خفیہ ایجنسیوں نے سیاسی مقدمات میں اپنی مرضی کے فیصلوں کیلئے مداخلت کی

بات نہ ماننے پر ججز کو افغانستان سے غیر ریاستی عناصر سے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں، پشاور ہائیکورٹ کا انکشاف

muhammad ali محمد علی منگل 30 اپریل 2024 20:19

خفیہ ایجنسیوں نے سیاسی مقدمات میں اپنی مرضی کے فیصلوں کیلئے مداخلت ..
پشاور ( اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین ۔ 30 اپریل 2024ء) پشاور ہائیکورٹ نے انکشاف کیا ہے کہ خفیہ ایجنسیوں نے سیاسی مقدمات میں اپنی مرضی کے فیصلوں کیلئے مداخلت کی، بات نہ ماننے پر ججز کو افغانستان سے غیر ریاستی عناصر سے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملیں۔ تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کے 6 ججز کے خط کے معاملے پر پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے بھی تجاویز دی گئی ہیں۔

پشاور ہائیکورٹ کی جانب سے اس حوالے سے تحریر کیے گئے تفصیلی خط میں اہم انکشافات بھی کیے گئے ہیں۔ ایکسپریس نیوز کی رپورٹ کے مطابق اسلام ہائیکورٹ کے ججز کے خط سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں پشاور ہائیکورٹ نے تجاویز پر مبنی خط میں انکشاف کیا ہے کہ سیاسی مقدمات میں ججز ایجنسیوں کی مداخلت کا شکوہ کرتے نظر آتے ہیں، کچھ ججز نے شکایات کیں کہ خفیہ ایجنسیوں نے سیاسی مقدمات میں فیصلے اپنی مرضی کے کروانے کے لیے مداخلت کی، اور بات نہ ماننے کی صورت میں ججز کو افغانستان سے غیر ریاستی عناصر سے جان سے دھمکیاں ملیں۔

(جاری ہے)

ججز کو دھمکیاں ملنے کے بعد محکمہ انسداد دہشتگری کے سامنے اٹھایا گیا لیکن کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، جبکہ ججز کو دھمکی ملنے کے معاملات اعلیٰ سطح پر بھی اٹھایا گیا۔ پشاور ہائیکورٹ نے اپنے جواب میں مزید کہا ہے کہ آئینی معاملات میں ہائیکورٹ چیف جسٹس اور ججز پر مشتمل ہوتی ہے، ایسا کوئی ضابطہ نہیں جو انتظامیہ یا ریاستی اداروں کو ججز کے کام میں مداخلت کی اجازت دیتا ہو، صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہائیکورٹ و سپریم کورٹ ججز کے خط کے ضابطہ اخلاق کی نمائندگی کرتی ہے۔

ججز کے ضابطہ اخلاق میں عدلیہ کے اندر ہونے والی مداخلت کی روک تھام کے لیے کوئی رہنمائی موجود نہیں ہے، جبکہ پارلیمانی امور، سیاست اور عدالتی امور میں مداخلت ایک اوپن راز ہے۔ اعلیٰ عدلیہ کے جج کو ڈرانے دھمکانے سے روکنے کے لیے فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پر عمل کیا جانا چاہیے، اور ہائیکورٹس کو اس معاملے پر مربوط لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے،اگر ایک جج کو دھمکی ملتی تو اسے متعلقہ چیف جسٹس کو آگاہ کرنا چاہیے۔

چیف جسٹس اور انتظامی کمیٹی کو متاثرہ جج کی شکایت پر فوری ایکشن لینا چاہیے، اور جج کو ملنے والی دھمکی کی روک تھام کے لیے تمام اقدامات کیے جانے چاہیئں۔ اگر ادارے ایسے معاملات میں تعاون نہیں کرتے تو پھر اسے جوڈیشل سائیڈ پر لارجر بینچ کے ذریعے دیکھنا چاہیے، اور متعلقہ لارجر بینچ کو ان اداروں کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی سمیت دیگر احکامات جاری کرنے چاییئں۔

ججز کو دھمکی دینے میں ملوث خفیہ اداروں کے افسران کے خلاف فیصلہ دیا جانا چاہیے، اور چیف جسٹس اور انتظامی کمیٹی کو شکایت موصول ہونے کے فوری بعد اس معاملے کو دیکھنا چاہیے، اگر متعلقہ ہائیکورٹ کے چیف جسٹس ایسا کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں تو انتظامی کمیٹی کے سامنے 7 روز میں معاملہ رکھنا چاہیے۔ پشاور ہائیکورٹ کی تجاویز کے مطابق اگر انتظامی کمیٹی اس نتیجے پر پہنچتی ہے کہ اس معاملے کی مزید انکوائری ہونی چاہیے تو مجوزہ طریقہ کار پر عمل ہونا چاہیے، اور اس بابت ججز کے ضابطہ اخلاق میں ترمیم ہونی چاہیے۔

تجاویز کے مطابق اگر ہائیکورٹ کے کسی جج کو ریاستی یا غیر ریاستی عناصر کی جانب سے دھمکی ملتی ہے یا مداخلت ہوتی ہے تو اسے فوری طور پر چیف جسٹس ہائیکورٹ کو تحریری شکایت کے ذریعے آگاہ کرنا چاہیے، اگر چیف جسٹس یا انتظامی کمیٹی کے کسی ممبر جج کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو پھر ہائیکورٹ رولز کے تحت اس معاملے کو دیکھنا چاہیے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ نے عدلیہ میں مبینہ مداخلت پر حکومت اور ایجنسیوں سے تفصیلی جواب طلب کرلیا۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ ہم اس کیس کو زیادہ لمبا نہیں لے کر جاسکتے کیوں کہ لوگوں کے دیگر کیسز بھی لگے ہوئے ہیں، ہمارا سب کا ہدف ایک ہے اس طرف پہنچنا کیسے ہے اپ معاونت کر دیں، پوری قوم ہماری طرف دیکھ رہی ہے، اگر ہم متحد ہوں گے تو مضبوط ہوں گے، کیس کی آئندہ سماعت 7 مئی تک ملتوی کردی گئی۔