نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہو رہا، وفاقی وزیر داخلہ نیکٹا کے فیصلوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے، جنداللہ کو دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کے باوجود کالعدم قرار نہیں دیا گیا، وفاقی وزیر داخلہ کا احمد لدھیانوی کی تنظیم کے اسلام آباد میں جلسے کو حرج نہ سمجھنا ملکی قوانین کی توہین ہے، وزارت داخلہ حکام عوام کے بجائے وزیر کی خدمت میں دلچسپی رکھتے ہیں،نیشنل ایکشن پلان کو جامع بنایا جائے، حکومت نفرت انگیز تقاریر اور وال چاکنگ پر پابندی یقینی بنائے، تمام مدارس، ان کی انتظامیہ، اساتذہ اور طلباء کے کوائف جمع کئے جائیں ، مغربی سرحد کی موثر نگرانی ، آنے جانے والوں کا ریکارڈ رکھا جائیں اور سانحہ کوئٹہ کے متاثرین میں امداد فوری تقسیم کی جائے،گزشتہ حملوں کا فرانزک ریکارڈ ہوتا تو سانحہ سول ہسپتال سے بچا جا سکتا تھا

سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن کی سول ہسپتال کوئٹہ میں خودکش دھماکے کے حوالے سے رپورٹ

جمعرات 15 دسمبر 2016 23:55

نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہو رہا، وفاقی وزیر داخلہ نیکٹا کے فیصلوں ..

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آئی این پی۔ 15 دسمبر2016ء) سپریم کورٹ کے تحقیقاتی کمیشن نے سول ہسپتال کوئٹہ میں خودکش دھماکے پر اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں ہو رہا، وفاقی وزیر داخلہ نیکٹا کے فیصلوں کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے، جنداللہ کو دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے کے باوجود کالعدم قرار نہیں دیا گیا، وفاقی وزیر داخلہ کا احمد لدھیانوی کی تنظیم کے اسلام آباد میں جلسے کو حرج نہ سمجھنا ملکی قوانین کی توہین ہے، وزارت داخلہ حکام عوام کے بجائے وزیر کی خدمت میں دلچسپی رکھتے ہیں،نیشنل ایکشن پلان کو جامع بنایا جائے، حکومت نفرت انگیز تقاریر اور وال چاکنگ پر پابندی یقینی بنائے، تمام مدارس، ان کی انتظامیہ، اساتذہ اور طلباء کے کوائف جمع کئے جائیں ، مغربی سرحد کی موثر نگرانی ، آنے جانے والوں کا ریکارڈ رکھا جائیں اور سانحہ کوئٹہ کے متاثرین میں امداد فوری تقسیم کی جائے۔

(جاری ہے)

تفصیلات کے مطابق 8 اگست 2016 کو کوئٹہ کے سول ہسپتال میں وکلاء پر ہونے والے خود کش بم دھماکے اور اس سے قبل منو جان روڈ پر بلوچستان بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر ملک بلال انور کاسی ایڈووکیٹ کی ٹارگٹ کلنگ کے سلسلے میں تشکیل دی گئی سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ پر مشتمل جوڈیشل کمیشن نے اپنی 56 نکاتی فائنڈنگز ،81 نکاتی تجاویز اور کنکلوڈنگ ریمارکس میں کہا ہے کہ 8 اگست کو ہونے والے واقعات دہشت گردی کے پہلے واقعات نہیں تھے اس سے قبل اگر گزشتہ دہشت گردی کے واقعات کے بعد بینک آف فارنزک اور دیگر کے حوالے سے اقدامات اٹھائے جاتے تو 8 اگست کے سانحات کو روکا جاسکتا تھا ۔

فائنڈنگز میں کہا گیا تھا کہ سال 2012 میں دہشت گردی سے متعلق عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کو تاحال ممکن نہیں بنایا جاسکا ہے ۔ فائنڈنگز میں کہا گیا ہے کہ آئی جی پولیس کو بھی دہشت گرد حملے کے بعد کرائم سین اور دیگر سے متعلق محدود معلومات حاصل ہیں ۔ فائنڈنگز میں کہا گیا ہے کہ ہسپتال مکمل طور پر غیر فعال ہے وہاں ابتدائی طبی امداد کے کٹ دستیاب ہے نہ ہی ایمبولینسز اور دیگر آلات موجود ہیں ، فائر فائٹنگ آلات بھی موجود نہیں جبکہ سٹریچرز کی بھی کمی ہے ۔

