دنیا کی بہترین یونیورسٹی آکسفورڈ میں ایشیائی طالبعلموں کی کمی

یونیورسٹی نے پاکستانی اور بنگلہ دیشی نژاد برطانوی طالب علموں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایک پروگرام متعارف کروانے کا فیصلہ کرلیا

بدھ 3 اگست 2016 17:39

لندن( اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔3 اگست ۔2016ء ) برطانیہ کی اوکسفرڈ یونیورسٹی کا شمار دنیا بھر کی بہترین یونیورسٹیوں میں کیا جاتا ہے لیکن گذشتہ چند برسوں میں یہاں داخلہ لینے والے ایشیائی طالب علموں کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی ہے۔کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ اوکسفرڈ میں ایشیائی طالب علموں کی تعداد اتنی نہیں ہے جتنی ہونی چاہیے۔یہی وجہ ہے کہ یونیورسٹی نے پاکستانی اور بنگلہ دیشی نڑاد برطانوی طالب علموں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ایک پروگرام متعارف کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

ڈاکٹر ثمینہ خان اکسفرڈ میں انڈرگریجویٹ ایڈمیشنز اینڈ آوٴٹ ریچ کی ڈائریکٹر ہیں اور انھوں نے سکول کے بچوں کے ایک گروپ کو یونیورسٹی کا دورہ کروایا۔یہ دورہ یونیورسٹی کی جانب سے ان طالب علموں کی توجہ حاصل کی کرنے کی کوشش تھا جو عام طور پر اکسفرڈ میں داخلہ لینے کے بارے میں نہیں سوچتے۔

(جاری ہے)

وہ کہتی ہیں: ’ہر جگہ قابلیت موجود ہوتے ہیں۔ آپ کس میں دلچسپی رکھتے ہیں اس کو حاصل کرنے کے متعلق ہے۔

‘یونیورسٹی میں پاکستانی، بنگلہ دیشی اور انڈین نڑاد انڈرگریجویٹس طالب علموں کی تعداد برطانیہ کے سفید فام طالب علموں کے مقابلے میں نصف سے بھی کم ہے۔سنہ 2015 میں انڈرگریجویٹ داخلوں کی شرح25 فیصد کے مقابلے 2۔11 فیصد رہی ہے۔ثمینہ خان کا کہنا ہے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے ایشین طالب علم انجینیئرنگ اور میڈیسن کی جانب زیادہ رجحان رکھتے ہیں۔

وہ تسلیم کرتی ہیں یونیورسٹی کی ساکھ کو لوگوں کے ذہنوں میں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔وہ کہتی ہیں کہ اوکسفرڈ کو عمومی خیالات کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کہ’یہ پوش ہے‘ اور یہ ہر کسی کے لیے خوش آمدید کرنے والی جگہ ہے۔اگرچہ یونیورسٹی مزید ایشیائی طالب علموں تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکن یونیورسٹی کے جداگانہ مستقبل کا انحصار مدیحہ خالد جیسی طالبہ پر ہے، جو ایک 13 سالہ پاکستانی نڑاد برطانوی ہیں اور مشرقی لندن میں رہتی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ اوکسفرڈ یونیورسٹی سے میڈیسن کی تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ اور اس دورے کی وجہ سے انھیں مدد ملی۔’میں نے سوچا نہیں تھا کہ اوکسفرڈ میں تنوع ماحول ہوگا، لیکن میں حجاب پہنتی ہوں، اور یہاں تین دن قیام کے دوران بہت ساری حجاب والیوں کو دیکھا، اب میں محسوس کرتی ہوں میں یہاں صحیح رہوں گی۔‘اوکسفرڈ یونیورسٹی جنوبی ایشیا میں خاصی معروف ہے اور اس کی وجہ صرف یہی نہیں ہے کہ سابق پاکستانی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو، ان کے والد ذوالفقار علی بھٹو، کرکٹر اور سیاستدان عمران خان، سابق انڈین وزیراعظم من موہن سنگھ اور ادیب وکرم سیٹھ کا یہاں سے تعلیم یافتہ ہیں۔۔

متعلقہ عنوان :