بیک وقت تین طلاقیں دینے کوقابل سزاجرم قراردینے کی سفارش پر ی عدالتوں کے وکلاء کی اسلامی نظریاتی کونسل پر تنقید،

یہ سفارش قرآن وسنت سے متصادم ہے ،اسلامی قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ،وکلاء کا ردعمل

جمعرات 22 جنوری 2015 23:31

اسلام آباد(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔22جنوری۔2015ء)اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے بیک وقت تین طلاقیں دینے کوقابل سزاجرم قراردینے کی سفارش پراسلام آبادضلعی عدالتوں کے وکلاء کی اکثریت نے کونسل کوآڑے ہاتھوں لیااورکہاکہ اسلامی قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ۔آن لائن سے گفتگومیں ایڈووکیٹ ریاست علی آزادنے کہاکہ یہ سفارش قرآن وسنت سے متصادم ہے ،اسلامی قانون میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ،جب ایک وقت تین طلاقیں دینے سے طلاق واقع ہوجاتی ہے تواس پرسزادینے کی کوئی حیثیت نہیں بنتی ،طلاق احسن کاموں میں ناپسندی عمل ضرورہے لیکن بیک وقت تین طلاقیں دینے پرنبی کریم کے زمانے میں ناپسندیدہ قراردینے کے باوجودکوئی سزانہیں دی گئی ،اس پرسزادینے کاقانون اللہ کی طرف سے بندوں کودیئے گئے اختیارات پرقدغن ل گانے والی بات ہے ۔

(جاری ہے)

سپیل پبلک پراسیکیوٹرایڈووکیٹ شکیل حسن قیصرنے کہاکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جہاں بیک وقت تین طلاقیں دینے پرجرم وسزاکاقانون پاس نہیں ہوسکتا،ملکی قانون میں تواس کی کوئی گنجائش نہیں ہے ،لیکن اسلامی قانون میں اس کی کوئی جگہ نہیں ۔ایڈووکیٹ اسماعیل بلوچ نے بھی ایک وقت میں تین طلاقیں دینے پرجرم وسزاکی سفارش پرسخت ردعمل کااظہارکیا۔انہوں نے کہاکہ اگربیک وقت تین طلاقیں دینے پرطلاق واقع نہ ہوتی توپھراس پرجرم وسزاکاقانون لاگوہوتا،جب کہ دیگروکلاء کاکہناتھاکہ بیک وقت تین طلاقیں دینے پرجرم وسزاکاقانون پاس ہوتاہے توبیک وقت تین طلاقیں دینے والاشخص اپنے جرم کوچھپانے کیلئے بیوی کوطلاق دینے کے باوجودبھی بغیرنکاح کے ساتھ رہنے کے گناہ پرمجبورہوگا۔