زندگی بچانے والے ادویات سمیت دیگر آلات کی بھی کمی ہے ہسپتالوں میں وزٹنگ ہائورز کا کوئی رجحان نہیں نہ ہی داخلی اور خارجی گیٹس پر کوئی مانیٹرنگ کی جاتی ہے ۔ ورک ایتھکس کا بھی کوئی خیال نہیں رکھا جاتا جو طبی اور نیم طبی عملے کی وردیوں کا نہ پہننا نظم و ضبط کے فقدان اور مانیٹرنگ کا نہ ہونا ہے جبکہ جونیئر آفیسرز کو بطور میڈیکل سپرٹینڈنٹ تعینات کیا جاتا ہے اس کے علاوہ ہسپتال کے زیادہ تر ملازمین کام کے لئے نہیں آتے ۔

8 اگست کو ہونے والے واقعات کے بعد سول ہسپتال میں سٹاف غیر حاضر اور ضرورت کی اشیاء تک نہیںتھی اکثر زخمیوں کو طبی امداد نہیں ملا جس کے بعد انہیں دوسرے ہسپتالوں کو لے جایا گیا ۔ اگر طبی اور نیم طبی عملے کے افراد ، ڈاکٹرز ، نرسیں ، پیرامیڈیکل سٹاف اور دیگر آگے آتے تو زخمیوں کو دوسرے ہسپتالوں کو منتقل نہ کرناپڑتا ۔ فائنڈنگز میں کہا گیا ہے کہ حکومتی سطح پر اقرباء پروری ہے جس کا واضح مثال سیکرٹری صحت سمیت دیگر چار سیکرٹریوں کی تعیناتی ہے سابق سیکرٹری صحت وفاقی وزیر کے بھائی تھے ۔

وزراء اور دیگر کی جانب سے کام میںمداخلت ہوتی ہے جبکہ پولیس اور لیویز کے ایریوں کے بھی مسائل موجود ہیں ۔ فائنڈنگز میں کہا گیاہے کہ حکومتی حکام کی جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیانات بھی تحقیقاتی عمل پر اثرا نداز ہوتے ہیں ۔ فائنڈنگزمیں وفاقی اداروں اور وفاقی حکومت کے حوالے سے بھی نکات شامل کئے گئے ہیں اور بتایا گیا ہے کہ وزارت داخلہ کے پاس کلیئر لیڈرشپ اور ڈائریکشن نظر نہیںآتی ۔

نیشنل سیکورٹی انٹرنل پالیسی پر عملد رآمد نہیں ہوسکا ہے آفیسران وزیروں کے لئے زیادہ سرو کررہے ہیں عوام کے لئے نہیں ۔ کالعدم تنظیموںپر پابندی میں زیادہ تاخیر لگائی جاتی ہے جبکہ بعض کالعدم تنظیموں پر اب بھی پابندی نہیں ہے وزارت داخلہ کی جانب سے اب تک نیکٹا کی ایگزیکٹیو کمیٹی کا تین سالوں میں صرف ایک اجلاس ہوسکا ہے جبکہ نیکٹا کے ایگزیکٹیو کمیٹی کے فیصلوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے بلکہ یہ بات بھی دیکھی گئی ہے کہ کالعدم تنظیم کے سربراہ سے نہ صرف ملاقات کی گئی ہے بلکہ ان کے شناختی کارڈز سے متعلق مطالبات بھی مانے گئے ہیں ۔

