ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی پر نیٹو سپلائی بند کردینی چاہئے، سید ناصر حسین شاہ

امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے، معین الدین حیدر،امریکی دھمکی کا جواب سفارتی انداز سے دینا ہوگا، ایئر مارشل (ر) ریاض الدین شیخ امریکہ نے جسارت کی تو افغانستان میں فوجی اڈے ہمارا ہدف ہونگے، نصرت مرزا،دشمن کے بیانیے کیخلاف متحد ہونا ہوگا، پروفیسر فرید احمد دایوودیگر کا کانفرنس سے خطاب

پیر 15 جنوری 2018 17:34

ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی پر نیٹو سپلائی بند کردینی چاہئے، سید ناصر حسین ..
کراچی(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 15 جنوری2018ء) پاکستان کے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق نمائندہ افراد کی ایک گول میز کانفرنس رابطہ فورم انٹرنیشنل کے تحت منعقد ہوئی، جس کی صدارت لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کی اور اس کے مہمان خصوصی وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ تھے۔ اس موقع پر مختلف یونیورسٹی کے پروفیسر حضرات جن میں پروفیسر ڈاکٹر شائستہ وزارت، ڈاکٹر ہما بقائی، پروفیسر سیما ناز صدیقی، پروفیسر ڈاکٹر شجاعت حسین، وکلاء میں پروفیسر فرید احمد دایو، نائب صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن یاسین آزاد، سابق صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، کراچی بار ایسوسی ایشن کے صدر حیدر امام رضوی، پریس کلب کے صدر احمد خان ملک، سابق فوجی افسران میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر، وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں، ایئرمارشل (ر) ریاض شیخ اور کموڈور (ر) سید عبیداللہ، تاجروں میں یاسمین حسنین اور شیراز، مقررین نے پاکستان سے یکجہتی کا اظہار کیا اور پاکستان پر حملہ کی صورت میں وہ سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔

(جاری ہے)

وزیر اطلاعات سندھ سید ناصر حسین شاہ نے کہا کہ ملک کی سالمیت کے لئے ہم سب ایک ہیں، اگر دشمن نے حملہ کیا تو اس کا بھرپور جواب دیا جائے گا، ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی سے ہم ڈرنے والے نہیں ہیں، سلسلہ واقعہ کے بعد پیپلزپارٹی کی حکومت نے نیٹو سپلائی بند کردی تھی، اب بھی ایسا ہی ردعمل آنا چاہئے ہم امریکہ کے خلاف حکومت کے ہر موقف پر ان کے ساتھ ہیں، امریکیوں نے ہمارے سویلین اور عسکری نوجوانوں کی قربانیوں کا احساس نہیں کیا، 70 ہزار سے زائد جانیں قربان کرنے کے باوجود ہمیں دھمکی دی جارہی ہے یہ ہمارے لئے ناقابل برداشت ہے۔

سابق گورنر سندھ لیفٹیننٹ جنرل (ر) معین الدین حیدر نے کہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں امریکی قربانی نہیں دے سکتے، پاکستان نے ہزاروں لوگوں کی جان کی قربانی دی ہے، معاشی نقصان برداشت کیا ہے، ہمارا سوشل فبرکس افغان جنگ کی وجہ سے تباہ ہوچکا ہے، امریکہ ہمیں 33 ارب ڈالر کی امداد کا طعنہ دے رہا ہے، آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے قرضوں کی بات کرتا ہے، اس وقت امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی پر خود امریکہ میں سنجیدہ حلقے بھی پریشان ہیں، پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سرد، گرم انداز سے برقرار رہیں گے۔

ڈاکٹر ہما بقائی نے کہا کہ خارجہ پالیسی اسکرپٹڈ نہیں ہوتی یہ ردعمل ہوتی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ نے جس انداز سے ٹوئٹ کیا وہ ناقابل قبول ہے، ہمیں خطے کی صورتِ حال کے مطابق پالیسی بنانا ہوگی، چین کی وجہ سے ہمارا امریکہ پر انحصار کم ہورہا ہے، ہمارے خلاف امریکی بیانیے کی ایک وجہ چین بھی ہے، ہمیں اصل خطرہ معاشی میدان میں ہے، بڑھتا ہوا قرض اور معاشی بدحالی چیلنج ہے، دنیا نے ہمارے خلاف جو فیصلہ کرلیا ہے اس کا ادراک کرنا ہوگا۔

ڈاکٹر شاہدہ وزارت نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ ملکوں کے سربراہوں کے درمیان غیرسفارتی انداز کے کلچر کو فروغ دے رہے ہیں، ’’توتو میں میں‘‘ غیرمہذب انداز کو پروان چڑھا رہے ہیں، امریکہ کا یہ طریقہ واردات ہے کہ پہلے دباؤ ڈالو پھر حملہ کرو، یہی انداز عراق، افغانستان، لیبیا میں اختیار کیا گیا، اب پاکستان ہدف ہے۔ وائس ایئرمارشل (ر) ریاض الدین شیخ نے کہا کہ ہمیں اپنا موقف اچھی طرح پیش کرنا ہوگا، ڈونلڈ ٹرمپ نے جو کچھ کہا یہ اچانک نہیں ہوا، حسین حقانی جب امریکہ میں سفیر تھے تو کیری لوگر بل پیش ہوا تھا اُس بیانیے سے ہمیں امریکی پالیسی کا اندازہ لگا لینا چاہئے تھا، آج کی دنیا میں لڑائی کے لئے فوجیں آمنے سامنے نہیں آتی بلکہ الیکٹرونک، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے بھی جنگیں کی جاتی ہیں، ہمیں بدلتے ہوئے امریکی رویے کے اسبسب پر بھی غور کرنا ہوگا۔

