سعودی عرب میں اینٹی کرپشن کمیٹی نے 11 شہزادوں، چار موجودہ اور ’درجنوں‘ سابق وزرا کو گرفتار کر لیا ‘شاہی خاندان کے گرفتار افراد میں شہزادہ ولید بن طلال بھی شامل ہیں-برطانوی ادارے کا دعوی

Mian Nadeem میاں محمد ندیم اتوار 5 نومبر 2017 09:41

سعودی عرب میں اینٹی کرپشن کمیٹی نے 11 شہزادوں، چار موجودہ اور ’درجنوں‘ ..
ریاض(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔05نومبر۔2017ء) سعودی عرب میں نئی اینٹی کرپشن کمیٹی نے 11 شہزادوں، چار موجودہ اور ’درجنوں‘ سابق وزرا کو گرفتار کر لیا ہے۔یہ گرفتاریاں اس اینٹی کرپشن کمیٹی کی تشکیل کے چند گھنٹوں بعد ہی کی گئی ہیں جس کے سربراہ ولی عہد محمد بن سلمان ہیں۔سعودی نشریاتی ادارے نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ان تمام افراد کو محمد بن سلمان کے حکم پر گرفتار کیا گیا۔

تاہم گرفتار کیے جانے والے افراد کے نام ظاہر نہیں کیے گئے ہیں۔کہاجارہا ہے کہ شہزادہ محمد بن سلمان اپنی طاقت کو مستحکم کرتے ہوئے اصلاحاتی پروگرام کو تیز کرنا چاہتے ہیں۔کمیٹی نے یہ بھی اعلان کیا ہے کہ وہ 2009 میں جدہ میں آنے والے سیلاب کی فائل بھی دوبارہ کھو ل رہی ہے جبکہ کورونا وائرس کی بھی تحقیقات کی جائیں گی۔

(جاری ہے)

شاہ سلمان کی جانب سے جاری ہونے والے شاہی فرمان کے مطابق اینٹی کرپشن کمیٹی کی سربراہی شاہ سلمان نے کی جبکہ ان کے ساتھ مانیٹرنگ اینڈ انویسٹی گیشن کمیشن کے چیئرمین، نیشنل اینٹی کرپشن اتھارٹی کے سربراہ، آڈٹ بیورو کے چیف، اٹارنی جنرل اور سٹیٹ سکیورٹی کے سربراہ بھی شریک تھے۔

اس نئی کمیٹی کے پاس کرپشن کرنے والے افراد کے خلاف تحقیقات کرنے، انھیں گرفتار کرنے اور ان پر سفری پابندیاں لگانے کے ساتھ ساتھ ان کے اثاثے منجمد کرنے کا حق بھی ہے۔دوسری جانب سعودی نیشنل گارڈ اور نیوی کے سربراہ اپنے عہدوں سے برطرف کر دیے گئے ہیں۔سعودی نشریاتی ادارے کا کہنا ہے کہ سعودی شاہ سلمان نے نیشنل گارڈ کے وزیر شہزادہ میتاب بن عبداللہ اور نیوی کمانڈر اڈمرل عبداللہ بن سلطان بن محمد ال سلطان کو عہدوں سے ہٹایا۔

تاہم اس حوالے سے کوئی باقاعدہ وضاحت نہیں دی گئی ہے۔دوسری جانب سعودی علما نے کرپشن کے خلاف حکومت اقدام کی بھرپور حمایت کا اعلان کردیا ہے اور کہا ہے کہ کرپشن کے خلاف جنگ مذہبی فریضہ ہے، جس سے لڑنا دہشت گردی سے مقابلے جتنا اہم ہے۔سعودی عرب نے دہشت گردی اور اس کی معاونت کے خلاف نئے قوانین کا اعلان کردیا ہے۔سعودی عرب میں بادشاہ اور ولی عہد کو بدنام کرنے یا ان کی توہین کونے والے شخص کو 5 سے 10 برس قید کی سزا دی جائے گی۔

رپورٹ کے مطابق نئے قوانین کے تحت اسلحہ ، دھماکا خیز مواد کے ساتھ دہشت گردی کرنے والے کو 10 سے 30 برس قید ہوگی جبکہ سعودی عرب میں دہشت گردی یا اس کی فنڈنگ کرنے والے کو سزائے موت دی جاسکے گی۔اسلحہ اور ٹیلی کمیونی کیشن آلات کے ذریعے دہشت گردی کی تربیت لینے والوں کو 20 سے 30 جبکہ اکیڈمک ،سماجی یا میڈیا کے ذریعے اپنے اسٹیٹس کا غلط استعمال کرنے والے کو 15 برس قید ہوگی۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق دنیا کے امیر ترین کاروباری افراد میں شمار ہونے والے شہزادہ طلال بن ولید بھی سعودی حکومت کی جانب سے کرپشن اور منی لانڈرنگ کے الزامات میں گرفتار ہونے والوں میں شامل ہیں-تاہم ان کی گرفتاری کی تاحال سرکاری طور پر تصدیق نہیں ہوسکی۔ذرائع سے سامنے آنے والی الولید بن طلال کی گرفتاری کی خبر درست ہے تو دنیا بھر کی بڑی کاروباری شخصیات کے لئے یہ بات کسی دھچکے سے کم نہیں کیونکہ کھرب پتی سعودی شہزادے نے دنیا کے نامور ترین مالیاتی اداروں میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔

شہزادہ ولید بن طلال سعودی شاہ سلمان کے سوتیلے بھتیجے ہیں اور دنیا کے امیر ترین لوگوں میں شمار ہوتے ہیں،ان کے والد کا نام طلال بن عبدالعزیز آل سعود ہے۔شہزادہ ولید بن طلال ذاتی سفر کے لئے سپر جمبواستعمال کرتے ہیں ،ان کے ذاتی ہوائی جہاز کی قیمت500 ملین ڈالرز ہے، ولید بن طلال کے ٹرمپ کی بیٹی کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات ہیں اور وہ ان کی بہترین دوست ہے۔

شہزادہ ولید دنیا کے امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں اور یہاں تک ہوچکا ہے کہ 2013ءمیں جب جریدے فوربز نے انہیں 26 ویں نمبر پر رکھا تو ان کی جانب سے اس پر شدید تنقید کی گئی کہ انہیں ان کا صحیح مقام نہیں دیا گیا۔شہزادہ ولید کی میڈیا کے شعبوں میں بھاری سرمایہ کاری موجود ہے اور ایک مشہور عالمی بینک میں بھی ان کے شیئرز ہیں،وہ دنیا کے 100 بااثر افراد میں بھی شامل رہ چکے ہیں۔

ٹرمپ کے اقتدار سنبھالنے پر شہزادہ ولید بن طلال نے کہا تھا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے دوران امریکا سعودی تعلقات بہت بہتر ہوں گے کیونکہ ٹرمپ کے خاندان کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات ہیں اور وہ ٹرمپ کو قریب سے جانتے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ سعودی عرب میں خواتین پر گاڑی چلانے کی پابندی ختم کروانے میں بھی ان کی کوششیں بھی شامل ہیں۔انہوں نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان میں کہا ہے کہ خواتین پر ڈرائیونگ کی پابندی ختم کرنا نہ صرف ملکی معیشت بلکہ خواتین کے حقوق کے لیے بھی ضروری ہے۔

متعلقہ عنوان :