قطر‘سعودی عرب تنازعہ جنگوں کی ماں کا نقطہ آغازثابت ہوگا؟-اسرائیل ریاست”کنعان کی بحالی کے تیار -قطرکا پالیسی تبدیل نہ کرنے کا اعلان کشیدگی میں اضافے کا سبب بنے گا

-پاکستان نے قطر‘سعودی عرب تنازعے میں غیرجانبدار رہنے کا اعلان کیا ہے مگر پاکستان کے لیے اپنی غیرجانبداری زیادہ دیرتک برقراررکھنا ممکن نہیں ہوگا-سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدات اور مالی اعانت کی وجہ سے سعودی حکومت پاکستان پر دباﺅ بڑھائے گی کہ وہ اس تنازعے میں سعودی عرب کا ساتھ دے-پاکستان پوائنٹ نیٹ ورک کے گروپ ایڈیٹرمیاں محمد ندیم کا مشرق وسطحی کی صورتحال پر خصوصی تجزیہ

Mian Nadeem میاں محمد ندیم جمعہ 9 جون 2017 01:57

قطر‘سعودی عرب تنازعہ جنگوں کی ماں کا نقطہ آغازثابت ہوگا؟-اسرائیل ریاست”کنعان ..
لاہور(اردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین-تجزیہ میاں محمد ندیم۔09 جون ۔2017ء) پاکستان نے قطر‘سعودی عرب تنازعے میں غیرجانبدار رہنے کا اعلان کیا ہے مگر پاکستان کے لیے اپنی غیرجانبداری زیادہ دیرتک برقراررکھنا ممکن نہیں ہوگا-سعودی عرب کے ساتھ دفاعی معاہدات اور مالی اعانت کی وجہ سے سعودی حکومت پاکستان پر دباﺅ بڑھائے گی کہ وہ اس تنازعے میں سعودی عرب کا ساتھ دے-پاکستانیوں میں قطر اور متحدہ عرب امارات سمیت عرب ممالک کے بارے میں یہ تاثرعام پایا جاتا ہے کہ ”برادرعرب مسلمان ممالک“نے ہمیشہ بھارتی مفادات کو پاکستان پر مقدم رکھا ہے متحدہ عرب امارات کی حکومت جوکہ سعودی عرب کی جنگی پالیسیوں میں پیش پیش ہے نے بھارت کو ایم ایف این کا سٹیٹس دے رکھا ہے اور بھارتی وزیراعظم مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد دبئی میں ایک ہندﺅ مندر بھی تعمیر کیا گیا -عرب ممالک میں ملازمتیں کرنے والے پاکستانیوں کو ہمیشہ عربوں کے متکبرانہ رویئے سے شکایات رہی ہیں مگر سعودی عرب کے معاملے پر پاکستان عوام پوری دنیا کے مسلمانوں سے زیادہ جذباتی وابستگی رکھتے ہیں اور سعودی حکومت اور شہریوں سے شکایات کے باوجود حرمین ‘شریفین کے تحفظ کے لیے پاکستانی جانیں قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں-دوسری جانب پاکستان کی شعیہ آبادی ہے جن کی روحانی وابستگی ایران کے ساتھ ہے لہذا پاکستان کی جانب سے سعودی عرب کی بغیرکسی ٹھوس وجہ کے حمایت سے ملک اندرونی طور پر مسائل کا شکار ہوسکتا ہے-دوسری جانب قطر اپنے موقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں ہے اور قطری وزیرخارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان الثانی نے کا بیان سامنے آچکا ہے کہ کشیدگی کے باوجود قطراپنی خارجہ پالیسی تبدیل نہیں کرے گا۔

(جاری ہے)