نیکٹا ایکٹ پر عمل درآمد کو ممکن نہیں بنایا جاسکا ہے نیکٹا کیٹگریکلی فیل ہے ۔ فائنڈنگز میں کہا گیا ہے کہ مغربی بارڈر کی کوئی مانیٹرنگ نہیں ہورہی حتیٰ کہ ہر خاص و عام آ اور جاسکتا ہے جبکہ تجارتی اور دیگر مال آسانی سے لایا اور لے جایا جاسکتا ہے۔ فائنڈنگز میں کہا گیا ہے کہ مدارس کی مانیٹرنگ اور رجسٹریشن نہیں ہے ۔ فائنڈنگز میں کہا گیا ہے کہ صوبائی اور وفاقی حکومت کی کمیونکیشن کمزور ہے حتیٰ کہ وفاقی اور صوبائی اداروں کے پاس ایک دوسرے کے نمبرز ، ای میل ایڈرس اور فیکس نمبرز تک نہیں ۔

میڈیا کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ میڈیا پر دہشت گردی سے متاثر افراد کے صرف چند ایک سٹوریز ہے میڈیا کوریج سے لگ رہا ہے جیسے وہ دہشت گردوں کے لئے پروپیگنڈا کیا جارہا ہو ۔ فائنڈنگز میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹر شہیلہ سمیع کاکڑ ڈاکٹرز کے لئے رول ماڈل ہے ۔ ریکمنڈیشنز میں کہاگیاہے کہ اینٹی ٹیررازم ایکٹ ، نیکٹا ایکٹ اور دیگر پر عملد رآمدممکن بنا کر کالعدم تنظیموں پر فوری پابندی عائد کی جانی چاہیے ،کالعدم تنظیموں کی لسٹیں اردو اور انگریز زبان میں وزارت داخلہ اوردیگرکی ویب سائٹس پر جاری کی جانی چاہیے ، صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو سال 2012 میں دہشت گردی سے متعلق دیئے گئے عدالتی فیصلے پر عمل درآمد کرنے ، پنجاب کی طرح دیگر صوبوںمیں فارنزک لیبارٹریز کے قیام ، ملک بھر میں ہوائی فائرنگ پر پابندی ، نیکٹا کے ایگزیکٹیو کمیٹی اور بورڈ آف گورنرکے اجلاس وقتاً فوقتاً کرانے ، ہسپتالوں میں درکار سامان اور آلات سمیت سیکورٹی کے موثر انتظامات ، وزٹنگ کارڈز کے اجراء ، تمام تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن ، ملک آنے اور جانے والوں کے مکمل کوائف جمع ، میڈیا کو قانون کے تحت کام کرنے ، زخمیوںاور دیگرکومعاوضوں کی ادائیگی کے تجاویز شامل ہیں جبکہ جوڈیشل کمیشن کی جانب سے اپنے کنکلوڈنگ ریمارکس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آئین کے آرٹیکل (3)184 کے تحت جوڈیشل کمیشن کا قیام عمل میں لایا تو اس دوران کوئٹہ پولیس ٹریننگ کالج پر 24 اکتوبر اور 12 نومبر کو شاہ نورانی میں حملے ہوئے جس میںسینکڑوںلوگ لقمہ اجل بنے لیکن ان دو حملوں کے بعد بھی کمیشن نے اپناکام جاری رکھا ۔

کمیشن نے رپورٹ کو حتمی شکل دینے میں 56 روز لگائے ۔ کنکلوڈنگ ریمارکس میںکہاگیا ہے کہ ممنوعہ لیٹریچر اور اشتعال انگیز تقاریر کے تدارک ، دہشت گردی اور انتہاء پسندی کی روک تھام کے لئے ضروری ہے کہ عوامی سپورٹ اداروں کو حاصل ہو ، کنکلوڈنگ ریمارکس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ رپورٹ کو سپریم کورٹ کے ویب سائٹ پر دیا جانا چاہیے ۔ یہ بھی کہا گیا کہ کمیشن نے رپورٹ کو اردو زبان میں بھی جاری کرنے کی حتیٰ الوسعیٰ کوشش کی تاہم وقت کی کمی آڑے آئی ۔ کنکلوڈنگ ریمارکس میں کہا گیاکہ ملک بنانے والے چاہتے تھے کہ پاکستان میںہر مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگ آزاد ہو ۔