نیوکلیئر معاہدہ کی وجہ سے ایران اسرائیل کو تسلیم کریگا،ایرانی اخبار کا دعویٰ

امریکا معاہدے کے بعد کے اقدامات پر کام کررہا ہے جن میں شوریٰ نگہبان کو تحلیل کرنا بھی شامل ہے،رپورٹ

بدھ 6 اپریل 2016 19:03

نیوکلیئر معاہدہ کی وجہ سے ایران اسرائیل کو تسلیم کریگا،ایرانی اخبار ..

تہران(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔06 اپریل۔2016ء) ایران کے ایک اخبارنے انکشاف کیا ہے کہ جون 2015 میں تہران اور چھ عالمی طاقتوں کے درمیان دستخط کیے جانے والے جامع معاہدے کے پیچھے دیگر معاہدے بھی ہوں گے جن میں ایران کا اسرائیل کو تسلیم کرنا شامل ہے۔ملک میں سخت گیر بنیاد پرست گروپ کے نزدیک سمجھے جانے والے اخبار نے بتایا کہ امریکی محکمہ خارجہ کے مخصوص حلقے نیوکلیئر معاہدے کے بعد کے اقدامات پر کام کر رہے ہیں۔

ان میں ایران کا اسرائیل کو تسلیم کرنا، ایران میں اعلی ترین اختیارات کی حامل "شوری نگہبان" کو تحلیل کر دینا اور ملک میں سیاسی افق سے خمینی کے اسلوب کو ختم کر دینا شامل ہیں۔اخبار نے ضمنی طور پر ایران میں مجلس تشخیص مصلحت نظام کے سربراہ اکبر ہاشمی رفسنجانی کو ان کے حالیہ بیان کی وجہ سے تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

(جاری ہے)

اس بیان میں رفسنجانی کا کہنا تھا کہ یہ مذاکرات کا دور ہے نہ کہ میزائلوں کا۔

اخبار نے رفسنجانی کے بیان پر طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ آئندہ معاہدوں میں ایران کے میزائل پروگرام کو ہدف بنایا جائے گا کیوں کہ دور تو مذاکرات کا ہے نہ کہ میزائلوں کا۔اخبار کے مطابق خطے میں حلیفوں کی حفاظت یعنی مزاحمت کے محور میں ایران کا کردار بھی ختم ہو جائے گا۔ اخبار کے مطابق تیسرے معاہدے میں لبنان کی حزب اﷲ، فلسطین کی حماس اور یمن کی انصار اﷲ تنظیموں کے علاوہ بشار الاسد کا بھی خاتمہ عمل میں آئے گا کیوں کہ یہ سب شدت پسند اور دہشت گرد ہیں اور عالمی نظام کے لیے خطرہ ہیں۔

اخبارکے مطابق چوتھے معاہدے میں ایران میں سیاسی فیصلوں کے میدان سے خمینی کے افکار اور اسلامی انقلاب کے اسلوب اور رجحان کو ختم کر کے انہیں میوزیم کی زینت بنا دیا جائے گا۔ آئین میں تبدیلی کے ساتھ ولایت فقیہہ کی جگہ رہ نما شوری لے گی۔اخبار نے روحانی کی حکومت اور اس کے اصلاح پسند حلیفوں پر بھی کڑی نکتہ چینی کی ہے۔ اس لیے کہ وہ نیوکلیئر معاہدے کے بعد مغرب کے ساتھ معمول کے تعلقات کی ترویج کر رہے ہیں۔ اخبار کے مطابق یہ تمام معاہدے امریکی وزارت خارجہ کے حلقوں میں تیار کیے گئے ہیں اور ان پر عمل درامد سے قبل سرکاری ملاقاتوں، مذاکرات اور فریقی کے دستخط کا انتظار ہے۔

متعلقہ عنوان :