وائس ایڈمرل (ر) آصف ہمایوں نے کہا کہ گزشتہ 33 سال میں امریکی 13 جنگیں لڑ چکی ہیں۔ جن پر 14 ٹریلین ڈالر کے اخراجات آئے، اب پاکستان ہدف ہے لیکن ہم اتنے کمزور بھی نہیں ہیں، ہماری سول اور عسکری قیادت نے امریکیوں کو اچھا جواب دیا ہے۔ ہمیں دوطرفہ دباؤ کا سامنا ہے، ایک طرف امریکہ دھمکا رہا ہے دوسری جانب ہم سے آٹھ گناہ زیادہ طاقت کا حامل روایتی دشمن ہے لیکن ہماری قوم اور مسلح افواج ہر قسم کے خطرے سے نمٹنے کے لئے تیار ہے۔

کراچی بار کے صدر سید حیدر امام رضوی نے کہا کہ ہمیں صورتِ حال کا اچھی طرح جائزہ لینا چاہئے، جذباتی پن سے گریز کرنا چاہئے، امریکہ ایک بڑی طاقت ہے جبکہ ہم دہشت گردی اور معاشی مشکلات کا شکار ہیں، امریکی دھمکی کے جواب میں حقیقت پر مبنی بیانیے اور خارجہ پالیسی تشکیل دینا ہوگی، نیٹو سپلائی اور فضائی راستے بند کرنے کی باتیں جذباتی پن کا اظہار ہیں، ہماری تجارت کا انحصار امریکہ پر ہے اگر ہم سخت ردعمل دکھائیں گے تو امریکہ اس کے جواب میں اقتصادی پابندی لگوا سکتا ہے، اس وقت ہوش مندی کی ضرورت ہے۔

سپریم کورٹ بار کے نائب صدر پروفیسر فرید احمد دایو نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے بیان پر ہمیں خوفزدہ نہیں ہونا چاہئے، اللہ پر بھروسہ رکھیں دشمن کا غرور خاک میں ملے گا، ہمیں اپنی کمزوریوں کو دور کرنا ہوگا، معاشی مسائل اہم ہیں جس کی وجہ بدعنوانی ہے، اگر اس پر قابو پا لیں تو ہر طرح کے دشمن سے نمٹ سکتے ہیں۔سپریم کورٹ بار کے سابق صدر یاسین آزاد نے کہا کہ ہماری مغربی سرحد محفوظ تھی، 1830 کلومیٹر لمبی افغان سرحد پر ہماری 40 فیصد عسکری طاقت لگی ہوئی ہے جبکہ ایران کے ساتھ 830 کلومیٹر لمبی پٹی پر بھی صورتِ حال قابل اطمینان نہیں ہے ہمیں امریکی دھمکیوں کے جواب میں اپنے دوستوں سے رجوع کرنا چاہئے، امریکہ براہ راست حملہ نہیں کرسکتا لیکن سرجیکل اسٹرائیک کرسکتا ہے، سلالہ جیسا واقعہ دوبارہ رونما ہوسکتا ہے۔

کراچی پریس کلب کے صدر احمد ملک نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس 33 ارب ڈالر کی امداد کا ذکر کیا وہ درست نہیں، امداد ہمیں صرف 3 ارب ڈالر ملی ہے جبکہ 30 ارب ڈالر دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ پر خرچ کی گئی ہے، ڈونلڈ ٹرمپ جیسے غیرسنجیدہ لوگ ملکوں کی تباہی کا سبب بنتے ہیں، ٹرمپ امریکہ کے لئے گورباجوف ثابت ہوں گے۔رابطہ فورم کے چیئرمین اور سینئر تجزیہ کار نصرت مرزا نے کہا کہ امریکیوں کو معلوم ہے کہ پاکستان جواب میں ان کے ساتھ کیا کرسکتا ہے، افغانستان میں امریکہ کے 9 فوجی اڈے ہماری دسترس میں ہیں، اگر امریکہ نے جسارت کی تو اس کا بھرپور جواب افغانستان میں دیا جائے گا، افغانستان کی جنگ امریکہ ہار چکا ہے، جس کا ملبہ وہ پاکستان پر ڈال رہا ہے، ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی پر ہماری طرف سے اچھا جواب دے دیا گیا ہے۔

رائونڈ ٹیبل کانفرنس سے کموڈور (ر) سید عبیداللہ اور وفاقی اُردو یونیورسٹی کی پروفیسر سیما ناز صدیقی نے بھی اپنے خطاب میں کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی دھمکی پر ہم نے بھرپور جواب دے دیا ہے، امریکی جنرلز بھی ٹرمپ کے اس انداز سے پریشان ہیں، پاکستان کی سول اور عسکری قیادت نے مناسب ردعمل دیا ہے، سی پیک کی وجہ سے ہم امریکہ، بھارت اور اسرائیل کا ہدف بن رہے ہیں لیکن یہ گٹھ جوڑ ناکام ہوگا، چین، روس، ایران اور ترکی جس انداز سے ہمارے موقف کو تسلیم کررہے ہیں وہ ہمارے لئے حوصلہ افزا ہے۔