سپریم کورٹ ، پرائیویٹ ہسپتالوں کو قانونی دائرہ کار میں لانے کے حوالے سے حکومتوں کے وضع کردہ قوانین پر عملدرآمد کی رپورٹ طلب

منگل 3 اکتوبر 2017 21:51

اسلام آباد ۔ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 03 اکتوبر2017ء) سپریم کورٹ نے ملک بھر میں قائم پرائیویٹ ہسپتالوں کو قانونی دائرہ کار میں لانے کے حوالے سے صوبائی حکومتوں کی طرف سے وضع کردہ قوانین پر عملدرآمد کی رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہاہے کہ عدالت کو سندھ اور بلوچستان کی صورتحال پر افسوس ہوتا ہے۔ دونوں صوبوں کے قانونی افسران صورتحال سے لاعلم رہتے ہیں ان کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ کام نہیں کرنا۔

دونوں صوبوں میں کام کرنے والے لوگوں کو کنارے لگا دیا جاتا ہے۔منگل کو جسٹس اعجاز افضل خان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے ملک بھر میں قائم نجی ہسپتالوں کے حوالے سے مقدمہ کی سماعت کی ، اس موقع پرصوبہ پنجاب اور خیبرپختونخوا کی جانب سے صوبائی قوانین کے حوالے سے تحریری رپورٹس عدالت میں جمع کروائی گئیں۔

(جاری ہے)

جبکہ صوبہ سندھ اور بلوچستان کی طرف سے رپورٹ پیش نہ کرنے پر عدالت نے برہمی کا اظہارکیا ، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہمیں سندھ اور بلوچستان کی صورتحال پر افسوس ہوتا ہے۔

دونوں صوبوں کے قانونی افسران صورتحال سے لاعلم رہتے ہیں ان کا رویہ یہ ہوتا ہے کہ کام نہیں کرینگے۔ دونوں صوبوں میں کام کرنے والے لوگوں کو کنارے پر لگا دیا جاتا ہے۔ سماعت کے دوران ایڈیشنل اٹارنی جنرل فاخرالرحمن نے عدالت ٰ کو استفسارپر بتایا کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم نجی ہسپتالوں کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں اور نہ اس ضمن میں کوئی قانون سازی کی جا رہی ہے۔

عدالت کے استفسار پر پنجاب حکومت کے وکیل نے بتایا کہ پنجاب میں عدالتی نوٹس کے بعد پنجاب ہیلتھ کیئر ایکٹ پاس کرلیا گیا ہے جس کے تحت پرائیویٹ ہسپتالوں کو ریگولرائز کرنے کے لئے اقدامات کئے گئے ہیں۔ اگر عدالت وقت دے تو ابھی تک کی گئی کارروائیوں کے حوالے سے سامنے آنے والے نتائج کے بارے میں مکمل تفصیلی رپورٹ جمع کروا دی جائے گی جس پر عدالت ہدایت کی کہ پنجاب حکومت تحریری رپورٹ کے ذریعے عدالت کو آگاہ کرے کہ متعلقہ قانون پر کس حد تک عملدرآمد کویقینی بنایا گیا ہے ،عدالت کو خیبرپختونخوا حکومت کی طرف سے جمع کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خیبرپختونخوا ہیلتھ کیئر ایکٹ 2015ء نافذ العمل ہو چکا ہے جس میں پرائیویٹ اور سرکاری ہسپتالوں کو ریگولرائز کرنے کا مکمل لائحہ عمل موجود ہے۔

جب سرکاری وکیل سے پوچھا گیا کہ اس قانون پر کیسے عمل کیا جا رہا ہے اور اب تک عوام کو نئے قوانین کی وجہ سے کیا سہولیات میسر آئی ہیں تو ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کے پی کے نے کہاکہ انہں کچھ مہلت دی جائے وہ عدالت کوتفصیلی رپورٹ پیش کردیں گے ، سماعت کے دوران بلوچستان حکومت کی طرف سے کوئی نمائندہ پیش نہ ہوا جس پر عدالت نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل اور سیکرٹری صحت بلوچستان کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کرلیا جبکہ سندھ کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل کی عدالت میں موجودگی کے باوجود متعلقہ قانون سے لاعلمی کے ذکر پرعدالت نے کہا کہ سندھ گورنمنٹ کی طرف سے بھی ہیلتھ کیئر کا قانون 2014ء میں بنایا گیا ہے اس لئے اس پر عملدرآمد کے حوالے سے رپورٹ جمع کرائی جائے اور بتایا جائے کہ صوبے میں جتنے بھی نجی ہسپتال ہیں کیا وہ عوام کو صحت کی سہولیات فراہم کر رہے ہیں یا نہیں۔

بعد ازاں مزید سماعت غیرمعینہ مدت تک ملتوی کر دی گئی ۔

متعلقہ عنوان :