تائیوان کی اعلیٰ عدالت کا ایک انوکھا فیصلہ

ایک شخص کو اپنی ماں کو اس کی پرورش ، اس کی دندان سازی کی تعلیم پر آنے والے اخراجات کے حوالے سے دس لاکھ ڈالر واپس کرنے کی ہدایت ماں نے اپنے بچے کے ساتھ 1997 میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جب وہ 20 سال کا تھا، معاہدے کے مطابق بچے نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی ماں کو اپنی ماہانہ آمدنی کا 60 فیصد حصہ دینا تھا

منگل 2 جنوری 2018 22:46

تائیوان کی اعلیٰ عدالت کا ایک انوکھا فیصلہ
تائپی (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - آن لائن۔ 02 جنوری2018ء) تائیوان کی ایک اعلیٰ عدالت نے ایک شخص کو حکم دیا ہے کہ وہ اپنی ماں کو اس کی پرورش اور اس کی دندان سازی کی تعلیم پر آنے والے اخراجات کے حوالے سے اسے دس لاکھ ڈالر واپس کرے۔ماں نے اپنے بچے کے ساتھ 1997 میں ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے جب وہ 20 سال کا تھا۔ معاہدے کے مطابق بچے نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد اپنی ماں کو اپنی ماہانہ آمدنی کا 60 فیصد حصہ دینا تھا۔

جب کئی سال تک بچے نے معاہدے کے مطابق پیسے نہیں دیے تو ماں نے اس پر مقدمہ کر دیا۔بچے کا موقف تھا کہ پرورش کے پیسے مانگنا مناسب نہیں ہے، لیکن عدالت کا کہنا تھا کہ معاہدہ درست تھا اور اس کا پاس ہونا چاہیے تھا۔بچے کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ پچھلی ساری ماہانہ اقساط بمعہ سود کے اپنی والدہ کو ادا کرے۔

(جاری ہے)

ماں نے، جس کا نام صرف لو بتایا گیا ہے، اپنے شوہر سے طلاق کے بعد اپنے دونوں بچوں کی پرورش کی۔

مس لو کا کہنا ہے کہ اس نے دونوں بچوں کو دندان سازی کی تعلیم دلوانے کے لیے ہزاروں ڈالر خرچ کیے، لیکن اس کے ساتھ اس کو یہ بھی ڈر تھا کہ کہیں بڑھاپے میں یہ نہ ہو کہ دونوں بچے اس کا خیال رکھنے سے انکار کر دیں۔اس واسطے اس نے اپنے دونوں بچوں کے ساتھ ایک معاہدے کیا کہ وہ اپنی آمدنی کا ایک حصہ اسے دیں گے جو کہ ان کے سکول کی فیس پر آنے والے خرچے کے برابر ہو گا جو کہ 17 لاکھ ڈالر ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق بڑے بیٹے نے اپنی والدہ سے معاہدہ کیا اور ایک چھوٹی رقم اسے دینے پر اسے راضی کر لیا۔تاہم چھوٹے بیٹے نے، جسے اس کے نام چو سے پکارا جا رہا ہے، یہ کہا کہ جب اس نے دستخط کیے تھے تو وہ کافی چھوٹا تھا اور اس معاہدے کو درست نہ مانا جائے۔چو کا موقف ہے کہ وہ کئی سال اپنی ماں کے ڈینٹل کلینک میں کام کرتا رہا ہے اور اس نے اس سے کئی زیادہ پیسے اسے کما کر دیے ہیں جن کا اس سے مطالبہ کیا جا رہا ہے۔سپریم کورٹ کی ترجمان نے بتایا کہ ججوں نے اپنا فیصلہ اس بنیاد پر دیا ہے کہ جب بچے نے معاہدے پر دستخط کیے تو بالغ تھا اور اس پر کسی قسم کا کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا تھا۔۔

متعلقہ عنوان :