پاکستان نے بھر جوہری ہتھیاروں کیلئے بطور ایندھن استعمال ہونے والے جوہری مواد کی پیداوار پر پابندی کے معاہدے کی مخالفت کر دی

یسے کسی اقدام کے جنوبی ایشیا کے سٹریٹجک استحکام پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے ،ْملیحہ لودھی کا خطاب

جمعہ 3 مارچ 2017 19:45

پاکستان نے بھر جوہری ہتھیاروں کیلئے بطور ایندھن استعمال ہونے والے ..
نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 03 مارچ2017ء) پاکستان نے ایک بار بھر جوہری ہتھیاروں کیلئے بطور ایندھن استعمال ہونے والے جوہری مواد کی پیداوار پر پابندی کے معاہدے کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے کسی اقدام کے جنوبی ایشیا کے سٹریٹجک استحکام پر شدید منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ اقوام متحدہ کے پینل کے غیررسمی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی مندوب یاسر عمار نے کہا کہ جوہری مواد کی پیداوار پر پابندی کے عالمی سطح پر قابل قبول معاہدے میں جوہری ہتھیار رکھنے والے ممالک کے درمیان کوئی بھی امتیاز روا رکھنے سے گریز کیا جانا چاہئے۔

ایسے معاہدے کو تمام ریاستوں کیلئے مساوی تحفظ پر منتج ہونا چاہئے۔ پاکستانی مندوب نے مزید کہا کہ مختلف ممالک کے پاس موجود جوہری مواد کو مدنظر رکھے بغیر اس مواد کی پیداوار روکنے کا اقدام پاکستان کی سلامتی کو شدید خطرات سے دوچار کر دیگا ،ْ ایسا معاہدہ جوہری مواد کے حوالے سے موجودہ صورتحال کو جوں کا توں رکھے گا، مستقل طور پر پاکستان کے مفاد کے خلاف ہوگا اور جنوبی ایشیا کے سٹریٹجک استحکام پر شدید منفی اثرات مرتب کرے گا۔

(جاری ہے)

جوہری عدم پھیلاؤ کے اصولوں کے سیاسی و اقتصادی مفادات کیلئے استعمال اور اس حوالے سے دہرے معیار نے صورتحال کو پہلے ہی پیحیدہ بنا رکھا ہے۔ یہ بات بعض ممالک کے درمیان سول جوہری تعاون کے امتیازی معاہدوں سے بھی عیاں ہے جن کے تحت بعض ممالک کو غیرمنصفانہ رعایتیں دی گئی ہیں۔ جوہری عدم پھیلاؤ کے حوالے سے بعض مخصوص ممالک کو استثناء اور جوہری مواد و ٹیکنالوجی کی برآمد کے بارے میں امتیازی رعایتیں بھی قابل ذکر ہیں۔

پاکستان کی طرف سے جوہری دفاعی صلاحیت حاصل کرنے کی وجوہات بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پاکستان کو اپنے قیام کے بعد 25 سال کے اندر اندر تین بڑی جنگیں لڑنا پڑیں۔ روایتی فوجی برتری کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی برادری کی طرف سے پاکستان کے دیگر ممالک کے ساتھ تنازعات کے حل اور اس کی سلامتی کے تحفظ کی ضمانت دینے میں ناکامی کے بعد پاکستان کے پاس اپنی جوہری دفاعی صلاحیت کو ترقی دینے کے سوا کوئی راستہ نہیں بچا تھا تاکہ جنوبی ایشیا میں امن و سلامتی کو برقرار رکھا جا سکے۔

پاکستانی مندوب نے مزید وضاحت کی کہ ان کے ملک نے جوہری ہتھیاروں کیلئے جوہری مواد کی تیاری پر پابندی پر مشتمل جنرل اسمبلی کی قرارداد کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ پاکستان نے 2014-15ء میں سرگرم ایف ایم سی ٹی پر گروپ آف گورنمنٹل ایکسپرٹس میں شرکت نہیں کی تھی اور وہ ایف ایم سی ٹی کے ایکسپرٹ پریپریٹری گروپ میں بھی شامل نہیں ہوگا جسے جنرل اسمبلی کی مذکورہ قرارداد پر پیش رفت کیلئے تشکیل دیا گیا ہہے۔

پاکستان نے موجودہ اجلاس میں بھی اس وجہ سے شرکت کی کہ وہ اپنے مؤقف کی وضاحت کرنا چاہتا تھا۔ پاکستانی مندوب نے 193 رکنی جنرل اسمبلی کی اس دستاویز کا حوالہ بھی دیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’’تخفیف اسلحہ کے کسی اقدام میں ہر ملک کے سلامتی کے حق کو مدنظر رکھا جائے گا۔‘‘ اس اصول سے عدم مطابقت رکھنے والا تخفیف اسلحہ کے حوالے سے کوئی بھی اقدام پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا اور فیزائل میٹیریل کٹ ۔

آف ٹریٹی پر مذاکرات کے حوالے سے اب تک کی پیش رفت اس بات کا ثبوت ہے۔ کوئی بھی ملک ایسے کسی معاہدے میں شامل نہیں ہو سکتا جو اس کی سلامتی کو خطرات سے دوچار کر دے۔ پاکستانی مندوب نے مزید واضح کیا کہ ان کا ملک جوہری مواد کی پیداوار پر پابندی کیس کسی بھی ایسے معاہدے پر غور کیلئے تیار ہے جس میں مختلف ممالک کے پاس موجود فیزائل میٹیریل اور ماضی میں جمع کی گئی اس کی مقدار کو مدنظر رکھا گیا ہو۔

ایسا کوئی بھی معاہدہ ہماری مفاد میں ہوگا کیونکہ یہ جوہری مواد کی مختلف ممالک کے پاس مقدار سے ہماری عدم تحفظ کو مدنظر رکھے گا۔ مزید برآں ایسا معاہدہ تمام نقائص سے پاک ہونا چاہئے اور اس معاہدے کے تحت جوہری مواد کی پیداوار کی مانیٹرنگ کا انتہائی مؤثر نظام موجود ہونا چاہئے۔ ایسے معاہدے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر استحکام کو فروغ دے اور جوہری توانائی کو پرامن مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے ہر ملک کے حق کو بھی متاثر نہ کرے۔

متعلقہ عنوان :