اسفندیار بخاری نے دہشت گردوں کا مقابلہ کرکے مثال کردار ادا کیا

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کی شہید کیپٹن اسفندیار کے اہل خانہ سے ملاقات کے دوران گفتگو

منگل 22 ستمبر 2015 23:12

راولپنڈی/اٹک (اُردو پوائنٹ اخبار تازہ ترین۔ 22 ستمبر۔2015ء ) ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئر پرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہاہے کہ دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جو مثالی کردار کیپٹن اسفندیار بخاری نے ادا کیا اس کی مثال نہیں ملتی۔ انہوں نے بہاردی اور شجاعت کی عظیم داستان رقم کرتے ہوئے اپنی جان وطن عزیز پر وار دی۔ نہایت جرات سے حملہ آوروں سے آگے بڑھ کر مقابلہ کیا اور جام شہادت نوش کیا۔

ان کے والدین ہی نہیں بلکہ پوری قوم بچا طور پر ان پر فخر کر رہی ہے۔ انہوں نے 2008 میں جو اعزازی تلوار حاصل کی تھی اس کو سچا کر دکھایا۔ وہ اٹک میں شہید کیپٹن اسفندیار کے اہل خانہ سے ملاقات کے دوران گفتگو کررہی تھیں ۔ ڈی ایچ آر ضلع راولپنڈی کے صدر عامر محمود، سیکریٹری وقاص زاہد، ڈی ایچ آر اٹک کے صدر ڈاکٹر انعام اﷲ، سیکریٹری محترمہ نایلہ ایوب بھی ان کی ہمراہ تھے۔

(جاری ہے)

انہوں نے مذید کہا کہ ڈیفینس آف ہیومن رائٹس کی انتظامیہ دہشت گردی کے ایسے تمام واقعات کی شدید مذمت کرتی ہے۔ ہم نے ہمیشہ مظلوم کی حمایت اور آئین اور قانون کی بالادستی کی جدوجہد کی ہے۔ دہشدت گردی چاہے گروہوں کی طرف سے ہو یا ریاستوں کی طرف سے اس کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ہم انسانیت، پاکستانیت اور اسلام کے دشمنوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔

دہشت گرد عناصر کو جلد از جلد پکڑنا اور ان کو آئینِ پاکستان کے مطابق کھلی عدالت میں سزا دلوانا حکومت کا فرض اولین ہے۔ ہم ہر طریقے سے اپنے ملک کی حفاظت اور اس کے وقار کی سربلندی کے لیے ڈٹے رہیں گے۔ یہاں پر یہ واضح کر دینا بھی ضروری ہے کہ ہمارے نظام کی خرابی کی وجہ سے جو شہری بھی جرم بیگناہی کی سزا کاٹ رہے ہیں ان کو انصاف کی فراہمی کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں گے۔

معمولی سی غفلت کسی معصوم اور بیگناہ کو سلاخوں کے پیچھے پہنچا دیتی ہے اور بد عنوانی کے طفیل نامی گرامی دہشت گردوں پر کوئی ہاتھ ڈالنے کو تیار نہیں ہوتا۔ ڈیفینس آف ہیومن رائٹس کو ہر حال میں عدل و انصاف سے غرض ہے۔انہوں نے مذید کہا کہ 18 ستمبر 2015 کو بڈابیر پرجو دہشت گرد حملہ ہوا جس میں پاک آرمی اور ایر فورس کے جوان شہید ہوئے ایسے ہی لاتعداد حملے اس سے پلے بھی ہو چکے ہیں۔

یہ وقت ہے کہ قوم جنگی بنیادوں پر سر جوڑ کر بیٹھے اور داخلہ اور خارجہ پالیسیوں پر نئے سرے سے غور کیا جائے۔ امریکہ کی لگائی ہوئی جنگ سے کنارہ کشی کرتے ہوئے اس کی تباہ کاریوں کو سمیٹا جائے۔ اب تک جو غلطیاں ہو چکی ہیں ان پر اصرار نہ کیا جائے۔ جبری لاپتہ افراد جیسے گھمبیر مسلے حل کیے جائیں تاکہ ملک دشمن عناصر اسکا فایدہ اٹھا کر ہمارے وطن کے وقار کو ٹھیس نہ پہنچا سکیں۔ بیگناہوں کی رہائی اور مجرموں کو سزا دلانے کا خواب صرف فوری اور سستے انصاف کی فراہمی سے ہی ممکن ہے۔ پاکستان کی ترقی اور کامرانی کا خواب بھی تبھی پورا ہو سکے گا۔

متعلقہ عنوان :