام سے آئی ہے۔
کرد بلاگر رویدہ مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ ’اس نے سب کو اپنی خوبصورت آنکھوں اور سنہرے بالوں سے مسحور کر رکھا ہے اور اس کے بہت مداح ہیں۔‘