تاہم ان کا کہنا ہے کہ بحران کے حل کے لیے سفارتی کاری کو ترجیح دیں گے اور اس مسئلے کا کوئی عسکری حل موجود نہیں ہے۔امیر کویت کی جانب سے بحران کے حل کے لیے قطر، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی کوششیں ابھی تک کامیاب نہیں ہوسکیں۔انہوں نے تصدیق کی کہ ایران نے قطر کو خوراک اور پانی کی فراہمی کے لیے تین بندرگاہوں کے استعمال کی پیش کش کی ہے تاہم ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے یہ پیش کش تاحال قبول نہیں کی ہے۔

ادھر روس کا کہنا ہے کہ شیخ محمد ہفتے کے روز ماسکو میں اپنے روسی ہم منصب سرگئی لاروف سے ملاقات کریں گے۔ دونوں راہنماءہنگامی بین الاقومی‘ معاملات زیربحث لائیں گے تاہم اس بارے میں مزید معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔امریکا کی جانب سے دومتضاد بیانات سامنے آچکے ہیں ایک بیان میں صدرڈونلڈٹرمپ قطر‘سعودی عرب تنازعے کو اپنے دورہ سعودی عرب کا نتیجہ قراردے چکے ہیں جبکہ امریکی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکا کو دواہم اتحادیوں کے مابین کشیدگی پر تشویش ہے -صدر ٹرمپ نے اپنے بیان پر شدید عالمی ردعمل کے بعد ثالثی کی پیشکش کی ہے جس کا جواب فریقین کی طرف سے ابھی تک سامنے نہیں آیا-عالمی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سعودی وزیردفاع شہزادہ محمد بن سلمان کی جارحانہ پالیسیوں کی وجہ سے اسلامی دنیا میں سعودی عرب کی غیرجانبدرانہ حیثیت کو نقصان پہنچا ہے اور سعودی عرب شام اور یمن کی خانہ جنگی میں ملوث ہوکر متنازعہ اور جانبدار ملک کے طور پر سامنے آیا ہے-ایران میں حال ہی ہونے والے دوبڑے حملوں سے تہران کی جانب سے شدیدردعمل کا اظہار کیا گیا ہے ‘تہران نے سعودی عرب اور امریکا کو ان حملوں کا ذمہ دار قراردیا ہے مگر دوسری جانب سے تہران عراق میں غیراعلانیہ طور پر امریکا کا پارٹنرہے-مصرکے فوجی آمر جنرل السیسی کے پاس خطے اور دنیا کی بڑی طاقتوں کی خوشامد کے علاوہ کوئی آپشن نہیں ہے کیونکہ وہ ایک منتخب جمہوری حکومت کا تحتہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہوئے ہیں اور ان پر سیاسی کارکنوں اور مخالفین کے قتل عام اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے سنگین الزامات ہیں -اخوان المسلمون مصرمیں ایک سیاسی قوت ہے جس کے وجود سے انکار نہیں کیا جاسکتا اسی طرح حماس فلسطین کی ایک سیاسی حقیقت ہے جس سے نظریں چرانا ممکن نہیںاور سعودی عرب سمیت پوری عرب دنیا حماس کو نہ صرف فلسطینی عوام کی نمائندہ تنظیم کے طور پر تسلیم کرتی رہی ہے بلکہ اس کی مالی ‘اخلاقی اور سفارتی حمایت بھی کرتی رہی ہے- سعودی عرب کے شہزادہ ولید بن طلال کے حوالے سے عالمی ذرائع ابلاغ میں یہ اطلاعات بھی سامنے آچکی ہیں کہ وہ اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان”بیک ڈورڈپلومیسی“کا اہم ترین کردار ہیں اور وہ شہزادہ محمد بن سلمان کے ساتھ مل کر عربوں کے اسرائیل کے ساتھ ”دوستانہ“تعلقات کے لیے سفارتی سطح پر اپنا اثرورسوخ استعمال کررہے ہیں -شہزاہ ولید بن طلال اور محمد بن سلمان کو متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندانوں کی تائیدوحمایت بھی حاصل ہے ادھر مصرکے فوجی آمر بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے پر آمادہ نظرآتے ہیں-ماہرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی ”گریٹراسرائیل“پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کے لیے یہودی ریاست کو” عرب دوستوں“ کی حمایت حاصل ہوچکی ہے اور عظیم تر یہودی ریاست کے قیام کے لیے عرب ریاستوں میں خانہ جنگی او ر باہمی کشیدگی اسرائیل کے وسیع تر مفاد میں ہے-بعض عرب ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا عرب کانفرنس کا بنیادی مقصد عربوں اور اسلامی دنیا پر اسرائیلی عزائم کے خدوخال کو واضح کرنا تھا جس کا اظہار امریکی صدرڈونلڈٹرمپ کے ٹوئٹرپغام کی صورت میں سامنے آیا جس میں انہوں نے برملا اعتراف کیا کہ انہوں نے ہی سعودی عرب اور دیگر ممالک کو قطر کے خلاف محاذ کھولنے پر اکسایا تھا - ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسرائیل”آخری عظیم ترین جنگ“کے لیے تیار ہے اور وہ یہودی مذہبی کتابوں کے مطابق اسرائیل کی ریاست کو مصر‘شام ‘عرب اور افریقہ تک وسیع کرنا چاہتا ہے یہودی مذہبی راہنماﺅں کا خیال ہے کہ ”عملی اقدامات“کے لیے یہ مناسب ترین وقت ہے -تاہم اسرائیل کی جانب سے پیشقدمی کی صورت میں عربوں کی جانب سے شاید مزاحمت سامنے نہ آئے مگر عجم مسلمانوں کی جانب سے شدید ردعمل ہوگا جس کے سدباب کے لیے اسرائیل اور امریکا مل کر منصوبہ بندی کررہے ہیں کہ پاکستان جو کہ اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی طاقت اور اسرائیلی عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن سکتا ہے اسے کسی طرح بھارت‘افغانستان اور ایران کے ساتھ الجھا کر رکھا جائے جبکہ افغانوں کو فوجی طاقت کے ذریعے ‘بھارت اور بنگلہ دیش کے مسلمانوں کو ریاستی جبر کے تحت اتنا دبایا جائے کہ وہ اتنے کمزور ہوجائیں کہ اسرائیل کے لیے مسائل کھڑے نہ کرسکیں -ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ شام کی جنگ کے ساتھ ہی اس ”عظیم جنگ“کا آغازہوچکا ہے جس کی پشیئن گوئی تینوں آسمانی مذاہب کی کتابوں میں موجود ہے اور مشرق وسطحی میں سلگتے یہ انگار کسی وقت بھی خوفناک آگ کا روپ اختیار کرسکتے ہیں-ماضی قریب میں مغربی علماءبھی کہہ چکے ہیں کہ تیسری عالمی جنگ مشرق وسطحی کے صحراﺅں سے شروع ہوگی کچھ مسلمان سکالرزکا خیال ہے کہ ”جنگوں کی ماں“عراق پر پہلے حملے سے ہی شروع ہوچکی ہے جس نے افغانستان ‘عراق‘لیبیا‘شام‘یمن اور کسی حد تک پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے-اسرائیل کی پہلی ترجیح دوہزار قبل ازمسیح کی ریاست کنعان کو دوبارہ قائم کرنا ہے اسرائیل کی جانب سے مختلف ادوار میں اس ریاست کے مختلف نقشے جاری کیئے جاتے رہے ہیں جن کے مطابق کنعان کی تاریخی یہودی ریاست میں موجودہ دور کے مصر‘شام‘اردن‘لبنان اور فلسطین کے علاقے شامل ہیں جبکہ دوسرے مرحلہ میں ریاست کنعان کی توسیع ہے جس میں شام‘مصر‘اردن‘فلسطین‘سعودی عرب اور عراق کے کچھ حصے شامل ہونگے-

متعلقہ عنوان :